جگن کے احتجاج کے جوش و خروش کو ماند کرنے سازش - وائی ایس آر کانگریس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-03

جگن کے احتجاج کے جوش و خروش کو ماند کرنے سازش - وائی ایس آر کانگریس

وائی ایس آر کانگریس نے کا نگریس پارٹی پر رائیلا۔ تلنگانہ مسئلہ کوہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے آج اسے سازش قرار دیا ، تاکہ سمیکھیہ آندھرااحتجاج کو ناکام بنایا جاسکے ۔ پارٹی کے ایوان میں نائب قائد شو بھا نا ریڈی نے یہاں صحافیوں کو بتایا کہ کانگریس کی جانب سے وائی ایس جگن موہن ریڈی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت میں رکاوٹ پیدا کرنے کانگریس کی یہ کمزور کوشش ہے ۔ رائل تلنگانہ مسئلہ کو اٹھانے کا مقصد سمکیھیہ آندھرا احتجاج کو کمزور کرنا ہے ، کیوں کہ کانگریس اور ٹی ڈی پی دونوں متحدہ طور پر جگن کا سیاسی سامنا نہیں کرسکتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ یہ سازش کامیاب نہیں ہوگی ، کیوں کہ عوام پھوٹ ڈالو اور تقسیم کرو کے مشکوک منصوبوں کو بھانپ سکتے ہیں ۔رائلسیما کے عوام میں پھوت ڈالتے ہوئے اور اعداد کی رائے واقفیت ضاصل نہیں کی گئی ۔ انہوں نے بتایا کہ شخصی فوائد کے لیے بعض قائدین اس نظریہ کی تشہیر کرسکتے ہیں ، لیکن عوام کی بڑی تعدادکے مفادات کو نظر انداز کیا گیا ہے ، جب کہ کوئلہ سوریاپرکاش ریڈی وٹی ڈی وینکٹیشن اور جے اے سی دیوا کر ریڈی جیسے 3قائدین رائلسیما کے سارے عوام کی آواز نہیں بن سکتے ہیں ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ۔انہوں نے بتایاکہ ایک مسئلہ کی یکسوئی کے بجائے مرکز مزید مسائل پیداکرتے ہوئے اسے پیچیدہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔انہوں نے بتای اکہ مرکز کو رائلسیما کی تقسیم کا کوئی حق حاصل نہیں ۔کسی نے بھی اس کا مطالبہ نہیں کیا ہے اور اس قسم کے بے معنی تقسیم کے لیے بھی کوئی مطالبہ موجود نہیں ۔ کانگریس ریاست کی تقسیم کی بنیادوں کی صراحت سے قاصر ہے ۔ اگر اس کی وجہ پسماندگی ہوتو رائلسیما زیادہ پسماندہ علاقہ ہے ۔ اگر جذبات وجہ ہوں تو ایسے جذبات متحدہ ریاست کی تائید میں شدت کے ساتھ موجود ہیں ۔ سری کرشنا کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر بتایاہے کہ رائلسیما تلنگانہ سے زیادہ پسماندہ ہے ۔ اگر دونوں اضلاع کو علیحدہ کرتے ہوئے نئی ریاست میں ضم کرلیا جائے تو اننت پوراور کرنول عوام غریب چچازاد بھائیوں جیسے ہوں گے ۔ یہ بات ناقابل قبول ہے اور اگر مرکزی کابینہ چند پنچایتوں کی تحلیل کا فیصلہ کرے تو ضروری نہیں کہ یہ تاثر تمام علاقہ کے عوام کاہو۔ انہوں نے بتایا کہاگر دویاتین کانگریس قائدین رائل تلنگانہ کے مسئلہ کو اٹھائیں تو اس کا مقصد صرف ان کے موقف کا تحفظ ہے ، جب کہ رائلسیما میں وائی ایس آرسی پی لہر زور وشور کے ساتھ چل رہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تجویز سب کے لیے قابل قبول ہے ۔ ٹی آر ایس ،ٹی جے اے سی اور تلنگانہ کانگریسی قائدین کرنول اور اننت پور جیسے اضلاع کے انضمام کے لیے تیار نہیں ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ غیر معقولیت پسندانہ ہے اور رائلسیما دوحصوں میں تقسیم کی صورت میں اپنی شناخت سے محروم ہوجائے گا ۔ مرکزی وزارء اور اس علاقہ کے کانگریسی قائدین جداگانہ بولیاں بول رہے ہیں ،جن سے سونیا گاندھی کو تقسیم کی کاروائی میں پیشترفت کی گنجائش فراہم ہوئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ تلنگانہ علاقہ کے سیاسی قائدین پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوتے ہوئے بے لگام ہیں اور ایک ہی آواز میں بول رہے ہیں ۔ جب کہ سیما آندھرا قائدین ،عدم اتحاد اور کمزوری کی باتیں کررہے ہیں ۔ کانگریس قائدین نے مختلف بیانات جاری کیے ہیں ، جس کے نتیجہ میں ریاست کی تقسیم کے لیے ہائی کمان کے ارادہ کو تقویت پہنچی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست جس کے 42ارکان پارلیمنت ہیں ،ہم ہائی کمان کے رحم وکرم پر اپنے کام نہیں کرواسکتے ہیں ۔اس کے برخلاف پڑوسی ریاست ٹاملناڈو میں اگر چہ سیاسی اختلافات موجود ہیں ،تاہم وہ مرکز سے پراجکٹس اور فنڈ کے حصول کے لیے متحد جدوجہد کرے گی ۔ تمام جماعتوں کو ریاست کے اتحاد کے لیے وائی ایس جگن موہن ریڈی کی جدوجہد میں متحد ہوجانا چاہیے ۔ انہوں نے بتایا کہ وائی ایس جگن موہن ریڈی نے قبل ازیں یہ کہا تھا کہ وہ ریاست کے لیے احتجاج کرنے والے کسی بھی فرد کے ساتھ کام کریں گے ۔ درایں اثناء یہاں ایک علیحدہ پریس کانفرنس میں پارٹی کے ترمجمان ایس راماچندرارؤ نے ان کے بارے میں تی ڈی پی قائدین کے سخت گیر ریما رکس پر تنقید کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم میڈیا سے بات چیت کیدوران شخصیت پر تبصرہ نہیں کرتے ہیں ، ہمارے اختلافات سیاسی ہیں اور نظریات پر مبنی ہیں ۔ ٹی ڈی پی کے صدر این چندرابابو نائیڈو اور کرشنا کے پانی سے کمترا استفادہ میں ان کے رول پر ان کے بیان کی مذمت کرسکتے ہیں،لیکن شخصیتوں کو نشانہ بنانا اور بہت ہی گھٹیا سطح تک اترنا آناجمہوری طرز عمل نہیں ۔ انہوں نے بتایا کہوہ اپنے موقف پر اٹل ہیں اور اس بات کا اعادہ کریں گے کہ چند رابابونائیڈو آبی بحران اور برجیش کمار ٹریبونل کے فیصلہ کے ذمہ دار ہیں ، کیوں کہ انہوں نے اپنے چیف منسٹری کے دور میں کسی بھی آب پاشی پراجکٹ پر عمل آوری نہیں کی تھی ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں