23/مارچ نئی دہلی پی۔ٹی۔آئی
ویتنامی اور ہندوستانی والدین کی اولاد اور بدنام زمانہ سلسلہ وار قاتل فرانیسی چارلس سوبھراج نے تہاڑ جیل میں جیش محمد سربراہ مسعود اظہر کے ساتھ قید کے کچھ دن گذارنے کے بعد طالبان کیلئے اسلحہ ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کے علاوہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے بھی وابستگی کا دعویٰ کیا۔ چارلس سوبھراج نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے سبب قید و بند کی زندگی گذار چکا ہے۔ 70سالہ چارلس سوبھراج 2003ء سے کٹھمنڈو کی سنٹرل جیل میں قید ہے۔ سوبھراج نے بتایاکہ طالبان کو حشیش کے خریدار کی تلاش تھی اور وہ عوض میں اسلحہ کے خواہاں تھے۔ اس مرحلہ میں میں نے ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنے شناساؤں سے ان کو متعارف کروایا۔ تہاڑ جیل میں اپنی قید و بند کی زندگی کی یاد تازہ کرتے ہوئے سوبھراج نے بتایاکہ اسلحہ ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرنا اس نے جیش محمد سربراہ مسعود اظہر کے ساتھ تعلقات قائم ہونے کے بعد ہی شروع کیا۔ مسعود اظہار پر پارلیمنٹ حملہ کا الزام ہے۔ ہندوستان نے اظہر اور 2دیگر دہشت گردوں کو انڈین ایرلائنز کے ایک مغویہ طیارہ کے مسافرین کے عوض 1999ء میں رہا کردیاتھا۔ اغوا کار طیارہ کو اغوا کرکے کٹھمنڈو سے قندھار لے گئے تھے۔ مسعود اظہر نے رہائی کے فوراً بعد جیش محمد تنظیم تشکیل دی۔ سوبھراج نے بتایاکہ بعض چینی جرائم پیشہ افراد سے اس کے تعلقات تھے۔ حتی کہ اس نے نیپال میں سودا طے کرنے کے لئے طالبان کی نمائندگی کی بھی پیشکش کی۔ برطانوی میگزین جی کیو کو ایک انٹرویو کے دوران یہ بھی بتایاکہ سنٹرل انٹلی جنس (سی آئی اے) کے ساتھ کام کررہا تھا۔ سوبھراج نے بتایاکہ اس کا مقصد فریقین کے ساتھ ڈبل کراس گیم کھیلنا تھا تاکہ سی آئی اے ایک جرائم پیشہ افراد پر مشتمل گروہ اور ایک دہشت گرد تنظیم کا بہ آسانی صفایہ کرسکے۔ اس نے بتایاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس نے اپنی زندگی بھی داؤ پر لگادی۔ اس نے یہ افسوس ظاہرکیا کہ میری گرفتاری کے ساتھ ہی سی آئی نے نے میری جانب سے منہ موڑلیا۔ امریکی میری مدد اس لئے نہ کرسکے میں بھیس بدلا ہوا ایجنٹ تھا۔ سوبھراج کو آنکھوں میں دھول جھونک کر فرا ہونے اور بھیس بدلنے میں مہارت حاصل تھی جس کے سبب وہ بکنی کلر اور دی سرپنٹ( ساتپ) کی عرفیت سے بھی تھے۔ سوبھراج نے یہ بھی بتایاکہ 2003ء میں عراق جنگ سے قبل صدام حسین حکومت کے ایک ایجنٹ نے ان سے ریڈ مرکری(سرخ سیماب) خریدنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ سرخ پارہ خصوصی طورپر نیوکلیر بم بنانے میں استعمال ہوتاہے ۔چارلس سوبھراج 1986ء میں سکیورٹی گارس کو منشیاب کے استعمال سے بے ہوش کرنے کے بعد جیل سے فرار ہوگیاتھا۔ اس نے سکیورٹی گارڈس کو بتایا کہ آج اس کا جنم دن ہے اور برتھ ڈے کی خوشی میں متھائی تو انہیں کھانی ہی پڑے گی۔ اسے کئی کیسس میں 10سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ 1975ء میں ایک امریکی خاتون کونی جوبرونزج کے قتل کی پاداش میں وہ 2003ء سے کٹھمنڈو کی سنٹرل جیل میں عمر قید کاٹ رہا ہے۔ مجموعی طورپر 20سال کی قید کی نصف معیاد مکمل کرچکا ہے۔ 1970ء کے دہے میں سوبھراج نے، باور کیا جاتا ہے کہ 15تا20 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، ضعیف العمری کی بنیاد پر اس کی جلد رہائی کی توقع کی جارہی تھی تاہم اس کے خلاف ایک نیا کیس فائل ہونے کے بعد یہ امید بھی ختم ہوگئی۔ 1972ء اور 1976ء کے دوران سوبھراج ایشیا میں خصوصی طورپر مغربی سیاحوں سے دوستی کرتا اور پھر انہیں بے ہوش کرکے ان کے سامان لوٹتا اور انہیں ابدی نیند سلادیتا۔ انہوں نے کئی بار نیپال کی سنٹرل جیل سے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم ناکام رہا جس کے بعد سے اس کے گرد سکیورٹی انتظامات مزید سخت کردئیے گئے۔Worked as arms dealer for Taliban, says serial killer Charles Sobhraj
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں