میری نانی کی والدہ اپنے شوہر کی کمسن بیوہ تھیں جن کے سوتیلے بچے ان سے عمر میں بڑے تھے مگرمیرے نانی کے والد کی انتقال کے بعد میری پرنانی نے ان کی زمین و کاشت کاری کے ساتھ ساتھ اپنے سے عمر میں بڑے بچوں کی بھی دیکھ بھال جاری رکھی۔ وہ محنت کش خاتون تھیں جنہوں نے حالات سے بغاوت کرتے ہوئے عدت پر بیٹھنے سے انکار کرکے پرنانا کی موت کے پہلے دن سے گھرداری کے ساتھ ساتھ زمینداری کے مسائل کو بھی سنبھال لیا تھا، اس طرح سے بہار کے گاؤں پہاڑیہ کے زمین داروں اور مولویوں کو یہ احساس دلادیا تھا کہ یتیم ہوجانے والے بچوں کی زمینوں پر قبضہ نہیں ہوسکے گااور نہ ہی زمیندار کی کمسن بیوہ ان کے سامنے جھکے گی۔ عام طورپر گاؤں دیہاتوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
میری پرنانی میری والدہ کی ہیروئن تھیں۔ میرے نانا کے موت کے بعد میری نانی اپنے میکے واپس نہیں گئی تھیں، بلکہ میرے نانا کے گھرمیں ہی رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ان کا زیادہ تر وقت عبادت میں گزرتا تھا جبکہ پرنانی نے اپنے مرحوم شوہرکے معاملات کوسنبھال لیا تھا اوراپنے سوتیلے بیٹوں کے ساتھ اپنی بیوہ بیٹی اور اس کے بچوں کی بھی مدد کررہی تھیں۔
زندگی کی اس ھماھمی میں میری سب سے چھوٹی خالہ دو تین سال کی ہی عمر میں بچوں کی کسی بیماری کا شکارہوکر انتقال کرگئی تھیں، اس صدمے نے میری نانی کی زندگی کومزید پریشان کردیا تھا اورعملی طور پرگھر کی ساری ذمہ داری دس گیارہ سالہ عطیہ خاتون کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔
13سال کی عمر میں یتیم عطیہ خاتون کے لئے ایک ایسے شخص کا رشتہ آیا جو روایات کا باغی تھا جس کی ماں اس کی کم عمری میں ہی موت کا شکار ہوگئی تھیں جو 23سال کی عمر میں بہار کی انڈین نیشنل کانگریس کا سرگرم کارکن تھا۔ بہار کے زیادہ تر مسلمان مسلم لیگ میں تھے ۔ سیّدابوظفر میرے والد کا شمار ان سرپھروں میں ہوتا تھا جو گاندھی جی کے چیلے کہلاتے تھے۔ میرے دادا اور دیگررشتہ داروں کا خیال تھا کہ سیّد ابوظفر کو سدھارنے کا طریقہ یہی تھا کہ ان کی شادی کردی جائے۔ ایک یتیم اور دو بہنوں کی بڑی بہن کے لئے آنے والے اس رشتے کو فوراً ہی قبول کرلیا گیا تھا۔ نہ چاہنے کے باوجود ابوظفر خاندان کے دباؤ کی وجہ سے عطیہ خاتون کے شوہر بن گئے اور عطیہ خاتون عطیہ ظفر بن گئیں۔ عطیہ ظفر نے واجبی تعلیم حاصل کی تھی، انہیں قرآن پڑھنا آتا تھا اور وہ کم عمری میں ہی گھریلو کام کاج کی ماہر تھیں۔ میرے والد بہار میں کانگریس کے بہت سرگرم کارکن تھے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مولانا ابوالکلام آزاد، گاندھی جی اور پروفیسر باری سے تعلقات رکھتے تھے۔ میری والدہ شادی کے بعد دیسنہ گاؤں اوراپنے گھر کے یاسیت زدہ ماحول سے نکل کر پٹنہ جیسے بڑے شہر میں آگئی تھیں۔ میرے دادا کے گھر میں میرے والد کی سوتیلی والدہ کنیز فاطمہ نے ان کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا ، وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں، کتابوں کے ساتھ موسیقی سے شغف رکھتی تھیں۔ اس زمانے میں ان کا اپنا ہارمونیم تھا اور یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ انہوں نے میری والدہ کو میرے والد جیسے مشکل باغی کیساتھ رہنے کے گُر بھی بتائے اور میری والدہ کے دل میں موجود پڑھنے کی لگن کی حوصلہ افزائی کی۔ میری والدہ ہمیشہ ان کا نام عزت و احترام سے لیتی تھیں کیونکہ شہری زندگی کے اطوار انہوں نے ان سے ہی سیکھے تھے۔
اسی زمانے میں پٹنہ میونسپلٹی کے الیکشن میں کانگریس پارٹی کی حمایت کی وجہ سے میرے والدکا انتخاب ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے ہوا اوران کی سیاسی سرگرمیاں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ وہ گاندھی جی کے ہندوستان چھوڑدو تحریک میں آگے آگے تھے۔ پاکستان بننے سے قبل میرے دو بھائی پیدا ہوئے جن کا نام میرے والد نے ٹیپوسلطان اورسراج الدولہ رکھا۔ یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ اس زمانے میں ہمارے کچھ رشتہ داروں نے ان کے عقیقے میں شرکت سے انکار کردیا کیونکہ یہ نام انگریز مخالف آزادی کے متوالوں کے تھے۔ میری والدہ بتاتی تھیں کہ ٹیپوسلطان اورسراج الدولہ کا عقیقہ میرے دادا نے ہمایوں ظفر اور سراج ظفر کے نام سے کیا تاکہ خاندان کے سارے افراد شریک ہوسکیں۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد میرے والد کے استاد اور کانگریس کے بہت اہم رکن پروفیسر باری کا اس وقت قتل ہوگیا جب وہ کانگریس حکومت کی بدعنوانیوں کے بارے میں بات چیت کرنے کے لئے گاندھی جی سے ملنے جارہے تھے۔ اس واقعے کے فوراً بعد میرے والد نے ہندوستان اورسیاست چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اوراپنے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ پاکستان روانہ ہوگئے تھے۔
پاکستان آکر انہوں نے لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں ہزاروں مہاجرین کی طرح جھگی ڈال کر رہنے کا انتظام کیا اور آتمارام پریتم داس روڈ پر ہندوؤں کے ایک ویران پاٹھ شالا میں غازی محمد بن قاسم اسکول کی داغ بیل ڈالی، ابا ہندوستان سے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کرکے آئے تھے، ان کی رائٹنگ بہت اچھی تھی اور وہ اردو اورانگلش دونوں زبانوں میں بہت خوش خط تھے۔ انہیں ٹائپ کرنا بھی آتا تھا اور وہ اپنے ساتھ ہندوستان سے ہی ایک ٹائپ رائٹر بھی لے کر آئے تھے۔ اسکول کے ساتھ ساتھ شام کے وقت انہوں نے لوگوں کی درخواستیں اورخط وغیرہ ٹائپ کرنا شروع کردیا اور ساتھ ہی جامعہ کراچی میں مزید تعلیم کے لئے رجسٹرڈ بھی ہوگئے۔ میری اور میری چھوٹی بہن چاند بی بی سلطانہ کی پیدائش کے بعد میرے والد نے فیصلہ کیا کہ میری والدہ کو بھی تعلیم حاصل کرنی چاہئیے جس کے لئے وہ خود بھی ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ ابا کا یہ فیصلہ میری والدہ کی برسوں کی تمنا تھی انہیں اپنے والد اورمیرے نانا کے خوابوں کی تکمیل کی شدید خواہش تھی وہ چاہتی تھیں کہ وہ ان کے امیدوں کے مطابق دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرلیں۔ میری والدہ نے مجھے میری نانی اور خالہ کے پاس ہندوستان واپس بھیج دیا اور تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ گئیں۔ میرے والد اسکول کے انتظامات ، اپنی تعلیم اور دوسری مصروفیات کے ساتھ ساتھ گھر کے امورمیں بھی سرگرم ہوگئے تاکہ میری والدہ مکمل یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں۔
میری والدہ نے ادیب عالم ادیب فاضل کے امتحانات کے ساتھ انگلش کا امتحان دے کر جلدی ہی میٹرک کی سند حاصل کرلی۔ میرے والد نے سوچا تو یہ تھا کہ میٹرک کے بعد وہ اسکول میں استانی بن جائیں گی مگر بدلتے وقت کے ساتھ انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ عطیہ ظفر ڈاکٹر بنیں گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے پورے پاکستان میں موجود میڈیکل اسکولوں میں ان کے داخلے کی درخواست ڈال دی۔ اس زمانے میں ایم بی بی ایس کے علاوہ ایسے میڈیکل اسکول تھے جہاں ایل ایس ایم ایف کی ڈگری ملتی تھی اوراس امتحان کے پاس کرنیوالوں کو چھوٹا ڈاکٹر کہا جاتاتھا۔
میری والدہ کو اس زمانے میں مشرقی پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر سلہٹ کے میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا تھا۔ میرے والد نے لیاری میں اپنے نام سے الاٹ شدہ پلاٹ کو بیچ کرخاندان کا ٹکٹ کٹایا اور سب کو لے کرسلہٹ چلے گئے۔ سلہٹ میں مکان کرائے پر لے کر اور ابتدائی انتظامات کے بعد وہ واپس کراچی آکر کام میں لگ گئے تاکہ میری والدہ بغیر کسی مالی پریشانی کے تعلیم مکمل کرسکیں۔ کئی سالوں کے بعد میری خالہ اورنانی مجھے ہندوستان سے لے کر سلہٹ آگئیں تاکہ میری والدہ کے تعلیم کے دوران وہ گھر اوربچوں کی دیکھ بھال کرسکیں۔
سلہٹ کے پانچ سال بڑی محنتوں کے سال تھے، بچوں کے ساتھ میڈیکل کی تعلیم آسان نہیں تھا۔ میرے والد کراچی میں اسکول چلارہے تھے، بولٹن مارکیٹ میں پوسٹ آفس کے سامنے دری بچھا کر لوگوں کی درخواستیں ٹائپ کررہے تھے اورخطوط لکھ رہے تھے اوردوسری جانب خود بھی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ پہلے انہوں نے بی اے کیا پھر اسلامی تاریخ میں ماسٹرز کیا اور تعلیم سے متعلق مختلف ٹریننگ کورسز بھی کرتے رہے۔ اسی زمانے میں انہوں نے سول ہسپتال کراچی سے چند مہینوں کا کمپاؤنڈری کا سر ٹیفکیٹ کورس بھی کرڈالا۔ پڑھنے اور پڑھانے کا جیسے انہیں جنون تھا، ساری زندگی وہ یہی کرتے رہے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد میرے دونوں بڑے بھائی کراچی آگئے تاکہ ان کی اسکول کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔
میری والدہ نے ساڑھے چارسال میں ایل ایس ایم ایف کا کورس مکمل کیا جس کے بعد وہ کراچی واپس آگئیں۔ اسی زمانے میں حکومت پاکستان نے ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کے مطابق تمام ایل ایس ایم ایف ڈاکٹروں کو اس کا موقع دیا گیا کہ وہ میڈیکل کالج کے چوتھے سال میں داخل ہوجائیں اور ایم بی بی ایس کے چوتھے پانچویں سال کا امتحان دے کرایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلیں۔ میری والدہ کا ابتدائی طورپر داخلہ فاطمہ میڈیکل کالج لاہورمیں ہوا اور تین ماہ کے بعد ان کا ٹرانسفر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں کردیا گیا۔ وہ جب چوتھے سال کا امتحان پاس کرکے پانچویں سال میں پہنچیں تو میرے بڑے بھائی ٹیپو سلطان کاداخلہ ڈاؤمیڈیکل کالج میں ہوا جہاں دونوں ماں بیٹا ایک سال تک ایک ہی کالج میں پڑھتے رہے۔ اماں نے ایم بی بی ایس کے بعد کراچی کے سول ہسپتال میں ہاؤس جاب کیا اورلیاری میں ہی ایک کلینک کا آغاز کردیا۔
1965ء کی جنگ کے بعد اماں کوڈسٹرکٹ کونسل میں بحیثیت ڈاکٹر نوکری مل گئی اور ہم سب لوگ ملیر منتقل ہوگئے۔ ڈسٹرکٹ کونسل کی نوکری کے ساتھ ساتھ اماں نے ملیر میں ہی ایک کلینک بھی شروع کردی۔ اس زمانے میں پورے ملیر اوراس کے نواح میں کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی۔ جلد ہی اماں پورے علاقے میں مقبول ہوگئیں اورانہوں نے اپنے شفاخانے کے ساتھ ایک چھوٹا سا میٹرنٹی ہوم کھول لیا جو آہستہ آہستہ بڑا ہوکر جنرل ہسپتال کی شکل اختیار کرگیا۔ آج وہ عطیہ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اماں ساری زندگی محنت کرتی رہیں، ان کے ابا کا خواب ان کا شوق بن گیا۔ وہ دسویں جماعت تک محدود نہیں رہیں جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے شوہربھی ان کی تعلیم چاہتے ہیں اور ہر قسم کی قربانی دینے کوتیار ہیں تو انہوں نے ان کے ہرکہے کواپنی زندگی کا جز بنالیا۔ آج یہ تصوربھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اماں کوپورا احساس تھا کہ تعلیم ہی عورت کا اصل زیورہے۔ ساری زندگی میں نے انہیں کوئی زیورپہنا ہوا نہیں دیکھا۔ کبھی کبھار وہ عید کے موقع پر کانچ کی چوڑیاں پہن لیتی تھیں، ہاتھوں اورپیروں میں مہندی لگالیتی تھیں وہ صاف ستھرے سوتی گھر کے دھلے اورکلف لگے ہوئے ساری میں پُروقار لیڈی ڈاکٹر لگتی تھیں۔ انہیں میں نے کبھی کبھار مریضوں اور مریضوں کے شوہروں پرغصہ کرتے ہوئے دیکھا لیکن زیادہ ترمریضوں سے ہمیشہ ہنس کرملتی تھیں۔ دور دراز کراچی کے دیہی علاقوں اورٹھٹھہ میرپورساکرو سے آنے والے مریض ان کے لئے سبزیاں اورپھل لے کرآتے تھے، کراچی کے مچھلی فروشوں اورملاحوں کی بستی ریڑھی سے آنے والے مریض مچھلی اور جھینگے لے کرآتے ، یہی ان کی فیس ہوتی تھی۔ ان کے مریض ان پر جان دیتے تھے، وہ کمیونٹی کی ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ کمیونٹی ورکر تھیں۔
اماں کواندازہ ہوگیا تھا کہ تعلیم عورتوں کو خودمختار بنادیتی ہے وہ اورابا لڑکیوں کی تعلیم کے شدید حامی تھے، ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو ہر قسم کی تعلیم حاصل کرنی چاہئیے، نوکری کرنی چاہئیے اورپیسے کمانے چاہئیں۔ پڑھی لکھی لڑکی نہ صرف یہ کہ اپنا خیال رکھتی ہے بلکہ اپنے پورے خاندان کو کھینچ کر اوپر لے آتی ہے۔ ابا اوراماں نے مل کرہم آٹھ بھائی بہنوں کو ڈاکٹر بنایا بلکہ خاندان کے کئی بچوں کو اس راہ پر لگایا اورخاص طور پر خاندان، دوستوں اور رشتہ داروں کی لڑکیوں کو مواقع فراہم کئے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ گھر میں اورہسپتال میں کام کرنے والوں کے بچوں کی تعلیم کے لئے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے۔
اماں کو میں نے ہمیشہ کچھ نہ کچھ پڑھتے ہوئے دیکھا۔حالی، علامہ اقبال ،غالب اور مومن ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ اقبال کی کئی نظمیں انہیں زبانی یاد تھیں۔ نذیر احمد دہلوی کی توبۃ النصوح، فسانہ مبتلا اور مراۃ العروس اماں کے ذریعے ہی ہمیں پڑھنے کو ملی تھیں۔ اے آر خاتون، رضیہ بٹ ، سلمیٰ کنول سے لے کر پریم چند، کرشن چندر، غلام عباس، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو، راجندر سنگھ بیدی کی کتابیں ہر وقت اماں کے پاس رہتی تھیں۔ بیسویں صدی ، سیپ، افکار، نقوش جیسے رسالے وہ خود بھی خریدتی تھیں اور دوسروں سے لے کر بھی پڑھتی تھیں بچوں کے لئے کھلونا دہلی، تعلیم وتربیت، بچوں کی دنیا ، پھلواری جیسے رسالے گھرمیں پابندی سے آتے تھے۔
ایک دفعہ میں ابن صفی کی عمران سیریز کا ایک ناول پڑھ رہا تھا جسے انہوں نے یہ کہہ کر ضبط کرلیا کہ یہ کتاب تمہارے لئے صحیح نہیں ہے لیکن دوسرے دن ہی وہ کتاب مجھے واپس مل گئی اوراماں کی طرف سے یہ اجازت بھی کہ ابن صفی کی کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ ہمارے گھر میں اورہمارے رشتہ داروں کے گھر میں ابن صفی بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جانے لگا تھا۔
وہ مذہبی کتابیں بھی بہت شوق سے پڑھتی تھیں، مولانا سلیمان ندوی کی سیرت النبی انہوں نے ہی مجھے پڑھنے کو دی تھی۔ امام غزالی کی کیمائے سادات بھی مجھے ان سے ملی اورجب میں نے انہیں کہا تھا کہ کیمائے سادات میں خوابوں کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ بڑا غیرسائنسی ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تمہاری معلومات کم ہیں اور امام غزالی کی کتابوں کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے مزید تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ہے کوئی بات کہنے اور ثابت کرنے کے لئے مزید تعلیم حاصل کرنا چاہئیے تاکہ تمہارے پاس مناسب دلیل ہو۔ ان کی بات بالکل درست تھی اور آج بھی ہے۔
انہوں نے فرمائش کرکے اردو بازار سے شیخ ایاز کا کیا ہوا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کا اردو ترجمہ منگوایا تھا اوراکثر و بیشتر میں دیکھتا تھا کہ وہ ترجمہ پڑھ رہی ہوتی تھیں۔ انہیں ریڈیو کے پروگراموں سے بھی بڑی دلچسپی تھی ہم بچے اسٹوڈیو نمبر9 کے ڈرامے بہت دلچسپی سے سنتے تھے اور اماں بہت پابندی سے مولانا روم کے کلام اور اس کا ترجمہ بہت شوق سے سنتی تھیں اور کبھی کبھار ہمیں بھی ان کے کلام کا مطلب سمجھاتی تھیں۔ جس زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی سے اتوار کے اتوار "صبح دم دروازہ خاور کھلا" کے نام سے پروگرام شروع ہوا تو اماں اس پروگرام کو بہت شوق سے سننے لگی تھیں۔ اس پروگرام کے گیت اور چھوٹے چھوٹے اسکٹ انہیں بہت پسند تھے، مجھے آج بھی ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی معصوم سی مسکراہٹ یاد ہے جس وقت وہ یہ گیت سن رہی تھیں، جس کا مجھے پہلا شعر یاد رہ گیاہے۔
گورے گورے مکھڑے پہ جیا للچائے
ذرا دیکھو توہمری اُور ذرا دیکھو تو ہمری اُور
شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں واقعات سے انہیں بہت دلچسپی تھی اس سلسلے میں میں یہ لکھنا چاہوں گا کہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ تھیسوفیکل ہال میں خواجہ معین کے لکھے ہوئے ڈرامے "مرزا غالب بندر روڈ پر" کو انہوں نے نہ صرف یہ کہ خود دیکھا بلکہ مجھ سے عمر میں کافی بڑے بھائیوں کو تاکید کرکے مجھے بھی دکھوایا تھا۔ وہ روزنامہ جنگ اور حریت پابندی سے پڑھتی تھیں اورہم لوگوں کو بھی پڑھنے کا بولتی تھیں، اس زمانے میں شوکت تھانوی اور ابراہیم جلیس ان کے پسندیدہ کالم نگار تھے، حریت اخبار میں محموداعظم فاروقی کا کالم محراب و منبر بھی ان کو بہت پسند تھا۔
اماں مذہبی تھیں، نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، عمرہ، حج سب کچھ انہوں نے اپنے وقت پر بڑی دلجمعی کے ساتھ کیا، عبادت میں ان کا دل لگتا تھا اورمذہبی روایات کے مطابق بڑے دنوں اور رمضان کی راتوں میں وہ دیر تک عبادات کرتی تھیں مگرساتھ ہی ایک عجیب بات یہ تھی کہ انہیں ریڈیو سیلون سے نشر ہونے والے بھجن بھی پسند تھے اورانہیں شوق سے سنا کرتی تھیں اسی طرح سے انہیں صوفیانہ کلام کی قوالی کا بہت شوق تھا، جمعرات کی رات گئے ریڈیو پاکستان سے نشر ہونیوالی قوالی کا انہیں انتظار رہتا تھا۔ان کا وحدانیت کا تصور عام تصور وحدانیت سے بہت مختلف تھا۔
دوسری حیرت ناک اور عجیب بات یہ بھی ہے کہ جس زمانے میں میں کافی سے زیادہ مذہبی تھا اور بعد میں جب رسمی سا مذہبی ہوگیا تب بھی انہوں نے کبھی بھی مجھے "سیدھے راستے‘ج پر چلنے کی تلقین نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ ایک حد تک تعلیم دینے کے بعد ہر فرد کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کیسے گزارے۔ دوسروں کو اس کا احترام کرنا چاہئیے۔ میری ساری زندگی مجھے شدت سے ان کی ایک ہی بات یاد ہے کہ وہ بچپن سے ہی سب بچوں کو کہتی تھیں کہ "جھوٹ کبھی بھی نہ بولنا۔" صرف ان کی اس تلقین کی وجہ سے بہت سی ایسی چیزیں جو میری نظر میں غلط نہیں ہیں مگر ان کی نظر میں بری تھیں، میں نہیں کرسکا۔ اس کا مجھے کوئی خاص خلق نہیں ہے مگر اپنی ماں کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے ایک ایسی عادت ڈالی جس سے مجھے سوائے فائدے کہ کچھ نہیں ہوا ہے۔ اس موقع پر میں یہ اعتراف بھی کرتا چلوں کہ میں نے کچھ جھوٹ ان سے ضرور بولے ہیں مثال کے طورپر جب میں کہیں سے کھانا کھا کرآتا تھا مگر ان سے جھوٹ بولتا تھا کہ میں نے کھانا نہیں کھایا ہے تاکہ وہ کھانا کھاسکوں جوانہوں نے بنا کر رکھا ہوا ہوتا تھا۔ اس جھوٹ کا مجھے بالکل بھی افسوس نہیں ہے۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے پاس محبت اورپیار کا اتنا بڑا ذخیرہ کہاں سے جمع کیا۔ محبت بانٹنے میں انہوں نے کبھی بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا، میرے دادا، میری پرنانی، نانی پھر میرے نانی کے بھائی سب کی خدمت بڑی محبت اور دلجمعی سے کرتی رہیں۔ اپنے بھائی اور بہنوں کے لئے ان کی محبت بے مثال تھی، ہم سب بھائی بہنوں، ہمارے ماموں زاد، چچا زاد، خالہ زاد بھائی بہن گھر میں رہنے والے وہ بچے جو کسی نہ کسی وجہ سے پڑھنے کے لئے ہم لوگوں کے چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے ابا کے وہ شاگرد جنہیں ابا گھر لے آتے تھے، ان سب کے لئے ان کے پاس پیار تھا، ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے وہ پریشان رہتی تھیں جس زمانے میں ان کی پریکٹس بہت اچھی ہوگئی تھی وہ ہروقت کسی نہ کسی منصوبے کو مکمل کررہی ہوتی تھیں۔ کسی یتیم بچی کی شادی، کسی غریب ماں باپ کی بیٹی کے رشتے کی تلاش، کسی ضرورت مند کے گھر کی دیوار یا چھت کی تعمیر تاکہ بے پردگی نہ ہو۔ کسی کے بیٹے کے لئے ٹکٹ کا انتظام جو دبئی یا سعودی عرب جارہا تھا، یا کسی ایسے فرد کی مدد جس کا داخلہ رقم کی کمی کی وجہ سے رکا ہوا تھا، ایسے بہت سارے لوگ ہیں جن کے لئے وہ اسپیشل تھیں مگران کے لئے وہ سب اسپیشل تھے اوروہ اسی طرح سے ان کا خیال بھی رکھتی تھیں جیسے اسپیشل لوگوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ان کی خواہش ہوتی تھی کہ سارے بچے اوربعد میں نواسے پوتے سارا کھانا ختم کریں، وہ کسی بھی کھانے کی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتی تھیں۔ رات کی بچی ہوئی روٹیوں کا ملیدہ بنادیتی تھیں جوسارے بچے شوق سے کھاتے تھے، ابھی بھی میرے دانتوں میں چینی کی چنچناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ملیر کے مریضوں کے دیئے ہوئے سیروں امرود کی جیلی بن جاتی تھی جو بڑے شوق سے کھائی جاتی اور سب کو بانٹی جاتی، گھر آنے والے کچے آموں کا گڑمبا بن جاتا تھا، اماں کے تقریباً سارے نواسے اورپوتے اس وقت انگلینڈ، آئرلینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا میں مختلف تربیتی پروگرام میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کے انتقال پر آنے والے ای میل میں اماں کی بنائی ہوئی جیلی کا ذکر پڑھ کر میرے آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔
ہم سب بھائی بہنوں کو ڈاکٹر بنانے کے بعد اورہم سب کی شادیاں ڈاکٹروں سے کرانے کے بعد ابا اور اماں دونوں کی خواہش تھی کہ ہم لوگ ملیر کے علاقے میں ایک ایسا ہسپتال بنائیں جہاں غریب مریضوں کا مفت علاج ہوسکے۔ کرنا کچھ اس طرح سے ہوا کہ ملیر کے ایک گاؤں کو ہی گوٹھ میں ہم لوگوں نے زمین حاصل کرکے ایک عورتوں کا ہسپتال کھولا مگر اس ہسپتال کے کھلنے سے پہلے اور اس زمین کے حصول تک جب جب مسائل درپیش ہوئے میرے والد اوروالدہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ برے کام کرنے کو سب جمع ہوجاتے ہیں، اچھا کام کرنا مشکل ہے مگر آخر کار اچھائی کی ہی فتح ہوتی ہے، میں یہ بات کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں یہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا ہوں کہ سچائی اورایمانداری پر ان کا ایمان غیر متزلزل تھا وہ سچ کی طرح سادہ تھیں ، ان کے مذہبی اعتقادات بھی سادہ تھے، وہ مالی طور پر مستحکم ہونے کے بعدبھی غریب تھیں مگر ان کادل بہت بڑا تھا جہاں سے وہ ساری زندگی پیار بانٹتی رہیں، ان کا دل کبھی بھی غریب نہیں ہوا۔
میری والدہ اپنا ہسپتال عطیہ ہسپتال کے نام سے بڑی محنت سے چلاتی رہیں جہا ں انہوں نے اپنے دن رات لگائے اور لوگوں کے درمیان اپنی حیثیت بنائی ،آج اس علاقے میں ہر ایک ان کی عزت ہی کرتا ہے۔ یہی ہسپتال ان کی پہچان ہے۔ ابا اماں نے اپنی زندگی میں ہی اس خواہش کا اظہار کردیا تھا کہ ان کے بعد اس ہسپتال سے ہونے والا منافع ہم بھائی بہن آپس میں نہیں بانٹیں بلکہ ان غریبوں پر خرچ کریں جوعلاج کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان دونوں کواس بات سے خوشی ہوتی ہوگی کہ آج عطیہ ہسپتال کی آمدنی کوہی گوٹھ ہسپتال کے مریضوں پر خرچ ہوتی ہے۔ یہ تعلیم کی طاقت تھی جس نے ان دونوں کو اتنا بااختیار کیا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے اس خواب کو پوراکرگئے۔
میری والدہ کا میرے اوپر ذاتی طور پر بڑا احسان ہے، میں ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا تھا اور کوششوں کے باوجود بارہویں جماعت میں اچھے نمبر نہیں لاپارہا تھا۔ جب میں دوسری دفعہ بھی دسوں مضامین میں اچھے نمبر نہیں لاسکا اورمیرے والد نے تیسری دفعہ میرے امتحانات کے فارم بھرے تومیں مدد کے لئے اپنی والدہ کے پاس گیا کہ وہ میرے والد کوسمجھائیں کہ میں اس بات پر راضی نہیں ہوں۔ وہ ابا کو تو کیا سمجھاتیں انہوں نے بڑی سختی سے مجھے کہا کہ مجھے وہی کچھ کرنا ہوگا جو میرے والد کہہ رہے ہیں اور اگر میں نے ایسا نہیں کیا تومیرے لئے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ اس وقت ان کا یہ ظالمانہ رویہ مجھے بہت برا لگا تھا لیکن کئی سالوں کے بعد یہ بات میری سمجھ میں آگئی تھی کہ میری ماں نے میرے اوپر کتنا بڑا احسان کیا تھا۔ ان کی تھوڑی سی نرمی کی شہ پاکر شاید میں بغاوت کربیٹھتا اور جو کچھ بھی ہوتا شاید ڈاکٹر نہیں ہوتا جس پیشے کے ایک ایک لمحے سے میں لطف اندوز ہوا ہوں اور اگر اب میں سو دفعہ بھی پیدا ہوں گا تو ڈاکٹر ہی بنوں گا، ایک ایسا پیشہ جس میں آمدنی تو ہے ہی مگر جو محبت اور عزت ملتی ہے اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا،
14 فروری 2014ء کو دن کے دو بجے میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تھوڑے سے اختلافات کے بعد ہم سب نے فیصلہ کیا کہ والدہ کی آخری آرام گاہ کوہی گوٹھ ہسپتال میں ہوگی۔ میں ہسپتال پہنچ کر ان کی قبر کے لئے انتظامات کررہا تھا ، جنازے کا وقت عشاء کے نماز کے بعد مقرر کیا گیا تھا۔ مغرب سے تھوڑا پہلے مجھے پتہ چلا کہ ایک حاملہ خاتون ایمرجنسی میں آئی ہیں جن کا آپریشن کرنا ہوگا۔
جب آپریشن ختم کرکے میں آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو ماں بننے والی خاتون کے رشتہ دار کھڑے ہوئے تھے، میں نے انہیں مبارکباد دی کہ ان کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا تھا کہ بچی کا کیا نام رکھا ہے۔ ہونے والی بچی کی دادی نے بلوچی لہجے میں کہا تھا کہ اس کا نام عطیہ ہے اور وہ ڈاکٹر بنے گی۔
میں صبح سے اماں کی بیماری کی وجہ سے پریشان تھا، ان کے انتقال کے بعد سے دل جیسے کسی تاریکی میں ڈوب سا گیا تھا، آپریشن کے دوران بھی بار بار دل بیٹھ بیٹھ سا جاتا تھا، لیکن اس بلوچی لہجے میں بولا ہوا جملہ "اس کا نام عطیہ ہے اور یہ ڈاکٹر بنے گی" نے جیسے میرے دکھ کو خوشی میں بدل دیا تھا۔ کوہی گوٹھ میں ایک پرانے درخت کے سائے میں اماں اپنی آخری آرام گاہ میں اپنے ابا اورمیرے والد کے خوابوں کوپورا کرکے اطمینان کی نیند سورہی ہیں۔ ان سے جدائی بڑا افسوسناک واقعہ ہے مگر جب میں ان کی زندگی کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے یہی لگتا ہے ان کے جانے کے غم سے زیادہ ان کی زندگی کا جشن منانے کی ضرورت ہے۔
My mother Dr. Atiya Zafar. Article: Dr. Sher Shah Syed
ایک عمدہ تحریر جسے پڑھ کر نہ صرف حوصلہ ملتا ہے بلکہ جینے کا سلیقہ بھی آتا ہے ۔ یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی مائیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں کہ ان کی تربیت میں تعلیم کا بہر حال اثر ہوتا ہے ۔ شادی کے بعد بھی جس انداز میں انھوں نے ایک ایسے وقت میں جو تاریخی اعتبار سے انتہائی افرا تفری اور غیر سکون کا رہا ہے میں تعلیم کو جاری رکھنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اسے کر کے بھی دکھایا یہ ان کے حوصلہ مند اور باہمت ہونے کی دلیل ہے ۔ ورنہ ایسے وقت میں جب بٹوارے کا صد مہ ہو ، رشتہ ناطہ پاس پڑوس اور ملک چھوٹ جانے کا غم ۔ کسی کام کا از سر نو شروعات یا اپنا آشیانہ سجانے کے لئے تگ و دو کرنا آسان نہیں ہوتا ہے ۔ایسے خاتون کی ہمت ،حوصلہ اور جد و جہد کو سلام ۔
جواب دیںحذف کریںواقعی آپ کی ماں ایک عطیم خاتون تھیں جو بہتوں کے لئے مرنے کے بعد مشعل راہ بنیں گی ۔ اس زمانے میں بھی جبکہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھ لیا گیا ہے یہ تحریر خاص کر بہار کے ان خاندانوں کے لئے ایک عبرت ہے جو اپنی بہن اور بیٹیوں کو گھر کی چہار دیواری میں قید کر کے رکھتے ہیں اور تعلیم جیسے انمول خزانہ سے محروم رکھنے میں انھیں کوئی باک یا ہتک محسوس نہیں ہوتا ۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے قدرت اللہ شہاب کی ماں جی اور میرزا ادیب کی اماں پر لکھی تحریر یاد آتی ہے ۔
اتفاق سے دونوں کی مائیں بھی بہت زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں لیکن انھوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا اور انھوں نے ہر آڑے وقت میں بچے کی تعلیم کے لئے چٹان کی طرح کھڑی ہو گئی تھیں ۔ جس کے سبب ان کے بیٹے امر بن گئے اور رہتی دنیا تک کے لئے ایسی تحریر چھوڑ گئے جو ہر پڑھنے والے کو ماں کی یاد دلاتی ہے ۔ یہ تحریر ان ماوں کے لئے بھی انتہائی قیمتی ہے جو پیدا ہوتے ہی اپنے بچوں کو کمانے اور پیسہ حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیتی ہیں ۔ اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے بچے کو اعلی تعلیم کے لئے رغبت دلائیں اور ان کے اندر شوق و ذوق پیدا کریں اسے اسے چھوٹے میں ہی بندھوا مزدوری اور اطفال مزدوری جیسے کاموں میں دھکیل دیتی ہیں جہاں بچے کا نہ صرف استحصال ہوتا ہے بلکہ اس کا بچپنا اور اس کی زندگی کے خوبصورت لمحات خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ضائع ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر وہی بچہ آگے چل کر معاشرے کے لئے بوجھ بن جاتا ہے یا پھر سماج دشمن عناصر کا آلہ کار بن کر وبال جان ۔
میں یہ باتیں اس لئے بھی لکھ رہا ہوں کہ دہلی کے بیشتر ہوٹلوں ،چائے خانوں اور دوکانوں میں ایسے بچے نظر آتے ہیں جن کی عمریں تیرہ اور چودہ سال سے بھی کم کی ہوتی ہیں ۔ جب ان سے ان کا گھر پوچھا جاتا ہے تو زیادہ تر اپنا گھر بہار یا بنگال بتاتے ہیں اور یہ تحریر اسی بہار کے ایک باشندے کی ہے جس نے کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی ہمت اور حوصلہ سے وہ کر دکھایا کہ ایک جہان ان کی اثیر ہے ۔
میں ایسی ماں کے اولادوں کے لئے بھی دعا گو ہوں کہ اللہ انھیں ایک عظیم ماں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع دے ۔ استقامت عطا فرمائے اور مرحومہ کو بھی کر وٹ کروٹ جنت اور قبر کو نور سے بھر دے ۔
بہت خوب، بہت اچھی تحریر ہے۔ پورے مضمون نے مجھے آخیر تک پڑھنے پر مجبور کیا کیوں کہ یہ حقیقیتِ واقعہ ہے۔ لیکن اب شاید ایسی ماں نہیں ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالی اُن کی کارگزاریوں کو قبول فرمائیے، اُنہیں بہتر بدلے سے نوازے۔
جواب دیںحذف کریںاس مضمون کو پڑھنے اور سننے والوں کو اللہ اتنی توفیق دے کہ اپنے اندر حوصلہ پیدا کر سکیں کہ زندگی کو آسان کیسے بنایا جاتا ہے؟