آنجہانی بلراج کومل 25/ ستمبر 1928 کو سیالکوٹ (پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم وطن کے بعد انہوں نے دہلی کو اپنی رہائش گاہ بنایا اور اپنے علم ، محنت ، سچی لگن ، انکساری اور نرم گفتاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔
ان کے انتقال کی خبر ملتے ہی اردو شعر و ادب کی دنیا میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ اس سلسلے میں اردو اکیڈمی دہلی میں ایک تعزیتی میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں اکیڈمی سکریٹری انیس اعظمی کے علاوہ دیگر ذمہ داران و عہدیداران اور کئی علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ بلراج کومل کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اکیڈمی کے سکریٹری انیس اعظمی نے کہا کہ انجہانی بلراج کومل کا اکادمی سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ وہ بارہا اکادمی کی گورننگ کونسل کے رکن نامزد ہوئے۔ چونکہ ان کا تعلق ادب کے علاوہ محکمہ تعلیم سے بھی تھا اور دہلی کے تعلیمی اداروں سے ان کی گہری وابستگی تھی اس لیے تعلیم سے متعلق اکادمی کے منصوبوں کو کارگر بنانے میں انہوں نے جو گرانقدر مشورے دیے ان سے اکادمی آج تک فیضیاب ہو رہی ہے۔
بلراج کومل کا ادبی سفر تقسیم وطن کے ناگفتہ بہ حالات میں شروع ہوا۔ اردو ادب کے تئیں ان کے سنجیدہ رویہ کی وجہ سے ہی ان کا شمار صف اول کے ادیبوں میں ہوتا تھا۔ بلراج کومل کو ہندوستان کی سب سے اعلیٰ اور موقر ادبی تنظیم ساہتیہ اکادمی نے ان کے شعری مجموعے "پرندوں بھرا آسمان" کو 1985 میں ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 2011 میں انہیں حکومت ہند کی جانب سے پدم شری کا خطاب بھی ملا تھا۔ ان کی تصنیفات میں میری نظمیں ، رشتۂ دل ، اگلا ورق ، آنکھیں اور پاؤں (کہانیوں کا مجموعہ) اور ادب کی تلاش (تنقید) شامل ہیں۔ وہ ایک معروف مترجم بھی تھے۔ انہوں نے انگریزی ، ہندی ، اردو اور پنجابی کی تخلیقات ایک دوسری زبانوں میں منتقل کیے ہیں۔
ذیل میں بلراج کومل کی مشہور نظم "اکیلی" ملاحظہ فرمائیں۔
یہ نظم 1948 کی ہے جس نے بلراج کومل کا نام موقر ادیبوں اور شاعروں میں شامل کروایا۔ اس کی آفاقیت آج بھی قائم و دائم ہے۔
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں
میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے ، میرے ابا کے ، آپا کے
اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خون سے
ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں
چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول
میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں
اک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو !!
Urdu poet writer Balraj Komal passed away
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں