پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل پیش کئے جانے کا امکان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-03

پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل پیش کئے جانے کا امکان

Anti-communal-violence-Bill
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں،امکان ہے کہ انسدادفرقہ وارانہ تشددبل پیش کیاجائے گا۔(پارلیمنٹ کااجلاس جمعرات5دسمبرسے شروع ہورہاہے)۔اس(متنازعہ)بل کامقصد،اقلیتوں کونشان کردہ حملوں سے محفوظ رکھناہے۔وزارت داخلہ کے عہدیداروں نے کہاکہ انسدادفرقہ وارانہ ونشان کردہ تشددبل کو پیش کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔گذشتہ برسوں سے یہ بل،تنقیدکانشانہ بنارہاہے۔اس بل کامسودہ بڑی حدتک"انسدادفرقہ وارانہ ونشان کردہ تشدد"بل2011(دادرسی ومعاوضہ)کی دفعات کے مماثل ہے۔یہ بل،سونیاگاندھی کی زیرصدارت قومی مشاورتی کونسل(این اے سی)نے تیارکیاہے۔اس بل میں تجویزپیش کی گئی ہے کہ نشان کردہ تشددبشمول مذہبی یالسانی اقلیتوں،درج فہرست اقوام اوردرج فہرست قبائل کے خلاف اجتماعی تشددکوروکنے اختیارات کے غیرجانبدارانہ اوربعیدازامتیازطریقہ سے استعمال کے لئے مرکزاورریاستی حکومتوں ونیزان کے عہدیداروں پر فرائض عائدکئے جائیں۔اس بل میں مرکزکی جانب سے ایک ادارہ بنام قومی اتھاریٹی برائے فرقہ وارانہ ہم آہنگی،انصاف اورازالہ نقصانات کے قیام کی بھی گنجائش ہے تاکہ یہ ادارہ،قانون کے تحت اس کے حوالہ کردہ اختیارات کو استعمال اورفرائض کوانجام دے سکے۔اس نوعیت کی"نگراں باڈی"کے قیام پر بعض ریاستی حکومتوں کوشدید اعتراضات ہیں۔خودمرکزی وزارت قانون کے عہدیداروں نے بھی بل کے مسودہ کے مسودہ کے بعض فقرہ جات پرمبینہ طورپراعتراض کیاہے۔مثلا،ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ فرقہ وارانہ تشددپھوٹ پڑنے کی صورت میں بیوروکریٹس پرذمہ داری عائدکی جائے۔عہدیداروں کاکہناہے کہ ایسے فقروں سے معمول کے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹیں پیداہوں گی۔تبایاجاتاہے کہ وزارت قانون نے ریاستی حکومتوں کوحاصل اختیارات میں کسی کمی کے بغیر مذکورہ بل کی دفعات کومزیدمستحکم کرنے کی حمایت کی ہے۔بی جے پی نے مجوزہ قانون سازی کی،سخت مخالفت کی ہے اور اس بل کو"خطرناک اورمخالف اکثریت قراردیاہے"اورکہاکہ اس بل سے دستورکے وفاقی ڈھانچہ کونقصان پہنچے گا۔یہ بھی اعتراض کیاگیاہے کہ اس بل کے ذریعہ یہ کیسے فرض کیاجاسکتاہے کہ فسادات کے لئے ہمیشہ ہی اکثریتی فرقہ ذمہ دارہے۔بعض ریاستوں نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے کیونکہ فرقہ وارانہ گڑبڑکی صورت میں،اس بل میں مرکزی حکومت کویکطرفہ طورپرنیم فوجی فورسس بھیجنے کااختیاردینے کی گنجائش فراہم کی گئی ۔مجوزہ قانون سازی کے ذریعہ مقدمات کو،متعلقہ ریاست کے باہر منتقل کرنے کی بھی گنجائش فراہم کی گئی ہے تاکہ گواہوں کا تحفظ کاجائے۔خبررساں ایجنسی آئی اے این ایس کے مطابق چیف منسٹر ٹاملناڈو جے جیہ للیتانے آج انسدادفرقہ وارانہ تشددبل2013کی سخت مخالفت کی اورکہاکہ اس کی وجہ سے ریاستوں کی اتھاریٹی پامال ہوگی۔انھوں نے مرکزی حکومت سے کہاکہ وہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران یہ بل پیش نہ کریں۔وزیراعظم منموہن سنگھ کوموسومہ ایک مکتوب میں جس کامتن یہاں میڈیاکے لیے جاری کیاگیا،جیہ للیتانے کہاکہ میں حکومت ٹاملناڈو کی جانب سے اس بات پرزوردیتے ہوئے اسے دہراناچاہوں گی کہ میں اس بل کی سخت مخالف ہوں جس کی وجہ سے ریاستوں کی اتھاریٹی پامال ہوجائے گی۔انھوں نے کہاکہ موجودہ لوک سبھاکی میعاد ختم ہونے صرف5ماہ باقی رہ گئے ہیں جس کے بعدانتخابات کااعلان کردیاجائے گا۔ایسی قانون سازی پرتمام سیاسی جماعتوں اورفریقین سے وسیع ترمشاورت کی ضرورت ہے اسے جلدبازی میں پیش کرنا غیرجمہوری اقدام ہوگا۔یواین آئی کے بموجب جیہ للیتانے کہاکہ وہ اس بات سے وقف ہیں کہ ہندوستان کے چندعلاقوں(ٹاملناڈومیں نہیں)میں حالیہ تشددکی وجہ سے بعض گوشوں سے ایساقانون وضع کرنے پرزوردیاجارہاہے،لیکن یہ جوبل تیارکیاگیاہے اس میں کئی خامیاں ہیں اوریہ فرقہ وارانہ تشددکی روک تھام کے مقاصدکی تکمیل نہیں کرے گا۔لہذااس بل کوہر مرض کی دوسمجھ لیناغلط ہوگاکیونکہ اس پرمرکزاورریاستوں کاحساس تعاون درکارہے۔

Anti-communal violence Bill caught in political battle ahead of Parliament's winter session

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں