18/نومبر نئی دہلی یو۔این۔آئی
اس الزام اوراعتراف کے ساتھ کہ بی جے پی اورہندوستانی مسلمانوں کے درمیان دوری میں نام نہادسیکولرسٹوں کی پروپیگنڈہ مہم کے ساتھ ساتھ پارٹی کی اپنی کمیوں کابھی عمل دخل ہے،بی جے پی کے سابق صدرنتن گڈکری نے آج کہاکہ اس ناموافق منظرکوبدلنے کے لئے دونوں طرف سے پیش قدمی کی ضرورت ہے۔گڈکری نے یہاں اردواخبارنویسوں سے ظہرانہ پرایک ملاقات میں کانگریس پرملٹی کمیونل پارٹی ہونے کاالزام لگاتے ہوئے دعوی کیاکہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی،اقتصادی اور معاشرتی خستہ حالی کی دہائیوں سے ذمہ داراس پارٹی نے مسلمانوں کو بی جے پی اورآرایس ایس کا خوف دلاکرووٹ بینک کی سیاست کرنے کابازارگرم کررکھاہے۔انہوں نے بی جے پی،نریندرمودی اورمسلمانوں کے تعلق سے ایک سے زیادہ سوالوں کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اس صورت حال کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔بصورت دیگر ملک میں خوف اوربدعنوانی کی سیاست اسی طرح جاری رہے گی۔بی جے پی لیڈرنے کہاکہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی پارٹی کی دوری میں85فیصد دخل الزامات کاہے اور15فیصد الزامات کو عملاغلط ثابت کرنے کی پارٹی کی کوششوں میں کمی کی وجہ سے اس دوری نے طول پکڑاہے۔باوجودیہ کہ مدھیہ پردیش اورراجستھان کے مسلمانوں کے ساتھ بی جے پی کے تعلقات بہترہیں اور واضح مسلم اکثریت بی جے پی کے ساتھ ہے۔یہ الزام لگاتے ہوئے کہ بی جے پی اورآر ایس ایس کے تعلق سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کانگریس نے کوئی کسرنہیں چھوڑی۔گڈکری نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی آئی ایس آئی ہندوستان میں فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن اس کیلئے ہندوستانی مسلمان کسی بھی طرح ذمہ دار نہیں لیکن فرقہ وارانہ فسادات کی حوالہ سے انہیں بی جے پی اور آرایس ایس سے خوف زدہ کرکے ووٹ بینک کی سیاست کرنے والی نام نہاد سیکولر پارٹیاں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔انہوں نے میڈیا کے ایک حلقے کوبھی اس صورتحال کے لئے ذمہ دار ٹھہرایااورکہاکہ بعض واقعات کی یکطرفہ خبرنگاری کرکے بی جے پی کو مسلمانوں کے سامنے ویلن بناکرپیش کرنے میں خاص طورپرانگریزی کے بعض اخبارات کاخاصہ دخل رہاہے ۔یہ پوچھے جانے پر کہ فرقہ وارانہ تشددپرعملاقابوپانے کے لئے وہ مقامی انتظامیہ کوذمہ دار ٹھہرانے سے اتفاق کرتے ہیں توانہوں نے اس کاجواب اثبات میں دیا۔Muslims away from the BJP -Nitin Gadkari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں