نواب میر عثمان علی خان - نظام آف حیدرآباد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-02

نواب میر عثمان علی خان - نظام آف حیدرآباد

Mir-Osman-Ali-Khan
ریاست حیدرآباد کے والی ریاست نواب میر عثمان علی خان بہادر تھے۔ ان کو "نظام آف حیدرآباد" کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ حیدرآباد کی رعایا انہیں محبت سے "حضور نظام" کے نام سے یاد کرتی تھی۔ انہوں نے 37 سال ریاست حیدرآباد پر، 1911ء سے 1948ء، حکومت کی۔ انہوں نے رعایا کی بھلائی کیلئے کام کیا اور ان کی فلاح وبہبود میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مدینہ ایجوکیشن سینٹر نے نواب میر عثمان علی خان کی قیادت میں جو ترقی حیدرآباد میں ہوئی تھی اس کو عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے "نواب میر عثمان علی خان میموریل لیکچر سیریز" کا آغاز کیا ہے اور اس کے افتتاحی جلسے میں بیشمبر ناتھ پانڈے (Bishambhar Nath Pande) سابق گورنر ریاست اوڈیشہ کو آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں جو بات کہی وہ ملاحظہ فرمائیے:

"نواب میر عثمان علی خان، نظام آف حیدرآباد، بہت ہی ترقی پسند بادشاہ تھے۔ ریاست حیدرآباد میں انہوں نے تعلیم کو عام کرنے کیلئے مدارس اور اسکول ہر جگہ کھولے۔ اس کیلئے ماہرین تعلیم کو فلاسفروں کو اس کام کو انجام دینے کیلئے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ ڈاکٹر اغرناتھ چتو پادھیائے، جو سروجنی دیوی کے والد تھے، انہیں نظام کالج کا پرنسپل مقرر کیا۔ نواب میر عثمان علی خان نے ملاعبدالقیوم جو ماہر تعلیم ہیں ان کو بچوں کی تعلیم کا پروگرام تیار کرنے حکم صادر کیا۔ ملاعبدالقیوم نے حیدرآباد میں کانگریس پارٹی کی ایک شاخ قائم کی تھی۔ لیکن حکومت برطانیہ کے Resident General ریذیڈنٹ جنرل نے نظام آف حیدرآباد کو مجبور کیا کہ وہ ڈاکٹر اغورناتھ چٹو پادھیائے [Aghornath Chattopadhyay] اور ملاعبدالقیوم کو اپنے عہدوں سے برخاست کردیں۔ کچھ عرصے کے بعد حضور نظام نے ان کو دوبارہ اپنے عہدوں پر مامور کردیا۔ نواب عثمان علی خان قابل تعریف اور سراہنے کے لائق ہیں کہ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کو ہندوستان کی مشہور یونیورسٹیوں کی پہلی صف میں کھڑا کردیا۔ مہاراجہ کشن برشاد اور سرمرزا اسمعیل کی خدمت سے حیدرآباد کی ترقی کو اور آگے بڑھایا۔ دونوں اشخاص نے جو کام حیدرآباد کے عوام کی بھلائی کیلئے کیا وہ قابل ستائش ہے۔

ریاست حیدرآباد نہ صرف اردو ادب اور اردو زبان کی ترقی کا مرکز ہے بلکہ ہندی کی جائے پیدائش بھی، جب ہندی کو ہندوی کہا جاتا تھا۔ ہندوی کا پہلا شاعر بھی حیدرآباد میں پیدا ہوا تھا۔ نواب میر عثمان علی خان نے سائنس کی کتابوں کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو میں ادب اور سائنس کی کتابوں کا ترجمہ ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے طلباء کیلئے کیا۔ ادب اور لٹریچر کی شخصیت حیدرآباد میں تھیں ان میں ڈاکٹر عبدالحق اور پنڈت دتاتریا کیفی قابل ذکر ہیں۔ مہاراجہ کشن پرشاد ہندوستان کی ملی جلی تہذیب کی ایک بہترین مثال ہیں۔ ان سب ممتاز ہستیوں کی ہمت افزائی نواب میر عثمان علی خان نے کی۔
ان الفاظ کے ساتھ میں نواب میر عثمان علی خان کو نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں۔"

گورنر بیشمبر ناتھ پانڈے نے مدینہ ایجوکیشن کے سیکریٹری جنرل کے یم عارف الدین کا بھی شکریہ ادا کیا۔ کے یم عارف الدین صاحب نے "میر عثمان علی خان" کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ میں اس کتاب کے آخری صفحات کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔

"نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع ایک بہت ہی ہر دل عزیز مغل بادشاہ تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دولت جمع کی، دولت کا انبار لگا دیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دولت ریاست حیدرآباد کے عوام میں بھی تقسیم کردی۔ انہوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ میں بجلی کا انتظام کیا اور مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ میں پنکھے لگوائے۔ حیدرآباد کے حاجیوں کی سہولت کیلئے مکہ معظمہ میں کئی رباط تعمیر کئے۔ خود اپنی ریاست میں مسجدوں، مندروں اور چرچ کی تعمیر میں بھی رقم مہیا کی اور تعلیمی اداروں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور لیڈی ہارڈنگ [Lady Hardinge] میڈیکل کالج اور برٹش ریڈ کراس کی بھی مدد کی، نظام نے کئی وقف قائم کئے۔ ان میں قابل ذکر [] چیراٹبل ٹرسٹ جو بچوں کی اسکالر شپ کیلئے بنایا گیا تھا۔ جس کی مالیت 20 ملین پاؤنڈ تھی۔ انہوں نے سلطنت آصفیہ کے شہزادوں اور شہزادیوں کیلئے جو ٹرسٹ قائم کیا تھا اس کی مالیت 44 ملین ڈالر تھی۔

جس وقت برصغیر ایشیاء کی آزادی کی بات چل رہی تھی اس وقت لندن سے لارڈ کرپس [Lord Cripps] ہندوستان پہنچے اور انہوں نے میر عثمان کو یہ بات کہی کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہوگی تب ریاست حیدرآباد کو یہ اختیار رہے گا کہ وہ انڈین یونین میں شامل ہوں یا خود مختار رہیں۔ 11 جون 1947ء کو نواب میر عثمان علی خان نے ایک شاہی فرمان جاری کیا اور اس فرمان کے ذریعے اپنی خود اختیاری کا اعلان کر دیا۔
قاسم رضوی صاحب کی قیادت میں رضا کار تحریک نے بھی اس اعلان کی حمایت کی۔ اس تحریک نے یہ جذباتی اعلان کیا کہ ایک دن وہ حیدرآباد کے جھنڈے کو دہلی کے لال قلعے پر لہرادیں گے۔ رضا کار تحریک نے لوگوں کے دلوں میں ولولہ، جوش اور دہشت گردی پھیلادی۔
ہندوستان کو 15 اگست 1947ء کو آزادی مل گئی اور حیدرآباد ایک آزاد ملک کی صورت میں نمودار ہوا۔ لیکن یہ صورت حال زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکی کیوں کہ سیاسی اور جغرافیائی حالات اس کے خلا ف تھے۔ آزاد ریاست حیدرآباد نے ایک وفد یونائٹیڈ نیشن سیکورٹی کونسل (United Nation Security Council) کو 10 ستمبر 1948ء کو بھیجا اور اپنی آزادی کے معاملے کی بحث کیلئے پیش کردیا۔ محمد علی جناح، صدر پاکستان نے نظام کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ دہلی میں جو بات چیت آزاد حیدرآباد کے نمائندے اور انڈین یونین کے حکام میں چل رہی تھی وہ اختتام کو نہیں پہنچ سکی۔ انڈیا نے 13 ستمبر 1948ء کو حیدرآباد پر "پولیس ایکشن" کے نام سے حملہ کردیا اور قبضہ کرلیا۔

نظام نے اپنے آپ کو ایسے موقف میں پایا جہاں وہ نہ اپنی فوج پر بھروسہ کرسکتے تھے اور نہ ہندوستان میں ریاست حیدرآباد کو ضم کرنے کی بات چیت کو جاری رکھ سکتے۔ انہیں اپنی کونسل آف منسٹر کی تائید چاہئے تھی۔ حیدرآباد کی فوجوں کا یہ خیال تھا کہ وہ تین مہینے تک ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ لیکن پولیس ایکشن کو مکمل کرنے کیلئے صرف تین دن لگے۔ میر عثمان علی خان نے لڑائی بند کرنے کا اعلان کردیا۔ 17 ستمبر 1948ء کو منسٹروں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ ہندوستان کے ملٹری گورنر جے ین چوہدری نے 2 دن کے بعد حیدرآباد ریڈیو پر اعلان کیا کہ لڑائی ختم ہوگئی ہے۔
ہندوستان کی حکومت نے میر عثمان علی خان کو 26 جنوری 1950ء سے 31 اکتوبر 1956ء تک "راج پرمکھ" کے خطاب سے حیدرآباد کا حاکم مقرر کیا۔

1956ء میں ہندوستان نے زبان اور بولی کی بنیاد پر ایک نئے نقشے کو پیش کیا۔ حیدرآباد دکن آندھرا پردیش کا دارالحکومت یکم نومبر 1956ء کو بن گیا۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے میر عثمان علی خان کو گورنر بننے کی پیشکش کی جو انہوں نے رد کردی۔ 24 فروری 1967ء کے دن 81 سال کی عمر میں میر عثمان علی خان اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ ان کا انتقال شاہی محل "کنگ کوٹھی" میں ہوا۔ ان کی وفات کے ساتھ ساتھ آصف جاہی سلطنت جو 250 سال سے دکن پر حکومت کررہی تھی ختم ہوگئی۔

ان کی وفات کی خبر ساری ریاست میں ایک آگ کی طرح پھیل گئی۔ حیدرآباد میں آہ و فغاں اور آہ وزاری کی صفیں بچھ گئیں۔ نہ صرف حیدرآباد بلکہ آندھرا پردیش ریاست، بمبئی اور ریاست میسور کے تمام اضلاع میں جو ریاست حیدرآباد کا حصہ تھے، ان سب ضلعوں میں ماتم منایا گیا۔ شاہی محل کنگ کوٹھی پر جو جھنڈا ہمیشہ لہراتا تھا اس جھنڈے کو میر عثمان علی خان کے کفن پر چادر کے طور پر ڈھانکا گیا۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔ رضا علی خان صاحب جو حیدرآباد پر دو کتابیں لکھ چکے ہیں انہوں نے اپنی تصنیف کی ہوئی کتابوں میں لکھا کہ 10 لاکھ لوگوں کے ساتھ ساتھ جن لوگوں نے میر عثمان علی خان کی نماز جنازہ ادا کی، اس کی تعداد اتنی بڑی تھی کہ حیدرآباد میں کبھی اتنے لوگوں نے مکہ مسجد میں نماز ادا نہیں کی تھی۔ مکہ مسجد کے ایک خاص احاطہ میں آصف جاہی خاندان کے بادشاہوں کی قبریں ہیں۔ لیکن میر عثمان علی خان نے اپنی وصیت میں یہ لکھا کہ ان کو جودی مسجد جوکنگ کوٹھی کے قریب ہے وہاں پر دفن کیا جائے۔ تدفین ان کی والدہ محترمہ زہرہ بیگم کے بغل میں ہوئی۔

نواب میر عثمان علی خان نے اپنے پوتے پرنس مکرم جاہ کو اپنا جانشین بنایا۔ ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں نے پرنس سے سوال کیا کہ وہ کس طرح کی عمارت نواب میر عثمان علی خان کی یاد میں تعمیر کرنا چاہیں گے تب انہوں نے فوراً جواب دیا۔ "جنٹل مین! ان کی یاد میں کسی عمارت کی تعمیر کی ضرورت نہیں ہے"۔ لوگوں کو ان کا جواب سن کر تعجب ہوا۔ ایک منٹ تک ہال میں سناٹا چھا گیا۔ ایک صحافی نے آگے بڑھ کر سوال کیا۔ "آپ کیوں نہیں چاہتے کہ ان کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر ہو" پرنس نے جواب دیا۔" آپ اس شہر میں گشت کریں اور گھوم پھر کر ہر عمارت کو دیکھیں۔ یہ سب انہی کی تعمیر کی ہوئی عمارتیں ہیں۔ اور میں کوشش بھی نہیں کرنا چاہوں گا کہ کوئی عمارت تعمیر کروں"۔
(اقتباس: کے یم عارف الدین کی کتاب "میر عثمان علی خان")

نواب میر عثمان علی خان بہادر، آصف جاہ سابع نظام آف حیدرآباد نے اپنی ریاست، ریاست حیدرآباد کے عوام کی فلاح وبہبود میں کوئی کثر نہیں چھوڑی، یہ ایک بڑی ہی مزیدار بات ہے کہ ہالی وڈ کی فلمی دنیا میں ان کا نام، مشہور اور دولت مند پروڈیوسر اور فلمی ستارے جانتے تھے۔ گراوچو مارکس، فلمی ستارے کا اپنا شو تھا۔ اس شو پر میر عثمان علی خان کا ذکر آیا۔ گراوچو مارکس نے فوراً کہا:
"ہاں! نظام آف حیدرآباد دنیا کا سب سے دولتمند انسان تھا۔ہالی وڈ کے پروڈیوسر اور ناول نگار وڈی ایلن نے اپنی افسانوں کی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ وہ بچپن میں کھیلتے وقت جب اپنی نقلی مونچھوں کو لگا کر دوستوں کے سامنے آئے تو وہ نظام آف حیدرآباد نظر آتے تھے۔ انہوں نے یہ بات اپنے لکھے ہوئے افسانے "تندوری ران سم" (Tandoori Ran sim) میں کہی۔ نظام آف حیدرآباد کا شمار دنیا کے صف اول کے ارب پتی لوگوں میں ہوتا ہے۔

آصف جاہی سلطنت کے بادشاہوں نے حیدرآباد ریاست پر 225 سال تک حکومت کی (1724-1948)۔ نواب میر عثمان علی خان ساتویں اور آخری بادشاہ تھے۔ انہوں نے 37 سال حیدرآباد پر حکومت کی (1911-1948)۔ اپنی ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ مرہٹواڑا، کرناٹکا اور تلنگانا۔ ان تین علاقوں میں مرہٹی، کرناٹکی اور تلگو زبانیں تھیں۔ پھر عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کو ذریعہ تعلیم عام کیا۔ حیدرآباد کی سرکاری زبان اردو تھی۔ نظام آف حیدرآباد کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں ایک نواب بادشاہ تھا اور ایک مہاراجہ وزیراعظم تھا۔ میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع بادشاہ تھے اور سرمہاراجہ کشن پرشاد وزیراعظم تھے۔ وہ ہندو اور مسلمان کو اپنی دونوں آنکھ سمجھتے تھے۔

(1724-1948) کے دوران 43 وزیر اعظم نے آصفیہ سلطنت کی خدمت کی۔ سب سے پہلے وزیراعظم دیانت خان تھے اور سب سے آخری وزیراعظم میر لائق علی خان تھے جو بعد میں پاکستان چلے گئے۔ حیدرآباد کے شہری اور ہندو وزیراعظم کے نام ہیں۔ رام داس، راجہ پرتاب ونت وئل سندر، شام راج راجہ رائے ریان، مہاراجہ چندو لعل، راجہ رام بخش، راجہ گنیش راؤ، راجہ نریندر پرشاد اور سر کا خطاب پانے والے میر عثمان علی خان کے وزیراعظم تھے ، سر مہاراجہ کشن پرشاد اور دوسرے سر کا خطاب پانے والے وزیراعظم سر آسمان جاہ، وقار العمراء سر اکبر حیدری اور سر مرزا اسمٰعیل تھے۔
hyderabad-highcourt-currency
برصغیر ایشیاء کی سب سے بڑی ریاست، ریاست حیدرآباد تھی۔ جب نواب میر عثمان علی خان حکومت کررہے تھے اس وقت حیدرآباد کا مسئلہ رائج الوقت سکۂ عثمانیہ تھا۔ اس کو عام زبان میں حیدرآباد کا حالی سکۂ کہتے تھے۔ نظام آف حیدرآباد کی اپنی پرائیویٹ فوج تھی اور اس کے ساتھ ساتھ فرسٹ لانسر اور سیکنڈ لانسر فوج بھی تھی۔ (NSR-RTD) نظام اسٹیٹ ریلوے اور روڈ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ ریل گاڑی اور بسوں کو چلاتے تھے۔ پوسٹل ڈیپارٹمنٹ ساری ریاست میں ڈاک خانے چلاتا تھا۔ یہاں پر عثمانیہ پوسٹیج اسٹامپ (Usmania Postage Stamp) چھاپتی تھی اور ڈاک خانوں میں یہی استعمال ہوتے تھے۔ برطانیہ کی حکومت سارے ہندوستان کیلئے خود اپنے اسٹامپ نئی دہلی سے جاری کرتی تھی۔ ریاست حیدرآباد کا ریڈیو اسٹیشن دکن ریڈیو، کہلاتا تھا اور حیدرآباد کی اپنی ایئرلائن تھی جو "دکن ایئر لائن" کے نام سے مشہور تھی۔

ریاست کے عوام کی فلاح اور یہود کیلئے نظام آف حیدرآباد نے جو کام کئے ہیں ان میں تعریف قابل یہ ہیں:
نظام نے سٹی امپرومنٹ بورڈ قائم کیا، محکمہ آثار قدیمہ کی بنیاد رکھی جس نے ایلورا اور اجنٹا کے غاروں کی حفاظت کا کام انجام دیا۔ محکمہ زراعت اور کریڈٹ سوسائٹیوں کو قائم کیا تاکہ کاشتکاروں اور کسانوں اور غریب عوام کی مدد کرنے میں آسانی ہو۔ صنعت فنڈ (Industrial Fund) کے قیام کے بعد سیمنٹ فیکٹری، پیپر کاغذ مل اور نظام شوگر فیکٹری کو رقم دے کر قائم کیا گیا۔ عثمانیہ آبزرویٹری (Osmania Observatory) تعمیر کی گئی۔ ٹاؤن پلاننگ پروگرام تیار کیا گیا اور چھوٹے چھوٹے محلے بنائے گئے جس کی کاپی U.P کے علاقے میں کی گئی اور وہاں پر بھی اس طرح کے محلے تیار ہوئے۔ نظام آف حیدرآباد نے کئی محلات اور عمارتیں تیار کیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ شاہی محل عرف کنگ کوٹھی اور خلوت کمپلیکس کی عمارتیں، دارالشفاء، گورنمنٹ پبلک بلڈنگز، ٹاؤن ہال (اسمبلی بلڈنگ)، ہائی کورٹ، عثمانیہ جنرل اسپتال، جاگیردار کالج، حیدرآباد میوزیم، جوبلی ہال، انڈسٹریل میوزیم، ملٹری اسپتال، ریلوے اسٹیشن، سیکریٹریٹ بلڈنگ، نظامیہ یونانی دوا خانہ اور جنرل اسپتال، آصفیہ لائبریری، معظم جاہی مارکسٹ اور محبوبیہ گرلز اسکول، عثمانیہ یونیورسٹی کی شاندار عمارتیں۔
ان تعمیرات کی موجودگی میں نظام آف حیدرآباد کے جانشین پرنس مکرم جاہ کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ اپنے دادا جان کی یاد میں کوئی اور یادگار قائم کریں۔

میر عثمان علی خان بہت ہی فیاض، سخی اور دریا دل انسان تھے۔ انہوں نے نہ صرف ریاست حیدرآباد بلکہ ہندوستان کے کئی حصوں میں امداد فراہم کی۔ نظام آف حیدرآباد نے انڈیا کے نیشنل ڈیفنس فنڈ میں 2 کروڑ روپے دیئے۔ پرتاب سنگھ IPS آفیسر نے نظام کے دیئے ہوئے سونے کے سکوں کو بڑے بڑے صندوق اور ٹرنک میں رکھ کر ریزرو بینک آف انڈیا کو پہنچایا۔ جب پرتاب سنگھ ان صندوقوں کو لے کر جانے لگے تو میر عثمان علی خان نے اس IPS آفیسر کو کہا "میں سونے کے سکے چندے میں حکومت ہندوستان کو دے رہا ہوں نہ کہ برٹش ٹرنک (British Trunk)۔ یہ ٹرنک واپس ہو جانے چاہئیں۔"

***
myacoob657[@]gmail.com
محمد یعقوب۔ باتھارن ، کیلیفورنیا
محمد یعقوب

Nizam of Hyderabad Nawab Mir Osman Ali Khan. Article: Mohammad Yacoob

1 تبصرہ:


  1. محمد یعقوب صاحب ! مبارک ہو ۔ ایک کتاب ہمیں بھجوائیے گا

    سید فضل اللہ کرم ۔ حیدرآباد

    جواب دیںحذف کریں