مظفر نگر فسادات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آگے بھی لکھا جاتا رہے گا۔ملائم سنگھ اور اکھلیش یاود حکومت اس فساد کا گجرات سے موازنہ کرنے سے خفا ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ اسے بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ فساد کئی معنوں میں گجرات سے بھیانک اور بدترین ہے۔ کیمپوں کے بارے میں حکومت اترپردیش کا جو رویہ رہا ہے اسے کسی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فسادات کے متاثرین سخت سردی سے تڑپتے رہے اور ان کے بچے مرتے رہے اور ملائم اوِر اکھلیش یادو حکومت کروڑ روپے خرچ کرکے سیفئی فیسٹول میں رقص و موسیقی کا لطف لیتے رہے۔ نہ صرف ملائم سنگھ یادو، بلکہ وزیر اعلی اکھلیش یادوحتی کہ ان کی حکومت کے سکریٹریوں نے جس طرح انسانیت سے عاری بیان دیا ہے وہ نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ اس سے حکومت کے رویےے کا پتہ چلتا ہے۔ گجرات میں بھی اس طرح کا سلوک نہیں کیاگیا تھا۔ خاص طور پر قتل کرنے کا جو رویہ اپنایا گیا وہ ممبئی ، سورت اور گجرات فسادات کا توسیع تھا۔ سورت فسادات کے بعد جس طرح مسلم خواتین کی آبروریزی، انہیں برہنہ کرکے ویڈیو گرافی کی گئی تھی اسی طرح مظفر نگر فسادات کے دوران کیا گیاتھا۔ مظفرنگر فسادات کے دوران بڑے پیمانے پر اجتماعی آبروریزی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس ضمن میں تین درجن سے زائد متاثرین کی شناخت ہوچکی ہے۔ درجنوں ایسی خواتین تھیں جنیں آبروریزی کا شکار بناکر انہیں قتل کردیاگیا اور انہیں جلاکر ثبوت کو تلف کردیاگیا۔گجرات کے فسادیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مظفر نگر میں فسادیوں نے مسلمانوں کا قتل کرکے ٹکڑے کرکے جگہ جگہ زمین میں گاڑ دیا اور کچھ لاشوں کو جلاکر تالابوں اور نہروں میں بہا دیا گیا۔سب سے بھیانک واقعہ خواتین اور کمسن لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کا ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے انسان کس قدر حیوان وحشی اور شیطان بن سکتا ہے۔ ایک لڑکی نے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح جاٹوں نے انہیں گاؤں میں یرغمال بناکر اس کے ساتھ آبروریزی کی اور غیر فطری عمل کیا۔ ایک کے بعد دیگر جاٹ کے حوالے کرتے رہے۔اسی پر بس نہیں کیا بلکہ برہنہ کرکے اس متاثرہ لڑکی کو رقص کرنے پر مجبور کیا گیا اور اس کی ویڈیو گرافی کرائی گئی۔ایک دیگر آبروریزی کے واقعہ میں دو لڑکی جو ایک نند اور بھابھی ہے (نند کی عمر صرف 14 سال ہے) جب وہ اپنی جان بچانے کے لئے گاؤں سے بھاگ رہی تھیں توانہیں گاؤں کے جاٹوں نے پکڑ لیااور کئی دن تک ان کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ وہ دونوں کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگیں تو دوسرے گاؤں کے جاٹ نے انہیں پکڑ لیا اور کئی دنوں تک ان کے ساتھ اجتماعی آبروریز کا عمل دہرایاگیا۔اس کے بعد وہ کسی ان کے چنگل سے نکل کر گنے کے کھیت میں پناہ لی تو وہاں بھی ان کے ساتھ یہی عمل ہوا۔ گجرات میں فسادیوں نے اجتماعی آبروریزی کو ہتھیار بنایا تھا اور مظفر نگر میں بھی بڑے پیمانے پر یہی ہوا ۔ فسادات سے پہلے افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اس افواہ میں ہندو لڑکی کی آبروریزی کی بات کہی گئی تھی اور اس کے بعد منظم منصوبے کے تحت مسلم لڑکیوں اور خواتین کو اس کا نشانہ بنایاگیا۔ فسادات کے دوران مسلم خواتین کی آبروریزی کو ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے اور اس کے عام ہونے کی واحد وجہ سے خاطیوں کے خلاف شکایت درج کرانے کے باوجود کوئی کارروائی نہ کرنا ہے۔
مظفر نگر فسادات کے بارے میں ابتد ا سے اترپردیش حکومت جھوٹ بولتی رہی ہے۔ حالات سے آگاہی کے باوجود اس نے حکومت نے فساد روکنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی۔ جو فسادات کو کنٹرول کرسکتے تھے ان افسران کا تبادلہ کردیاگیااس کی جگہ ایسے افسران لایا گیا جو فسادیوں کی ہمت افزائی کرسکتے تھے۔جو معاوضہ دیا گیا ہے اس سے وہ زمین بھی نہیں خرید سکتے گھر بنانا تو دور کی بات ہے۔نقصان کے حساب سے معاوضہ نہیں دیا گیا ہے جس سے وہ ضروریات زندگی پوری کرسکیں۔جہاں وہ اپنے مکان، زمین جائداد چھوڑ کر آئے وہاں جا ہیں سکتے۔اس لئے کیمپ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں فساد متاثرین کیمپ میں مقیم ہیں لیکن حکومت اپنے ریکارڈ میں کیمپوں کو خالی کرانا چاہتی ہے تاکہ اس پر دباؤ کم رہے۔ شاملی کے ملک پور میں آٹھ ہزار افراد مقیم ہیں، مورگان میں 1700افرادہیں، بھورا کلاں منصورہ میں174کیمپ ہیں جن میں 668بچے ہیں۔ برمالی کیمپ میں 650خاندان تقریباً ڈھائی ہزار امتاثرین ہیں۔ سنہیٹی کیمپ میں ایک ہزار افراد ہیں۔ اکبر پور سنہیٹی کیمپ جسے مدرسہ کیمپ بھی کہا جاتا ہے 700متاثرین ہیں۔ یہاں سات بچوں کی موت ہوئی ہے۔ ڈیہرہ خوردمدرسہ والا کیمپ 325متاثرین ہیں یہاں بھی پانچ بچوں کی موت ہوئی ہے۔کاندھلہ عیدگاہ کیمپ 105کیمپ میں 580 متاثرین رہتے ہیں۔ کاندھلہ کے دیگر کیمپوں میں ہزاروں افراد مقیم ہیں۔ مدرسہ بدرالعلوم گڑھی دولت 750 متاثرین ہیں۔اس کے علاوہ جولا کیمپ میں 1600 متاثرین ہیں۔ یہاں بھی ضلع انتظامیہ کیمپ خالی کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ضلع انتظامیہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر کیمپوں کو خالی نہیں کیا گیا تو ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں گے اور ضلع انتظامیہ نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سو سے زائدمتاثرین پر سرکاری زمین پر قبضے کرنے کا مقدمہ بھی قائم کردیا ہے۔ کیمپ کے منتظمین نے بتایا کہ انہیں ضلع انتظامیہ کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہے وہ کیمپ خالی کروائے ورنہ ان کے خلاف ایسا مقدمات قائم کیا جائے گا کہ وہ زندگی بھر جیل میں سڑتے رہیں گے۔ کیمپ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ حکومت کا مقابلہ کرسکیں اس کے علاوہ یہاں کوئی مسلم وزیر، ممبر ان پارلیمنٹ یا یا ممبران اسمبلی ان کی سدھ لینے نہیں آرہے ہیں جس سے انتظامیہ پر دباؤ پڑے۔ جو گیا کھیڑا دو ہزار پناہ گزیں ہیں۔ روٹن میں 1250افراد، بی بی پورٹیا میں 1500 افراد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کیمپوں میں متاثرین مقیم ہیں۔ جو کیمپ چل رہے ہیں ضلع انتظامیہ نے کیمپ چلانے والوں کوجھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دی ہے۔ ساتھ اس نے کہا کہ مظفر نگر فسادات اور اس کے بعد کے واقعات نے مسلم قیادت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے انہوں نے اس مصیبت کی گھڑی میں فسادات متاثرین کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔کیمپوں میں مقیم متاثرین کا خیال ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں فوٹو کھینچوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ راحتی اشیا ان تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔ متاثرین کی حالت زار دیکھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ راحتی رقم لوگ دے رہے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ رہی ہے البتہ کیمپ کے منتظمین اور اس سے وابستہ دیگر افراد کی جیبیں گرم ہورہی ہیں۔
سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں، مسلم تنظیموں ،مسلم لیڈر شپ یہاں تک مسلم علماء کا رویہ فسادمتاثرین کے تئیں انتہائی مایوس کن ہے۔ کیمپوں کو اجاڑنے کے لئے حکومت اترپردیش علماء کا استعمال کر رہی ہے اور علماء چند سکو ں ، کچھ سہولتوں یا عہدے کے وعدے پر ہی حکومت اترپردیش کے زرخرید غلام بنے ہوئے ہیں۔ انہیں فسادات متاثرین کا درد محسوس نہیں ہورہا ہے۔ مظفر نگر فسادات کے متاثرین کو حکومت کے ظلم و ستم کے سہارے میں چھوڑ دیا گیا ہے اور وہاں سے بغیر بازآبادکاری کے متاثرین کے کیمپوں کو جبراً اجاڑا جارہا ہے لیکن مسلم قوم اور مسلم لیڈر شپ پر بے حسی طاری ہے۔ فسادات متاثرین میں خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ خواتین رفع حاجت کے لئے تسلہ کا استعمال کرتی ہیں۔ رات میں ضرورت پیش آتی ہے تو وہ تسلہ میں رفع حاجت کرتی ہیں اور دن میں اسے باہر پھینک آتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خوف و دہشت کا کس قدر ماحول ہے۔ حکومت اترپردیش فسادات کے خاطیوں اور قصوروار کو اب تک گرفتار نہیں کیا ہے وہ نہ صرف کھلے عام گھوم رہے ہیں بلکہ متاثرین کو دھمکیاں دے رہے ہیں وہ مقدمہ واپس لے ورنہ ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گاجوانہوں نے ان کے رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہے۔ اتردیش میں مسلم ارکان اسمبلی کی تعداد 69 ہے اور صرف سماج وادی حکومت میں بھی 45مسلم ممبران اسمبلی ہیں اگر وہ حکومت پر دباؤ ڈالتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ حکومت سخت قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوتی۔ اگر یہ ممبران حکومت کی حمایت کرنا ترک کردیں تو حکومت اگلے ہی ڈھرام سے گرجائے گی۔لیکن افسوس کا مقام ہے اس طرح کا کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے ان لوگوں نے فسازدہ علاقوں کا دورہ تک نہیں کیا ہے۔بلکہ کچھ مسلم لیڈر جیسے کہ بکل نواب حکومت کی چمچہ گیری کرتے ہوئے فسادات متاثرین کے کیمپ ہونے سے ہی انکار کردیا۔ ہندوستان کی کوئی خواتین تنظیم اجتماعی آبروریزی کی شکار ان مسلم خواتین کے آنسو پوچھنے کے لئے آگے نہیں آرہی ہیں جو گزشتہ 16 دسمبر کے روح فرسا واقعہ کے بعد ہفتوں انڈیا گیٹ میں ڈتی رہی تھیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہاں کی حکومت ہی نہیں بلکہ سماجی تنظیمیں بھی مسلم خواتین کے ساتھ جرائم کو جرائم کے زمرے میں شمار نہیں کرتیں۔
***
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
عابد انور |
plight of Muzaffarnagar riot victims & insensitiveness of muslim organizations. Article: Abid Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں