ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:18 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-21

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:18


گذشتہ اقساط کا خلاصہ :
ونود نے اگات پور میں ایک حویلی خریدی۔ اس کے پرانے کنویں کی صفائی کی گئی تو اس میں سے ایک بت نکلا۔ بت ایک خوبصورت نوجوان اور گمنام عورت کا تھا۔ ونود نے یہ بت اپنی حویلی کے سامنے حوض میں نصب کر دیا لیکن ایک رات یہ بت اپنی جگہ سے غائب تھا۔ ونود کی بیوی شانتا نے کہا کہ بت کی عورت میرے بستر کے قریب کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ بھید کی کھوج میں دہشت زدہ ونود حویلی کے تہہ خانے میں پہنچا جہاں اسے ایک لاش چبوترے پر رکھی ملی۔ سہم کر وہ واپس اپنے کمرے میں پہنچا تو دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ چند لمحوں بعد بت جیتے جاگتے روپ میں آ نمودار ہوا۔ بت نے ونود سے کہا : "میرا نام شاتو ہے ، میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ ایک زندہ عورت پتھر کے بت میں کیسے تبدیل ہو گئی؟"۔ لیکن کہانی ادھوری رہ گئی ۔۔۔ چند دن بعد وہ ایک پروفیسر کو اپنی حویلی میں لایا اور اسی رات پروفیسر اپنے کمرے میں بت کے جاگنے کے فوراً بعد مر گیا اور پولیس انسپکٹر نے ونود کو پروفیسر کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ونود کے دوست کمار نے ڈاکٹر سے پروفیسر کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے متعلق دریافت کیا اور حوالات میں ونود سے بھی ملاقات کی۔ پھر کمار حویلی کو لوٹ آیا، جہاں اچانک اس کی ملاقات شاتو کے بت کے بجائے جیتی جاگتی شاتو سے ہو گئی۔

قسط : 1 --- قسط : 17

۔۔۔ وہ حیران حیران نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی ۔
دوسرے ہی لمحہ اس کو یہ احساس بھی ہوگیا کہ وہ نیم عریاں حالت میں ہے اس نے گھبرا کر اپنا سینہ چھپا لیا اور مجھ سے پوچھا "تم یہاں کب آئے کمار ۔۔۔ تم میرے کمرے میں داخل ہی کیوں ہوئے ۔۔۔" میں نےمحسوس کیا کہ اس کے لہجہ میں شکایت بھی ہے اور غصہ بھی میں نے کہا" میں ابھی آیا ہوں ۔۔۔۔لیکن تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کو پہلی رات کی دلہن کس نے بنایا تھا ۔۔۔ ذرا آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر مجھے بتاؤ کہ کیا یہ اسی ونود کی بیوی شانتا کا چہرہ ہے جس کو پولیس ایک قتل کے الزام میں آج ہی گرفتار کر کے لے گئی ہے اور جو صبح میری موجودگی میں غم سے بالکل پاگل نظر آرہی تھی ۔"
میرا جملہ سن کر شانتا نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ، اپنی کلائیوں کی چوڑیاں دیکھیں اپنے جسم پر لپٹی ہوئی ساڑی دیکھی اپنا اترا ہوا بلاؤز دیکھا اور پھر جیسے اسے کچھ یادآگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دوڑ کر میری چھاتی سے چمٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
میں یقیناً اس صورتِ حال کے لیے بالکل تیار نہیں تھا ۔۔
شانتا نیم عریاں حالت میں تھی اور میری چھاتی سے لگی دونوں ہاتھوں سے مجھے جکڑے ہوئے روئے جارہی تھی اور جیسے میرے کانوں میں شاتو کے وہ الفاظ گونج رہے تھے جو وہ ابھی چند منٹ قبل مجھ سے کہہ کر غائب ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
میں سچ کہتا ہوں شدتِ جذبات سے میں کانپنے لگا ۔۔
شانتا میرے سینے سے اس طرح چمٹی ہوئی تھی جیسے ندی کی چھاتی سے کنول چمٹا ہوتا ہے میں نے ایک لمحہ کے لیے اس کے آنسوؤں سے تر چہرے پر گناہ ڈالی اور پھر ایسا محسوس کیا جیسے وہ شفق سے زیادہ رنگین ہو، گلاب کے پھولوں سے زیادہ معطر ہوا اور جیسے وہ رو نہ رہی ہو ، فضا میں نغمے بکھیر رہی ہو ۔
وہ میرے سینے سے چمٹی ہوئی تھی اور میرے چاروں طرف رات کی گناہ آلود تاریکی پھیل ہوئی تھی ۔ خاموش تاریکی بھیانک تاریکی جذبات سے پھر پور تاریکی ۔۔ اور بتدریج میری یہ حالت ہوتی جارہی تھی جیسے میں ماضی کو بھول چکا ہوں اور مستقبل کی حدود کو مٹا چکا ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم اس وقت شانتا کی کیا حالت تھی میں صرف اپنے بارے میں جانتا ہوں کہ میرے جذبات میں ندی کی طرح سیلاب آچکا تھا اور سیلاب کی یہ صفت ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چٹانیں بھی اس کا راستہ نہیں روک پاتیں ۔۔
میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سا شانتا کا آنسوؤں سے لبریز چہرہ اٹھایا ۔۔ جو اب برف کی طرح سفید ہوچکا تھا ۔۔۔ اس کی لمبی پلکوں پر اس وقت بھی آنسواس طرح کانپ رہے تھے جیسے گلاب کی نازک پنکھڑیوں پر شبنم کی قطرے طلوع آفتاب پر کانپنے لگتے ہیں یقیناً بدلتا جا رہا تھا ۔۔۔
مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کسی محل کی محراب کی نیچے اپنی محبوبہ کو گلے سے لگائے کھڑا ہوں اور تمناؤں کا ہجوم مجھ پر اپنی محبوبہ کو گلے لگائے کھڑا ہوں اور تمناؤں کا ہجوم مجھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا جا رہا ہے ۔
اب میں نے شانتا کے وجود پر ایک گہری نظر ڈالی ۔۔۔ اور ایسا محسوس کیا جیسے اس کی آنکھوں میں ایک نشہ سا انگڑائیاں لے رہا ہے ۔ اس کی نرم و گداز جسم سے اس کی ساڑی کچھ اس انداز میں سرک گئی تھی جیسے بادلوں کی جھرمٹ سے چاند نکل آیا ہو۔
مجھے شانتا کے وجود میں اپنی زندگی کا ماضی سمٹا ہو انظر آیا ۔ اور میری دیرینہ آرزوئیں میرے دل میں الاؤ کی طرح سلگنے لگیں اور پھر جیسے میرا جسم اس آگ میں جھلسنے لگا ۔ شانتا پر میری گرفت سخت ہونے لگی میں نے اس عورت نہیں ریشم کا ڈھیر سمجھ لیا ۔
میں گناہ کی طرف بڑھتا ہی چلا گیا ۔
یقیناً میں شاتو کے سحر میں مبتلا ہوگیا تھا ۔ لیکن بالکل اچانک جیسے طوفان سے باہر باہر نکل آیا ۔ میں نے شانتا کو دھکا دے کر دور کردیا ۔۔۔ اور کمرے کی تنہائی چیخنے لگی ۔
میں نےشانتا سے کہا تم اپنے ہوش میں ہو یا نہیں ۔"
لیکن اس مرتبہ بھی شانتا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ میری طرف بالکل اسی انداز میں دیکھنے لگی جیسے سورج مکھی کا پھول سورج کو دیکھتا ہے ۔۔۔ بڑا درد تھا ان کی آنکھوں میں ۔ میں نے اس ے دوبارہ کہا "یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے شانتا تم بولتی کیوں نہیں ۔۔"
لیکن شانتا پھر بھی خاموش رہی ۔۔۔
اب میری قوتِ براداشت نے جواب دے دیا ۔۔میں دونوں ہاتھوں سے اس کو پکڑ جھنجھوڑنے لگا اور کمرے کی خاموشیوں میں میری آواز گونجنے لگی "شانتا ... شانتا ۔۔ شانتا ۔"
ابھی چند لمحات قبل میرے کمرے میں طوفان آیا تھا وہ ختم ہوچکا تھا لیکن ابھی بھی اس طوفان کے اثرات باقی تھے ۔ اب میں جاگ رہا تھا اور میرے ہوش واپس آچکے تھے ۔ لیکن شانتا اب بھی مدہوش تھی ۔۔۔ اس کے تیور اب بھی بدلے ہوئے تھے اب بھی اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک غیر مرد کے سامنے نیم عریاں حالت میں کھڑی ہوئی ہے۔
مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ میں گناہ کی وادی میں گرتے گرتے رہ گیا تھا اور شاتوکو شکست ہوگئی تھی ۔ لیکن اب مجھے یہ الجھن ہورہی تھی کہ شانتا پر کون سی کیفیت طاری ہے ؟ آخر اس کو ہو کیا گیا ہے ؟ اور پھر اچانک مجھے دھوئیں سے بنا ہوا وہ وجود یاد آگیا جو نیم عریاں شانتا پر جھکا ہوا تھا اور جو میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی فضاء میں تحلیل ہوگیا تھا ۔۔۔
یہاں میں اس بارے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گز ہرگز ڈرپوک نہیں ہوں ۔ میں اب تک بھوت پریت اور ارواح خبیثہ کا قائل ہی نہیں تھا اس لیے ان سے ڈرتا بھی نہیں تھا ۔ لیکن صرف ایک دن کے اندر اس آسیب زدہ حویلی میں جو کچھ مجھے نظر آیا اس میں نہ صرف مجھے بھوت پریت کا قائل بنا دیا تھا بلکہ مجھے ڈرا بھی دیا تھا ۔
شانتا اب بھی میری طرف مسلسل دیکھے جارہی تھی ۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں ڈر گیا ۔۔ اب مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ کمرے میں میرے اور شانتا کے علاوہ بھی کوئی موجود ہے ۔ میں نے گردن گھما کر چارون طرف دیکھا اور پھر خود بخود میری پیشانی عرق آلود ہوگئی ۔ میں پسینے میں نہا گیا ۔۔ میرے اعصاب اور میرے ذہن کا رشتہ ٹوٹنے لگا ۔۔
لیکن ابھی میری ہمتو ں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا تھا ۔۔ میں چلایا "اس کے کمرے میں کون ہے ۔" مجھے کوئی جواب نہیں ملا ۔۔ میں دوبارہ چلایا " شاتو ۔۔۔ شاتو ۔۔۔ کیا تم یہاں موجود ہو ۔۔۔ اور اس مرتبہ بھی میری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔۔ مجھے کوئی جواب نہیں ملا ۔
شانتا اب بھی میری طرف درد بھری نظرو ں سے دیکھ رہی تھی میں گھبرا کر کمرے سے باہر نکلا اور تقریبا ً دوڑتا ہوا ہوا پورٹیکو تک آیا ۔ میں دراصل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ شاتو کا بت اپنی جگہ پر ہے یا نہیں ؟
لیکن چبوترہ خالی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا شاتو بھی بت میں تبدیل نہیں ہوئی تھی ۔۔ وہ یہ سارا تماشہ دیکھنے کے لیے میرے قریب ہی موجود تھی ۔ میں دوبارہ شانتا کے کمرے کی طرف مڑا ۔۔لیکن اچانک ایک آواز سن کر میرے قدم زمین جم گئے ۔ یہ آواز شاتو کی تھی ۔۔۔
شاتو نے کہا "تم نے مجھے پکارا تھا ۔ لیکن میں شانتا کے کمرے میں موجود نہیں تھی ۔ کیوں کہ میں اس کمرے میں داخل ہی نہیں ہوسکتی تھی ۔ ۔ میں باہر سے تمہارا تماشہ دیکھ رہی تھی ۔"
"مجھے یہ بتاؤ کہ شانتا کے جسم پر کون جھکا ہوا تھا ۔۔"
میں نے پوچھا ۔۔
"میری طرح ایک روح ہے ۔۔" شاتو نے جواب دیا " جو بھٹک رہی ہے۔"
"یہ کس کی روح ہے ۔" میں نے سوال کیا "یہ روح شانتا سے کیا چاہتی ہے ؟"
"یہ سب تم اپنی شانتا ہی سے پوچھنا "شاتو نے طنزیہ لہجے میں کہا "میں صرف اتنا بتا دینا چاہتی ہوں کہ یہ روح اب بھی شانتا کے کمرے میں موجود ہے اور اس وقت بھی موجود تھی جب تم اس کو اپنے گلے سے لگائے ہوئے تھے "
"شاتو ۔۔۔" اچانک میں نے نرم لہجے میں کہا "میں تمہاری مددچاہتاہوں ۔"
"لیکن میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی "شاتو نے جواب دیا "تم جب تک ونود کے دوست رہو گے ، تم جب تک ان دونوں کی مدد کرتے رہو گے میں تمہیں کوئی مدد نہیں دے سکتی بلکہ میں تمہیں پریشان کروں گی اور اتنا پریشان کروں گی کہ تم خود ہی اس حویلی سے بھاگ کھڑے ہوگے ۔
"اچھا کم از کم یہ تو بتا دو کہ شانتا اپنا ماضی اور حال کیوں بھول گئی ہے "میں نے شانتا سے پوچھا
لیکن شاتو نے میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ۔۔ جواب کے بجائے فضا میں ایک قہقہہ سا گونجا اور پھر ماحول پر دوبارہ خاموشی چھا گئی ۔
میں نے پلٹ کو چبوترے کی طرف دیکھا تو بت واپس آچکا تھا ۔
اندھرے میں بت کو اس طرح واپس ہوتے دیکھ کر ایک مرتبہ میں پھر لرز گیا ۔ اور میرا جسم پسینے میں نہا گیا ۔
اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ میں دوبارہ شانتا کے کمرے میں جاؤں اور اس کے ہوش واپس لانے کے بعد خود اس سے پوچھوں کہ اس پر کیا گزری تھی ۔ چنانچہ بہت آہستہ اور مردہ قدموں کے ساتھ میں شانتا کے کمرے کی طرف مڑا ۔ برآمدے میں اب بھی کالکا بے ہوش پڑا تھا ۔ وفا دار اور بوڑھے ملازم کو اس عالم میں دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
میں شانتا کے کمرے میں داخل وا تو شانتا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ۔ اس کی آنکھیں اب بھی کھلی ہوئی تھیں ۔ اب وہ چھت کی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔ اس کے جسم کا بالائی حصہ اب بھی عریاں تھا ۔۔
تھکے تھکے قدموں کے ساتھ میں اس کے پلنگ کے نزدیک آیا ۔ اور آہستہ سے اس کو پکارا لیکن شانتا کے کانوں تک جیسے میری آواز پہنچی ہی نہیں ۔۔ وہ اسی طرح چھت کی جانب دیکھتی رہی شاید اس پر سکتہ طاری تھا۔
اب میں نے ہاتھ بڑھا کر شانتا کی ساڑی کا پلو اٹھایا اور اس پلو سے اس کے جسم کے عریاں حصے کو ڈھانکنا چاہا لیکن دوسرے ہی لمحے جیسے میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے ۔۔۔ کسی اَن دیکھے ہاتھ نے میرے گال پر اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ میرا سارا جسم ہل کر رہ گیا اور میرے ہاتھ سے ساڑی کا پلو گر گیا ۔
میں اس چوٹ سے سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا کہ میرے گال پر ایک دوسرا تھپڑ پڑا اور پھر تو جیسے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش سی شروع ہوگئی ۔۔۔ میں ذبح ہوتے ہوئے بکرے کی طرح چیختا رہا اور نہ دکھائی دینے والا وجود جو مجھ کو بری طرح مارتا رہا حد یہ کہ میں زمین پر گر گیا ۔۔۔
شانتا اب بھی چھت کی طرف دیکھے جارہی تھی ۔۔۔

اس رات مجھ پر کیا گزری ؟
مجھے کس نے مارا تھا ؟
شانتا کے ہوش واپس آئے یا نہیں ؟
اس آسیب زدہ حویلی پر بعد میں کیا گزری ؟
یہ سب جاننے کے لیے اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:18

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں