12/نومبر گرگاوں پی۔ٹی۔آئی
ہندوستان نے آج پاکستان سے کہا ہے کہ بامقصدبات چیت کیلئے اس کے جذبات اور حساسیت کا احترام کیاجانا چاہےئے۔اس کے علاوہ پاکستانی وزیراعظم کے مشیر خارجہ اورکشمیری علحدگی پسندقائدین کے درمیان ملاقات پرناراضگی کااظہار کیاگیااورخط قبضہ پرجنگ بندی کی خلاف وزریوں کو نقصان دہ قراردیاگیا۔وزیرخارجہ سلمان خورشید اور پاکستان کے وزیراعظم کے مشیرخارجہ سرتاج عزیز کے درمیان گیارہویں ایشیا وزارئے خارجہ کے موقع پر30منٹ کی ملاقات کے دوران دونوں وزراء نے اس بات پرزوردیاکہ ڈائرکٹرس ملٹری آپریشنس جلدملاقات کریں اور لائن آف کنٹرول پرامن وہم آہنگی کی بحالی کی راہوں پر غورکریں۔ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے تقریبا6ہفتہ پہلے نیویارک میں ڈائرکٹرس جنرلس آف ملٹری آپریشنس کی میٹنگ کا فیصلہ کیاتھا لیکن اس کے باوجود اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ہندوستان نے پاکستان پراس بات کیلئے بھی زوردیا کہ ممبئی دہشت گردحملوں کا مقدمہ تیزکیاجائے۔ملاقات سے پہلے سلمان خورشید نے کہاکہ حالیہ عرصہ میں بعض واقعات پیش آئے ہیں جنہیں حکومت اورہندوستان میں کسی نے حوصلہ افزارنہیں سمجھا۔ان کا اشارہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں طرف تھاجس میں کئی ہندوستانی سپاہی ہلاک ہوئے۔قبل ازیں ویرخارجہ سلمان خورشیدنے جو آسیم وزراء کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم کے خارجہ امور کے مشیرتاج عزیزکے ساتھ باہمی ملاقات کی تھی،کہاکہ حالیہ وقتوں میں پیش آنے والے واقعات کوہندوستان میں حکومت یاکوئی بھی حوصلہ افزاء واقعات کے طور نہیں دیکھ رہاہے۔خط قبضہ پرجنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا بظاہر حوالہ دیتے ہوئے جس میں کئی ہندوستانی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں،انہوں نے کہاکہ میں سمجھتاہوں کہ یہ واقعات جوابی کاروائی کے لیے اکسانے والے ہیں اور میں یہ تصورنہیں کرسکتاکہ آیا ایسی ہی صورت حال کو پہنچے کی خواہش میں کوئی سنجیدگی ہے جس میں ایک بامعنی مذاکرات عمل میں آسکتے ہیں۔مذاکرات کا نتیجہ جوکچھ بھی نکلے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بامعنی مذاکرات عمل میں آنے چاہئے ۔اس کے لیے دوستانہ حالات تخلیق کئے جانے چاہئے اوردونوں فریق کی جانب سے ایسا کرنا چاہئے۔یہ صرف ایک فریق کی جانب سے نہیں ہوسکتا۔ان واقعات میں سے چندجوابی کاروائی کیلئے اکسانے والے اور بدبختانہ تھے۔خورشیدنے نامہ نگاروں سے یہ بات کہی۔11ویں آسیم وزرائے خارجہ کے اجلاس کے لیے آمد کے فوری بعد حریت اوردیگر علحدگی پسند قائدین کے ساتھ سرتاج عزیز کی ملاقات کے تعلق سے پوچھنے پرخورشید نے آج کہا" میں یہ کہہ سکتاہوں کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جوکچھ ہم کہہ رہے ہیں اور کوکچھ ہم کررہے ہیں اس پرچوکسی کے ساتھ نظررکھناہوگا۔میں سرحدپارہمارے انتہائی سینئررفقاء کوکوئی مشورہ دینانہیں چاہتالیکن پائیدارامن کے لیے ہندوستان کے ساتھ ایک بامعنی مذاکرات عمل میں آئیں تو یہ ضروری ہے کہ ہندوستان کے نقطہ نظر،اس کے جذبات اور ہمارے ملک کے حساسیت کااحترام کیاجائے کیوں کہ یہ مذاکرات یکاوتنہا طور عمل میں آنے والے نہیں ہیں۔یہ ایسے مذاکرات سیاق وسباق پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ ایسے مذاکرات ہیں جس کو عوام کی تائیدکی ضرورت ہے اورہم سوچتے ہیں کہ ہم کو پاکستانی حکومت کی مدد کے لیے ایک عظیم سمجھوتہ کرناہوگاتاکہ عوام کی تائید حاصل ہوسکے۔اس کے لیے ہندوستان کے ساتھ ایک منصفانہ اور شفاف مذاکرات کی ضرورت ہے۔ایک تنازعہ پیدا کرتے ہوئے عزیزنے آسیم وزراء کے اجلاس کے لیے اپنی آمدکے فوری بعد اتوار کو حریت کانفریس کے مختلف علحدگی پسند گروپوں کے قائدین کے ساتھ ملاقات کی تھی جس کو حکومت کی جانب سے انتہائی بدبختانہ اور طرفداری کے لیے ایک بین قومی فورم کے بیجااستعمال کے طور پردیکھاگیاہے۔Events from Pak side not conducive for meaningful talk: Khurshid
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں