مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا نثری بیانیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-01

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا نثری بیانیہ

مولانا کی شخصیت صاحبقرانی تھی۔
وہ ایک درہ یکتا تھے، گوہر نایاب، جس نے سمرقند و بخارا، دمشق و بغدار، اسکندریہ و قاہرہ، شیراز و اصفہان کی مٹی سے جنم نہیں لیا تھا بلکہ ہندوستان کی مٹی سے جنم لیا جس کے سپوتوں نے عرب کی مقدس سرزمین میں جنم لینے والے دانشوروں کی بھی فکری قیادت کی۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی اس کی ایک تابندہ مثال تھے۔ وہ پوری دنیا میں ہند کی تہذیبی،لسانی اور ثقافتی، شناخت کا کا ایک نمایاں حوالہ تھے۔ رب ذوالجلال نے انہیں قلب متقلب، مع الحق اور لسان متحلی بالصدق ودیعت فرمایاتھا، اس لئے وہ ہمیشہ سچے شبد لکھتے رہے اور بولتے رہے۔ ان کی کسی بھی تحریر یا تقریر میں مداہنت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ ان کی ہر ایک کتاب ایک خزانہ عامرہ اور بیش قیمت تحفہ ہے کہ دنیا کی کوئی قیمتی سے قیمتی شئے اس کی متبادل نہیں ہوسکتی۔
مولانا نجیب الطرفین تھے۔ اصلا حسنی و حسینی سید اور اس خانوادے کے چشم و چراغ جس نے ہندوستان کی فکری عظمتوں اور علمی رفعتوں سے ایک جہاں کو آشنا کرایا جس نے اس سرزمین کے شمس و قمر کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر عالم عرب سے متعارف کرایا اور ایک ایسی سوانحی لغت تیار کی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ ان کے والد مبرور و مغفور مولانا عبدالحئی حسنی 8 ضخیم جلدوں پر محیط "نزہتہ الخواطر" کو علمی تاریخ اور ان کے تذکرہ "گل رعنا" کو کوئی بھی ادبی تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔
سید ابوالحسن علی ندوی اپنے والد مبرور کی علمی و ادبی روایت کے سچے امین وارث تھے۔ انہوں نے بھی ہندوستانی علوم و فنون میں اپنے والد مغفور کی طرح اضافے کئے اور پوری دنیا کو ایسی ایسی کتابیں دیں کہ دنیا آج بھی مولانا کی شخصیت پر غبطہ کرتی ہے۔ دینی علوم و معارف کا وہ کون سا پہلوہے جومولانا کی نظر سے مخفی رہا ہو۔ تصوف، تاریخ، تہذیب، ثقافت، ادب، عصری اسلامی موضوعات کونسا ایسا موضوع ہے جس پرمولانا نے نہیں لکھا اور اس کا حق نہیں ادا کیا۔
"تاریخ دعوت و عزیمت" اپنی نوعیت کی ایک ایسی ہی کتاب ہے جسے لکھنے کیلئے صدیوں کی ریاضت چاہئے۔ مگر مولانا نے اس طرح کی بہت سی کتابیں لکھیں اور ان کتابوں نے بہتوں کی ذہنی دنیا کو بدل ڈالا۔ ’سیرت احمد شہید، ہو یا ’المرتضی، ، ’پاجا سراغ زندگی، ہویا "کاروان زندگی، یہ ایسی کتابیں ہیں جنہیں وقت کی تناسختی گردشیں کبھی نہیں مٹاسکتیں۔ ’کرالغداۃ، اور "مرالعشی، بھی اس کی رونق کو ماند نہیں کرسکتے۔
علی میاں، عربی زبان و ادب کے صاحب طرز ادیب تھے اور ان کی عظمت کانقش عرب کے بڑے بڑے فضحا و بلغا کے ذہنوں پرقائم ہے۔ سید قطب ہوں یا انورالجندی، علی طنطاوی ہوں یا یوسف القرضاوی، شکیب ارسلان ہوں یا ناصر الدین البانی، شکری فیصل ہوں یا شیخ عبدالعزیز رفاعی، سبھی علی میاں کی فصاحت و بلاغت لسانی کے اسیر ہیں۔

مولانا علی میاں اردو کے بھی ایک صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ وہ کون سی صنف ہے جس میں مولانا ابو الحسن ندوی نے اشہب قلم دوڑائے۔ کونسا ایسا موضوع ہے جسے ان کا قلم چھو کر نہ گزرا۔ انہوں نے سفر نامے لکھے تو ایسے کہ ابن بطوطہ اور ابن جبیر کی یاد تازہ ہوجائے اور خاکے لکھے تو ایسے کہ کیا کوئی اردو کا سقراط اور بقراط لکھے گا اور خودنوشت لکھی تو ایسی کہ پڑھنے والے کے دل میں ویسی ہی زندگی جینے کی تمنا جاگ اٹھی۔
مولانا علی میاں، نام نہاد ماہرین اقبالیات سے کہیں زیادہ بڑے اقبال شناس تھے۔ اقبالیات کے ضمن میں ان کا جو کارنامہ ہے وہ لازوال ہے۔ اقبال کے افکار کی تفہیم صحیح معنوں میں وہی کرسکتا ہے جس کے ذہن کی جڑوں میں اسلامی فکری روایت بھی شامل ہو۔ جو اسلام کے متحرک، انقلابی عناصر کو سمجھتا ہو۔ جس نے اسلام کا کلی طورپر مطالعہ کیا ہو۔ علامہ اقبال کی فکری شخصیت کو مولانا نے ہی صحیح تناظر میں سمجھا اور عرب دنیا کے سامنے ان کے افکار اس طرح پیش کئے کہ عالم عرب بھی علامہ اقبال کا والہ و شیدا ہوگیا، پھر عبدالوہاب عزام اور صاوی علی شعلان نے اقبال شناسی کے دائرے کو اتنی وسعت بخشی کہ عرب کی فضا اقبال کے نغموں سے گونجنے لگی۔ از ساحل نیل تابخاک کا شغر اقبال کے مسجد قرطبہ کی سمفنی گونجتی رہی۔ مرحوم رشید احمد صدیقی نے مولانا کی اقبال شناسی کا اعتراف کرتے ہوئے کس قدر بلیغ رمز استعمال کیا ہے:
"مولانا پہلے عالم دین ہیں جس نے موجودہ صدی کی اردو شاعری کے سب سے بڑے نمائندے اور عظیم شاعر شاعر اقبال کی شخصیت اور شاعری کا مطالعہ غیر معمولی شوق اور بصیرت سے کیا ہے ورنہ بیشتر علماء ہر جدید کو بالعموم مشتبہ، ورنہ بڑی احیتاط سے دیکھنے کی طرف مائل رہے ہیں۔"

دراصل اقبال کے شاہین یعنی انقلاب و تحریک کے استعارہ کو مولانا نے ہی اس کی مکمل معنویت کے ساتھ سمجھا اور اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ ان کی ہر تصنیف میں یہ شاہین زیریں سطح پر ضرور موجود ہوتاہے۔ ’نقوش اقبال" کی ایک ایسی کتاب ہے جو اقبالیات پر محض ایک اضافہ نہیں بلکہ اقبال شناسی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال کے جملہ فکری عناصر کی تفہیم کا حق انہوں نے ادا کردیا اور ایسا مولانا ہی کرسکتے تھے کہ وہ مواہب لدنیہ سے معمور تھے۔
علامہ اقبال کی طرح مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی بھی مغربی طوفان کیلئے ایک چٹان کی مانند تھے۔ مولانا کی شخصیت میں مشرقی تہذیب، ثقافت اور علوم کی جڑیں بہت مضبوط تھیں اور انہیں مشرقی تہذیب و ثقافت کی رفعت اور عظمت پر اتنا یقین تھا کہ مغرب کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ مغربیت اور مادیت پرستی کے خلاف مولانا نے قلمی جہاد ہی نہیں بلکہ عملی جہاد بھی شروع کردیا تھا۔ مولانا جانتے تھے کہ مغربی تہذیب کی یلغار، مشرق کے فکری ایوانوں کو تہس نہس کردے گی، اس لئے انہوں نے مکمل مزاحمت اور مقاومت کے ساتھ مغربی تہذیب کے خلاف لکھا اور عالم عرب کو بھی اس تہذیب کے دلدل سے نکالا۔
مولانا کا ادبی ذوق انتہائی شستہ اور شائستہ تھا۔ ادب کا باضابطہ مطالعہ ان کے روزہ مرہ کے معمول میں شامل تھا۔ ان کی تحریروں میں میر، غالب، مومن، فیض، جگر کے اشعار چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مولانا کے اظہار و بیان کی جمالیات میں دراصل بہت کچھ حصہ عالمی ادبیات سے آشنائی کا بھی ہے۔ وہ اس نثری اسلوب کے موئد ہیں جو اسلوب ’ہندوستان میں جنم لینے والے پہلے یونانی مفکر علامہ شبلی نعمانی، کا تھا۔ ان کے الفاظ میں شوکت و جلال اور رعنائی و جمال کا بہت ہی خوبصورت وصال نظر آتا ہے۔ ان کی تحریر صرف جادو نہیں جگاتی بلکہ ذہنوں کے بندر دریچوں کو بھی وا کرتی ہے۔ ان کی تحریر میں فکشن کے سارے تشکیلی و ترکیبی عناصر موجود ہیں۔ اگر میں انہیں اردو کا ایک بڑا ’فکشن رائٹر، کہوں تو شاید غلط نہ ہو۔ ان کے باطن میں ایک بہت بڑا افسانہ نگار چھپا بیٹھا تھا اور وہ اپنی ہر تحریر میں بڑی خوبصورت منظر نگاری کرتے تھے۔ ماضی کے واقعات کی بعینہ ایسی تصویر کھینچتے تھے جیسے وہ خود اس واقعہ کے چشم دید گواہ رہے ہوں۔
اپنی ایک تحریر میں میدان عرفات کا نقشہ کھینچتے ہوئے انہوں نے جو منظر نگاری کی ہے اس سے ان کی قوت متخیلہ اور لسانی ادارک کا تو اندازہ ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی قرأت کے عمل سے گذرتے ہوئے قاری عصر حاضر سے اس خیر القرون میں پہنچ جاتا ہے جس میں اس واقعہ کا ظہور ہوا تھا۔ ان کے اظہار و بیان کی جمالیات کا ایک نمونہ دیکھئے :
"اسی طرح سے میدان عرفات کو تصور کیجئے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کفن بردوش انسانوں کا مجموع ہے۔ لبیک کی صداؤں اور حجاج کی دعاؤں سے فضا گونج رہی ہے۔ خدا کی شان بے نیازی اور عظمت و جبروت کا نقشہ سامنے ہے۔ انسانوں کے اس جنگل میں ایک برہنہ سر، احرام پوش ایسا بھی (فداہ امی و امی) ہے جس کے کاندھوں پر ساری انسانیت کا بار ہے، جوہر دیکھنے والے سے زیادہ خدا کی عظمت و جلال کا مشاہدہ کررہا ہے اور ہر جاننے والے سے زیادہ انسانوں کی درماندگی، بے حقیقتی اور بے بسی سے واقف ہے۔ اس پر تاثیر اور ہیبت فضا میں اس کی آواز بلند ہوتی ہے اور سننے والے سنتے ہیں:۔
اے اللہ! تو میری سنتا ہے اور میری جگہ کو دیکھتا ہے اور میرے پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے۔ تجھ سے میری کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ میں مصیبت زدہ ہوں، محتاج ہوں، فریادی ہوں، پناہ جو ہوں، پریشان ہوں، ہراساں ہوں، اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے والا ہوں۔ تیرے آگے سوال کرتا ہوں، جیسے بے کس سوال کرتے ہیں۔ تیرے آگے گڑ گڑاتا ہوں جیسے گنہگار ذلیل و خوار گڑ گڑا تا ہے تجھ سے طلب کرتاہوں، جیسے خوف زدہ آفت رسیدہ طلب کرتا ہے اور جیسے وہ شخص طلب کرتا ہے جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہو اور اس کے آنسو بہہ رہے ہوں اور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کیے ہو اور وہ اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہا ہو۔ اے اللہ! تو مجھے اپنے سے دعا مانگنے میں ناکام نہ رکھ اور میرے حق میں بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہوجا۔ اے سب مانگے جانے والوں سے بہتر، اے سب دینے والوں سے اچھے۔
کیا خدا کی کبریائی اور عظمت اور اپنی توانائی اور بے نوائی، فقر و احتجاج، عجز و مسکنت کے اظہار و اقرار کیلئے اور رحمت خداوندی کے جوش میں لانے کیلئے ان سے زیادہ پر اثر، پرخلوص اور دل نشین الفاظ انسان کے کلام میں مل سکتے ہیں اور اپنے دل کی کیفیت اور عجزو مسکنت کا نقشہ اس سے بہتر کھینچا جاسکتاہے؟ یہ الفاظ تو دریائے رحمت میں تلاطم پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ آج بھی ان کو ادا کرتے ہوئے دل امڈ آتا ہے۔ انکھیں آشکبار ہوجاتی ہیں اور رحمت خداوندی صاف متوجہ معلوم ہوتی ہے۔ رحمۃ للعالمینؐ پر اللہ کی ہزاروں رحمتیں ہوں کہ ایسی پرکیف اور اثر آفریں دعا امت کو سکھاگئے اور باب رحمت پر اس طرح دستک دینا بتاگئے"۔

یہ سلسبیلی نثر ہے۔ زلال سے زیادہ شیریں اور مٹھاس اس قدر کی طبرزد اور کعب الغزال بھی رشک کرنے لگیں۔ محولہ بالا عبارت میں اتنی مقناطیسی کشش ہے کہ انسان کے پورے ذہنی وجود کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اور سچ کہوں تو مولانا کی ہر تحریر ایسی ہوتی ہے۔ رات کے اندھیروں میں سورج کی طرح چمکتی ہے اور دن کے اجالوں میں شجرسایہ دار بن جاتی ہے۔ مجھے ایسی آگ اور ایسی روشنی بہت کم مذہبی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ ان کی تحریر ہر مومن کے قلب میں قندیل روشن کرتی ہے، گوکہ ان کے اسلوب تحریر کے بارے میں اردو کے ایک بڑے نقاد ظ.انصاری مرحوم کا کہنا ہے کہ :
مولانا کے یہاں Wording زیادہ ہے، بے جا طوالت ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے، مگر خاکسار کا خیال ہے کہ "ایضاح المطالب" کیلئے ہی انہوں نے ایسے اسلوب کو اختیار کیا ہوگا۔ ان کا جو اصلاحی مشن ہے اس کیلئے یہی اسلوب شاید موزوں ہے، اس لئے مولانا کی تحریر میں اگر گہر کے بجائے خزف زیرے بھی نظر آئیں تو ہم جیسوں کیلئے وہ شذرات الذہب ہیں۔ ان کی تجریر میں جو دلکشی اور رعنائی ہوتی ہے، اس پر سبھی فدا ہیں۔ ان کے بیان میں بلاغت، سلاست اور فصاحت ہوتی ہے اور اس میں علوم و معارف کا دریا بھی موجزن رہتا ہے۔

***
haqqanialqasmi[@]gmail.com
موبائل : 09873747593
D-64, Abul Fazal Encalve, Jamia Nagar, New Delhi
حقانی القاسمی

The narrative writings of Ali miyaN Nadvi. Article: Haqqani Al-Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں