اگر شیطان نہ ہوتا تو کیا ہوتا ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-16

اگر شیطان نہ ہوتا تو کیا ہوتا ۔۔۔

If-devil-does-not-exist
بقراط نے ایک عجیب و غریب ایس ایم ایس بھیج کر مخمصے میں ڈال دیا- لکھ بھیجا کہ "اگر شیطان نہ ہوتا تو کیا ہوتا، سوچیے ذرا!!"- سوچا ہائی وے پر کسی مناسب جگہ کار روک کر اس سے یا شیفتہ سے پوچھیں گے کہ اس پیام کا کیا مطلب ہے- کیوں شریفوں کو ستایا جا رہا ہے- لا حول ولا۔۔ شیطان کو افکار میں دعوت دینا، توبہ ہے۔۔۔۔ایک ہوٹل کے قریب لب سڑک ہم نے کار روک لی، اورشیفتہ کو فون لگایا- پتہ چلا ان پر نعوذباللہ وہ سوار ہو چکا ہے- بھرے بیٹھے تھے، فون اٹھاتے ہی برس پڑے - فرمایا، کمبخت بقراط کو برقی پیام کی تمیز نہیں ہے، بس لکھ بھیجا ۔۔۔ اگر شیطان نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔۔۔۔ اوراس پر طرا یہ کہ ریختہ کی زبان میں بات کر رہا ہے کمبخت، اور غالب کی زمین میں ہل چلا رہا ہے، پتہ نہیں کیا اگانا چاہتا ہے اس زرخیز زمین سے۔۔۔ مرزا تو خود پریشان تھے کہ یہ ہوتا اور وہ ہوتا تو کیا ہوتا ۔۔۔ اماں ان پر بھی وہ اکثر سوار رہا کرتا تھا۔۔۔ہم نے حیرت سے پوچھا حضور کون بقراط؟ فرمایا حد کرتے ہو آپ بھی، ہم شیطان کی بات کر رہے ہیں، لا حول پڑھیے، جب سے اسکا ذکر اس کمبخت بقراط نے چھیڑا ہے ۔۔۔ بس کیا کہیں، ہمیں تو شک ہے کہیں وہ ہم پر بھی سوار نہ ہوگیا ہو- اماں اس پیام کو پڑھکر بے چین ہوگیے ہیں، مرزا کا کیا تھا وہ تو اکثر عالم بے خودی میں رہاکرتے تھے، خود کو اس سے بچا نہیں پاتے تھے- اور تو اور کمبخت نے جملے کے آخر میں سوچنے کو بھی کہا ہے کہ ذرا سوچیے۔۔۔۔۔، ذرا سے اس کی کیا مراد تھی، شیطان بھلا ذرا سی سوچ میں کہاں سما سکتا ہے- ابھی گفتگو جا ری تھی کہ فون منقطع ہوگیا، ہم نے سوچا یہ کمپنیاں مواصلاتی خدمات انجام دیتی ہیں یا قطع تعلق کرنے پر فائز کی گئیں ہیں۔۔۔ کچھ پتہ نہیں، ان پر بھی شیطان سوار ہے -

اب جو موبائیل کی گھنٹی بجی تو بقراط کو سر پر سوار پایا- ہم نے اپنے ساتھ ساتھ شیفتہ کا غصہ بھی اس پر اتارا، اور خوب اتارا - پھر اچانک خیال آیا کہ کمبخت شیطان اب ہم پر بھی سوار ہو گیا ہے- فورا لا حول بھیجا۔۔بقراط نے تفصیل بتائی تو وہ آہستہ آہستہ سر سے اترنے لگا- اور بات سمجھ میں آگئی- بقراط کو ایک عرصہ سے نوکری نہیں مل رہی تھی، اوراب جو ملی بھی تو ایک ایسے ٹی وی چینل میں جس نے نوکری کی شرط ہی یہ رکھ دی تھی کہ بقراط اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لئے ایک سروے کر لائے ، اورجس کا عنوان وہی تھا جو برقی پیام میں بقراط نے لکھ بھیجا تھا- کمبخت ٹی وی چینل، شیطان کہیں کا ۔۔۔ اپنے عزیز از جان محبوب کا سروے کرانا چاہتا ہے- سوچا یہ بھی "پیڈ سروے" ہوگا، ہماری بلا سے ہوگا تو ، بقراط کو نوکری مل جائے یہی کافی ہے- ہم نے بقراط سے وعدہ کرلیا کہ اس سروے کو انجام دینے میں ہم ضرور اسکی مدد کریں گے –

ابھی ہم فون پر بقراط سے گفتگو کر رہے تھے کہ کار کی پچھلی نشست پر رشتہ داروں کے بچوں کی دھما چوکڑی سے پریشان ہو اٹھے اور غلطی سے کوئی بٹن دب گیا اورتعلق قطع ہوگیا- غور کیا تو پتہ چلا رشتہ دار ہوٹل کو قریب دیکھ کر کھانے کی فرمائیش کر رہے تھے- گرانی نے جیب کے ساتھ سب کو نظروں سے گرا رکھا تھا - ایک نظر رشتہ داروں پر ڈالی تو یقین ہوگیا کہ شیفتہ صحیح فرما رہے تھے، کمبخت کا نام لو تو کسی نہ کسی کے سر سوار ہوجاتا ہے- ہم نے رشتہ داروں کو چائے پانی پر ٹرخانے کا سوچا ، اور کار گھما کر ہوٹل کی پارکنگ کی طرف کوچ کرنا ہی چاہتے تھے کہ ایک سیاسی جلوس کو آڑے آتے دیکھا- بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سیاسی چالوں کی طرح آڑے ترچھے آتے دیکھا۔۔۔۔ کوئی مقامی کانگریسی لیڈر اس جلوس کی رہنمائی کر رہا تھا۔ سوچا انہیں سے بقراط کے مطلوبہ سروے کی ابتدا کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ " اگر شیطان نہ ہوتا تو کیا ہوتا، سوچئے ذرا ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی امیر جلوس کی کار ہمارے قریب آئی ہی تھی کہ ہم نے کار کا دروازہ کھول کر ان کی سمت کو سیدھا کیا اور پھر باہر آ کر انکی بغیر چھت کی سواری کے قریب کھڑے ہوگئے۔۔جس پر سے کھڑے ہوکر وہ غریبوں کو چھت فراہم کرنے کے وعدے کر رہے تھے۔۔۔ ہمارے چہرے سے لٹکتی اور بشرے سے ٹپکتی ظاہری مسلمانیت دیکھ کر انکی کلی کھل گئی۔۔ جب بقراط کا سوال ہم نے دہرایا تو پتہ نہیں کیا سمجھے، اور کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ۔۔۔کا تاثر دے کر شکریہ ادا کیا اور ہماری جیب میں نوٹوں کی ایک گڈی ڈال کر ہماری آخرت داؤ پر لگا دی، یا پتہ نہیں اپنی آخرت پر داو لگایا ، اور خوشی سے دیوانے ہوگئے، بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ لگ رہے تھے۔۔۔ اور پھر لاوڈ اسپیکر میں چیخنے لگے۔۔۔بھائیوں بہنوں ۔۔۔۔سوچئے ذرا۔۔ اگر شیطان نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔۔۔کتنا اچھا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ مودی مردہ باد۔۔۔ مودی مردہ باد۔۔۔موووووودی ۔۔۔۔مردہ باد- یہ سن کر ہماری سمجھ میں آیا کہ واقعی بقراط کا سروے شیطان کو سوار کر نے کا موجب ہوا چاہتا ہے- ضرور کسی ناپاک حالت میں یہ بقراط کے سر سوار ہوا ہوگا - ہم نے بھی نوٹوں کی گڈی کو تھپتھپایا اور رشتہ داروں کو لے کر ہوٹل کی سمت کوچ کر گئے- سوچا آج شیطان نے عزت رکھ لی ہماری- ابھی ہوٹل کے اندر داخل ہوہی رہے تھے کہ ہوٹل کے مالک کو اپنے نوکروں پر چیختے ہوئے حکم صادر کرتے سنا، خالص آگرے کی اردو میں کلام فرما رہے تھے۔۔۔۔ ابے دیکھ لیجیو۔۔۔ گاہکوں سے پانچ سو کے نوٹ نہ لیجیو، قصبہ میں نقلی نوٹوں کی تقسیم ہوئی ہے۔۔۔۔ ابے بچ کے رہیو۔۔ خامخا میں مصیبت مول مت لیجیو- لینے کے دینے پڑ نہ جاویں۔۔۔۔ ابے سنا تم سب نے۔۔۔۔ وہ سنتے نہ سنتے ہمارے دل نے سنا اور مرجھا گیا ، جو ان نوٹوں کی گڈی کے گداز سے گرما گیا تھا، وہ کانگریسی گڈی جنہیں ہم نے قمیص کی اوپری جیب میں اپنے دل کے قریب رکھی تھی - جیب کے پیچھے سے پتہ نہیں پسینے کی یا خون کی بوندیں تھیں جو نکل کر جسم میں یہاں وہاں دوڑنے لگی، شاید دل میں سوراخ ہوگیا ہو ایسا سوچ کر ہم نے پھر لاحول بھیجا- قدم خود بہ خود آگے بڑھنے سے رک گئے- بہت احتیاط سے ہم نے اپنی ہی جیب میں تانکا جھانکی کی، انگلیاں کپکپا رہی تھی اور نظریں وہ سب کچھ دیکھنا نہیں چاہ رہی تھیں جو نظر آنے والا تھا۔۔۔ ہم نے ایسے اپنی جیب میں جھانکا جیسے بکسے سے کوئی سانپ نکالنے کی کوشش کرے، پانچ سو کے نوٹوں کی جھلک ہم نے پائی اور پھر اوسان کے علاوہ ہمارا کیا کچھ خطا نہ ہوا ہوگا، بقراط کو یاد کر دل ہی دل میں برا بھلا کہا اور اس کمپنی کو بھی جس نے سروے کا یہ کام دیا تھا- جعلی پانچ سو کی نوٹوں کی گڈی پھینک کر گڈریا بننے سے بہتر ہے سوچا اسے پرکھنا ضرو ری ہے، اور اسکے بعد ہی کچھ فیصلہ کیا جانا چائیے – بھلا یہ کیا بات ہو ئی کہ سنی سنائی پر یقین کر لیا جائے اور گمان کے گھوڑے دوڑائے جائیں- یہ تو صحافت غلیظہ کا طرز ہے- توبہ ہے، دین میں اس کی ممانعت بھی تو ہے۔۔۔ یوں ہی بد گمانی گناہ ہے- بلکہ گناہ عظیم ہے، کسی بھی سنی سنائی خبر پر بھروسہ کرنا اور اسے عام کرنا یہ تو ایمان کے خلاف بات ہے- بس یہ سب کچھ سوچ کر ہوٹل میں بیٹھ گئے اور رشتہ داروں سے کہا جو چاہے آج منگوا لو - انہیں بھی ہماری بات پر یقین نہیں آیا- شاید وہ سب بھی سنی سنائی پر یقین نہیں کرتے ہونگے- سب کے سب پختہ دیندار تھے- ہم نے بھی ایک طرحی مصرع کی طرح وہ گڈی با ہر نکال کر لہرائی- سب واہ واہ کرنے لگے- پھر موقع غنیمت جان کر نوٹوں پر کا فی دیر تک غور فرمایا۔۔۔۔تب تک دیر ہو چکی تھی، اور قافیہ تنگ ہوچکا تھا- بیرے نے انوا ع و اقسام کھانوں سے میز کو سجا دیا تھا، اور گڈی میں ہمیں اوپر اور نیچے ملا کر چار چھ نوٹ نظر آرہے تھے جو پانچ سو کے تھے ، درمیان میں سب سفیدی چھائی تھی اور کورے کاغذ کے سوا کچھ نہ تھا- سوچا چلیے قافیہ تنگ ہوا تو کیا، ردیف میں کچھ تو وزن نکلتا ہے- نوٹ جعلی نہیں تھے اور یہی کا فی تھا- خیال آیا کانگریس اتنی بھی بری نہیں ہے جتنی ہم نے اسے سمجھا ہے- دھوکہ دیتی ہے لیکن دھوکے میں دھوکہ نہیں دیتی ہے کہ بی جے پی کی طرح پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے-

ابھی ہم رشتہ داروں کی بریانی کے نوالوں سے بھری چیخ پکار سن کر افکار کو ایک موڑ دینے کی سوچ ہی رہے تھے کہ بغل کی میز پر رکھے اخباروں پر نظر پڑی۔۔۔۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم اور ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل مسٹر ایرئیل شرون کئی برس کوما میں رہنے کے بعد مر گیا۔۔۔۔۔خس کم جہاں پاک۔۔ گینیس بک میں یہ ریکارڈ کمبخت فرنگی نہیں درج کریں گے – اس کی تحقیق نہیں کریں گے کہ معلوم ا نسانی تا ریخ میں کسی مقتدر اعلی کو اتنی طویل سکرات کیوں نہیں ملی- ہٹلر ، مسو لینی ، لینن تک ایسے مکافات عمل سے نہیں گزرے - اور نا ہی قدیم تاریخ میں کسی فرعون نے ایسی موت پا ئی ۔۔ ہاں شاید بش جو نئیر کو نصیب ہوگی انشاء الله - خیال آیا ۔۔۔ اگر شیطان نہ ہوتا تو کیا ہوتا!!۔۔، ایک گوشے میں پرویز مشرف کی چھوٹی سی تصویر تھی اور دوسرے گوشے میں نواز شریف کی قدرے بڑی تصویر۔۔۔ سیاست کے رنگ بھی عجب ہوتے ہیں۔۔۔ کب کسے چھوٹا بڑا کر دے پتہ نہیں- سوچا بقراط کا برقی پیام ان دونوں میں سے کس پر زیادہ مناسب ہوگا ، پتہ نہیں-

بقراط کے برقی پیام میں گم تھے کہ اسی اثنا بیرا بل بھی لیکر آگیا، سوچا کیوں نہ اس سے بھی سروے کرالیا جائے، ہمارے سوال داغتے ہی کمبخت پھڑک اٹھا، مرغ مسلم کی بچی ہوئی ہڈیوں کو میز سے سمیٹتے ہوئے نخوت سے گویا ہوا ۔۔۔۔۔۔ اگر شیطان نہ ہوتا تو آج آپکی طرح یہ قوم حرام کی کما ئی نہیں کھاتی اور کھلاتی، قوم مزےاڑا رہی ہے جبکہ مظفر نگر اور شاملی کیمپ میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں - یہ بے شرم قوم احتجاج کیا کرے گی- ہم نےغصے سے اسے میز صاف کرنے اور فورا چائے لانے کا حکم دیا تاکہ اپنی انا کو کچھ تو تسکین حاصل ہو، اور سوچا کمبخت کے سر پر شیطان سوار ہوگیا ہے جو اس طرح باتیں کر رہا ہے- پاکستان میں ہوتا تو اب تک شہید ہوگیا ہوتا، اور اگر بچ جاتا تو غازی - چائے کے انتظار میں اطراف پر نظر دوڑائی تو پایا کہ وا قعی قوم مزے اڑا رہی تھی، بیرا سچ کہہ رہا تھا- خوشی بھی ہو ئی کہ دانشور اور تجزیہ نگار غیر ضرو ری ہما ری قوم کو سطح افلاس سے نیچے ڈکھیلنے پر تلے ہیں- نظر ایک با ریش تندرست و توانا بے داغ لباس زیب تن کئے صاحب پر پڑی، ضرور کسی صاحب علم و عمل کے پیروکار ہونگے۔۔۔۔ سوچا ان سے بھی سروے کروا لیا جائے- معذرت کر کے انکے قریب رکھی کرسی گھسیٹ کر ہم بیٹھ گئے- انہوں نے پہلے تو خاموشی اختیار کر لی یعنی معذرت قبول کرنے سے انکار ہی کر دیا- ہم نے جب بقراط کا سوال دہرایا تو تیلی سے دانتوں میں خلال کرتے ہوئے گویا ہوئے- "حذور"۔۔۔ شاید زبان حذر کہنا چاہ رہی تھی کہ۔۔۔۔ احتیاط اے بے تحاشہ کھانے والے۔۔۔۔ اس سوال کا جواب دینے میں احتیاط۔۔انکی زبان کو شا ید تا و آگیا اور حذ ر کے درمیان ' و ' آگیا ہوگا - یا پھر زبان اور دانت کے درمیان ذ اور ض میں ان بن ہو گئی ہوگی- اس لئے حضور کے بجائے حذور کہہ بیٹھے- فرمایا۔۔۔۔ اگر شیطان نہ ہوتا تو ہم بھی آج یہاں نہ ہوتے، جنت میں بٹیر بھون کر کھا رہے ہوتے اور کوثر و تسنیم سے پی رہے ہوتے، سونٹھ کی مہر لگی بوتل لئے پھرتے- ہم نے کہا جناب آپ سیدھے ابتدا پر پہنچ گئے- فرمایا۔۔۔ حضور ابتدا میں ہی شیطان نے ہمارا خانہ خراب کر دیا تھا- کمبخت نہ ابا اور اماں کو بہکاتا نہ انہیں خلد سے نکلنا پڑتا- دراصل ہم سب شیطان کے شر سے پیدا ہوئے ہیں اور اس نے ۔۔۔۔۔۔ ہم نے ٹوک دیا اور کہا جناب رکیے آپ کیا کہہ رہیں ہیں، اس میں تو کفر کے امکانات ہیں- فرمایا۔۔۔ نہیں نہیں ہمارا مطلب ہے اگر شیطان شر نہیں کرتا توہم سب پیدائیشی جنتی ہوتے، اور سب کا وطن ایک ہوتا، سرحدوں کے جھگڑے ہی نہ ہوتے- کوئی گورا کالا اور امریکی ہندوستانی پاکستانی نہ ہوتا- سب خوبرو حسین و جمیل اور امیر ہوتے- سب کے اپنے اپنے محل ہوتے- کتنا مزہ آتا- ہم سمجھ گئے۔۔ ان کے سر پر بھی شیطان سوار ہو رہا ہے- شیفتہ نے بجا فرمایا تھا کہ کمبخت بقراط نے شیطانی موضوع چھیڑ کر شیطان کو افکار میں آنے کی دعوت دی ہے- لا حول ولا۔۔۔۔۔پڑھ کر ہم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے-

ہوٹل سے باہر آتے ہی دیکھا کہ چند بے حد سادہ قسم کے لوگ سفید ٹوپی پہنے راہ گیروں کو بے حد پیار سے ٹوپی پہنا رہے ہیں، اور جدید سیاست کا پاٹ پڑھا رہے ہیں- لوگ بھی سیاست غلیظہ کی چلچلاتی دھوپ سے عاجز آئے ہوئے تھے اس لئے بخوشی سر جھکا جھکا کر ٹوپی پہن رہے تھے- ہم نے سر جھکانے سے احتراز کیا کہ سب کچھ تو طاق پر رکھ دیا ہے، اب مسلمانوں کے پاس ایمانداری کا دعوی کرنے کے لئے یہی تو ایک دلیل ہے کہ غیرالله کے آگے سرنہیں جھکاتے، با قی چاہے سو کریں - ایسے ہی جیسے تمام سنتوں کو اور اخلاق حسنہ کو بالائے طاق رکھ کر صرف سلام و درود اور میلاد شریف میں ہی آقا ئے نامدار سے عقیدتیں تلاش کر لی ہیں ہم نے - یہ سب کچھ سوچ کر اپنا سر جھکانے کے بجایے آگے بڑھادیا، سوچا اب جو بھی ہو۔۔۔ کٹے یا رہے، روزروز قوم دشمن سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں قلم ہونے سے تو بہتر ہے کہ ' آپ ' جیسے شریف حضرات کی کسی حماقت سے قلم ہو جائے- ایک بار یہ خطرہ بھی اٹھا لیا جائے- کمبخت اس بیرے کو ہم سے یہ شکوہ تو نہ رہے گا کہ قوم کی خاطر کچھ نہ کیا، جو اتنے طعنے دے چکا تھا کہ کھانا حلق سے نیچے ہی نہیں اترا تھا - الغرض ٹوپی پہن کر آپ جناب کے سامنے بھی ہم نے بقراط کا سوال پھینکا اور انہوں خوب جھیلا- بلکہ الٹا سوال کر بیٹھے کہ۔۔۔ شیطان بھلا کیوں نہیں ہوتا ؟ جہاں جہاں۔ آپ۔ ہونگے وہاں وہاں وہ بھی ہوگا، ہمارے اندر ہی تو ہوتا ہے- ہم نے سوچا اب بقراط کی نوکری پکی سمجھو- یہ سروے ضرور قابل قبول ہوگا- جسے قبول ہوگا وہ کون سا فرشتہ ہوگا- وہ بھی تو کوئی شیطان ہی ہوگا- اندر بیٹھا ہو یا باہر ہو۔۔۔ اس کا کیا ہے۔۔۔ شیطان کہیں کا۔۔۔۔گھر واپسی تک سارے راستہ وہ ہم پر سوار رہا اور ہم لا حول بھیجتے رہے – آپ بھی بھیجیے- آپ ہی آپ پہنچے گا-

***
Zubair H Shaikh
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

If devil does not exist? Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں