تقسیم آندھرا پردیش کے بعد کئی قائدین کانگریس سے مستعفی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-17

تقسیم آندھرا پردیش کے بعد کئی قائدین کانگریس سے مستعفی

وجئے واڑہ۔
(یو این آئی)
ریاست کو تقسیم کرنے کے کانگریس کے جلد بازی میں کئے گئے فیصلہ سے سیما آندھرا علاقہ میں پارٹی کے کئی قائدین شدید ناراض ہیں۔ بیشتر قائدین نے پارٹی سے استعفیٰ دے کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے جن میں مرکزی وزیر ڈی پورندیشوری قابل ذکر ہیں۔ کانگریس کے سینئر قائدین اور ارکان پارلیمنٹ لگڑا پارٹی راجگوپال، ارون کمار، ہرشا کمار اور سبم ہری پہلے ہی پارٹی چھوڑچکے ہیں اور وہ سابق چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کی جانب سے قائم کردہ نئی سیاسی جماعت جئے سمکھیہ آندھرا میں شامل ہورہے ہیں۔ گنٹور سے 4مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے والے آر سامبا سیوا راؤ تلگودیشم میں شامل ہونے پر غور کررہے ہیں۔ ضلع مغربی گوداری کے ایلورو حلقہ سے منتخب ہونے والے کے سامبا شیوا راؤ بھی پارٹی چھوڑنے پر غور کررہے ہیں۔ وہ اپنے حامیوں کے ساتھ اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کے سامبا سیوا راؤ کا پارٹی چھوڑنا تقریباً یقینی ہے۔ سابق ریاستی وزیر تلگودیشم پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے صدر پارٹی چندرا بابو نائیڈو کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں۔ ان کے حامیوں کے مطابق وہ حلقہ پارلیمان مچھلی پٹنم سے مقابلہ کرنا چاتے ہیں۔ سابق ریاستی وزراء موپی دیوی وینکٹ رمنا اور دھرمنا پرساد راؤ پہلے ہی کانگریس سے مستعفی ہوکر وائی ایس آر کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں۔ سابق وزیر کے سبا رائیڈو بھی جگن موہن ریڈی کی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ سابق وزیر ایس وجئے راما راجو اور کپم کے ایم ایل اے ڈی راجو نے بھی تلگودیشم میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ضلع مغربی گوداوری کے رکن اسمبلی کے وینکٹ ناگیشور راو نے کل ہی کانگریس سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ وہ جلد ہی کسی اور پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کریں گے۔ سابق وزیر وی وسنت کمار نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ایک کانگریس قائد نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ سینئر قائدین آنے والے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ریاست کی تقسیم کے بعد انہیں عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کانگریس کے مزید قائدین پارٹی چھوڑکر تلگودیشم یا وائی ایس آر کانگریس میں شامل ہوسکتے ہیں۔

دریں اثناء پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی جانب سے کانگریس میں انضمام کی مخالف اور انتخابی مفاہمت سے انکار کے بعد دونوں جماعتوں کے قائدین کی لفظی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ سابق ڈپٹی چیف منسٹر دامودر راج نرسمہا نے آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے ہی علیحدہ تلنگانہ ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ تشکیل تلنگانہ کے بعد تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو کانگریس میں ضم کرنے کے وعدہ سے کے سی آر نے انحراف کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ٹی آرایس نے ایک دلت قائد کو تلنگاہن کا چیف منسٹر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ دامودر راج نرسمہا نے کہاکہ ٹی آرایس دھوکہ دہی کیلئے شہرت رکھتی ہے۔ اسی دوران تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے صدر کے چندر شیکھر راؤ نے کہاکہ تلنگانہ کی تعمیر نو کو صرف ٹی آرایس کی جانب سے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ علاقہ میں کئی ترقیاتی کاموں میں رکاوٹوں اور مسائل کیلئے کانگریس اور تلگودیشم ذمہ دار ہیں۔ کے سی آر نے کل ہی پارٹی قائدین سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس میں ٹی آرایس کے انضمام کے تمام امکانات کو مسترد کردیا تھا۔ کے سی آر نے پوچھا کہ ان پر دھوکہ دہی کا الزام عائدکیا جارہا ہے لیکن انہوں نے کیا دھوکہ کیا۔ پارٹی قائدین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ علاقہ کی ترقی کیلے علیحدہ ریاست کا قیام اور علاقہ کے نوجوانوں کی خودکشی کے واقعات کو روکنے کیلئے کانگریس کے ساتھ ٹی آر ایس کے انضمام کی تجویز رکھی گئی تھی لیکن اب علاقہ کے عوام کانگریس کے ساتھ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے انضمام کے خلاف ہیں اس لئے ان کی پارٹی عوام کی خواہش کے مطابق کام کررہی ہے۔ کے سی آر نے کل واضح طورپر کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت بھی نہ کرنے کا اعلان کیا۔ بتایا گیا ہے کہ تلنگانہ کے تمام اسمبلی اور لوک سبھا حلقوں کیلئے پارٹی کے امیدواروں کا پیر 17مارچ کو اعلان کیا جائے گا۔

many cong leader resigned after ap bifurcation

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں