جامعہ نگر سے گرفتار نوجوان باعزت رہا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-25

جامعہ نگر سے گرفتار نوجوان باعزت رہا

نئی دہلی۔
(ایس این بی)
اوکھلا سے حراست میں لئے گئے 2 نوجوانوں میں سے ایک عبدالواحد نے کہا ہے کہ اس کو اپنے آپ پر اعتماد ہے کہ وہ کسی قسم کی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ بے خوف ہوکر پولیس کے سوالات کا جواب دیتا رہا۔ یہ بات عبدالواحد نے عالمی سمے کے ایک خصوصی پروگرام میں کہی۔
اس خصوصی پروگرام کے اینکر سید فیصل علی تھے جبکہ دوسرے مہمان پی سی پی ٹی کے رضا کار عمیق جامعی تھے۔ خیال رہے کہ گذشتہ روز دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے جامہع نگ اوکھلا سے اٹھائے گئے 2نوجوانوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شبہ میں حراست میں لے لیا تھا جس کی خبر پھیلتے ہی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے تھے اور انہوں نے پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ دیر رات کو پولیس نے ان دونوں کو کلین چٹ دے کر چھوڑ دیا تھا۔
اسی کارروائی میں پیش پیش رہہے پی سی پی ٹی کے رضا کار عمیق جامعی نے کہاکہ اسپیشل سیل کا انداز اس طرح کا ہے کہ وہ 18-18سال تک کے نوجوانوں کو جیلوں میں بند رکھتی ہے۔ مقدمہ چلتا رہتا ہے اور عدالت سے وہ لوگ باعزت بری ہوجاتے ہیں، اس عمل میں ان کی زندگی کے قیمتی سال خراب ہوجاتے ہیں۔

سید فیصل علی کے ذریعہ پوچھے گئے سوال پر عبدالواحد نے بتایاکہ وہ جھارکھنڈکے گریڈ یہہ کا رہنے والا ہے اور عربی کا ماہر ہے۔ وہ جامعہ ملیہ سے عربی زبان میں ایک کورس بھی کررہا ہے وہ ایک لڑکے عمار یاسر سے ملاقات کرنے کیلئے ابوالفضل انکلیو میں اس کے گھر گیا تھا اور اچانک عمار یاسر کو عمرے پر جانا تھا، لہذا میں اس کو عمرے کے مسائل اور دعاؤں کو یاد کرا رہا تھا۔ رات کو جب زیادہ دیر ہوگئی تو یاسر نے مجھ سے واپس جانے کی بجائے یہیں پر رہنے کی بات کہی۔اس پر اتفاق کرکے رات کو میں وہیں رک گیا۔
اگلے دن علی الصبح میں نے شور کی آواز سنی تو میری آنکھ کھل گئی اور کمرے میں بہت سے لوگوں کو پایا۔ بعد میں ان کے ہاتھوں میں ہتھیار دیکھ کر مجھ کو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ پولیس کے ہیں اور پولیس والے مجھ کو اور عمار کو گاڑی میں بٹھاکر لے گئے۔ راستے میں میں نے ان سے پوچھا آپ مجھے کیوں لے جارہے ہیں تو انہوں نے کہاکہ تم خوب جانتے ہو کہ ہم تمہیں کیوں لئے جارہے ہیں۔ میں صرف اتنا دیکھ پایا کہ راستے میں نظام الدین آیا ہے۔ بعد میں پولیس والوں نے مجھ سے گردن نیچی کرنے کیلئے کہا۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہاں لے جایاگیا اور بعد میں ایک عمارت میں ہم کو لایا گیا اور ہم دونوں کو الگ الگ کرکے پوچھ گچھ کی گئی۔

پروگرام کے اینکر سید فیصل علی نے پوچھا کہ حراست کے دوران کچھ زیادتی ہوئی یا سختی سے پیش آیا گیا تو عبدالواحد نے بتایاکہ ان سے پوچھ گچھ اسی انداز میں ہوئی جس طریقے سے بات ہوتی ہے۔ بالکل نارمل طریقے سے۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ان کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ انہوں نے کہاکہ ان کو کھانے پینے کیلئے دیا گیا۔ ہم پر کوئی تشدد نہیں کیاگیا۔
سید فیصل علی کے ایک سوال کے جواب میں عمیق جامعی نے کہاکہ اس واقعہ کے بارے میں ان کو 8بجے کے آس پاس ہی اطلاع مل گئی تھی اور ان کی ٹیم اسی وقت سرگرم ہوگئی اور اہم شخصیات کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچ گئے تھے۔ دراصل ہم کو اندیشہ تھا کہ اسپیشل سیل اپنا روایتی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے ان دونوں بچوں کو بھی کسی واردات میں ملوث دکھا دیتا اور ان کا حشر وہی ہوتا جو اس سے پہلے گرفتار نوجوانوں کا ہوا ہے۔ ان کے اوپر 15-16 سال مقدمے چلتے اور پھر بعد میں عدالت سے باعزت بری کر دیا جاتا۔ انہوں نے کہاکہ آج کے انتخابی ماحول میں بی جے پی کی گرم ہندوتوا کے مقابلے میں کانگریس بھی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ اس معاملے میں نرم نہیں ہے۔ اس پوری سازش میں چارہ بنتے ہیں یہ مسلم نوجوان۔
انہوں نے کہاکہ یہ پوری سازش میں ایک ایسے وزیراعظم کے امیدوار کو ہیرو بنانے کی کوشش ہورہی ہے جو کبھی بھی اس ملک کا وزیراعظم نہیں ہوسکتا۔ سید فیصل علی نے عمیق جامعی سے پوچھا کہ اس واردات کے علم میں آتے ہی ان کا سب سے پہلا ری ایکشن کیا تھا؟
عمیق جامعی نے بتایاکہ انہوں نے ان دونوں نوجوانوں کے اہل خانہ اور احباب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایاکہ اس وقت سکیورٹی حلقوں میں دہشت گردی کے کئی موڈیول چل رہے ہیں۔ ان میں کبھی بھٹکل موڈیول اور کبھی اعظم گڑھ موڈیول اور کبھی کچھ کبھی کچھ۔ دراصل فرقہ پرستوں کے زیر اثر خفیہ ایجنسوں کی توجہ ایسے علاقوں اور طبقات کی طرف ہے جو اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں، ان کو پیروں پر کھڑا کرتے ہیں اور نتیجتاً وہ علاقے ترقی کررہے ہیں اور خوشحال ہورہے ہیں۔
خفیہ ایجنسیاں ایسے ہی علاقوں اور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کررہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس طریقے سے مسلمانوں اور دوسرے طبقات کو باہم متصادم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لیکن ہندوستان کے عوام ان سب چیزوں کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ آر کے سنگھ اور وی کے سنگھ جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد ریٹائرمنٹ کے بعد بی جے پی جوائن کرتے ہیں۔

پروگرام کے آخر میں سیف فیصل علی نے عبدالواحد سے پوچھا کہ اس واقعہ سے انہوں نے کیا سبق حاصل کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے پولیس کارروائی کے دوران کسی ہڑبڑاہٹ اور خوف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ ریلیکس رہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے اپنے آپ اعتماد ہے لیکن میں اب اور بھی زیادہ محتاط ہوگیا اور اپنی نشست و برخاست میں اور احتیاط رکھوں گا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں