10/ستمبر مظفر نگر/لکھنؤ پی۔ٹی۔آئی
اترپردیش کے گڑبڑ زدہ مظفر نگر کے تین علاقوں میں آج کرفیو میں زائد از دو گھنٹوں کی نرمی دی گئی ہے جبکہ ضلع اور متصل شہروں میں جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 41ہوگئی ہے۔ تازہ تشدد کی کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں جسکی وجہ سے کوتوالی سیول لائنس اور نئی نندی علاقوں میں دن کے ساڑھے تین بجے سے ڈھائی گھنٹوں کیلئے کرفیو میں نرمی دی گئی۔ ضلع مجسٹریٹ کشال راج شرما نے یہ بات بتائی۔ اسی دوران وزیراعظم منموہن سنگھ نے تشدد میں ہلاک ہونے والوں کے ورثاء کو فی کس دولاکھ روپیئے اور شدید زخمیوں کو50ہزار روپیہ معاوضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ سنگھ نے چیف منسٹر اترپردیش اکھلیش یادو سے پیر کو بات چیت کی تھی اور بے قصور افراد کی جانیں ضائع ہونے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال پر قابو پانے ریاست کو مرکز سے تمام درکار مدد فراہم کرنے کا یقین دلایاتھا۔ ریاستی حکومت نے تشدد کے اسباب کا پتہ چلانے ریٹائرڈ جسٹس وشنو سہائے پر مشتمل ایک رکنی عدالتی کمیشن قائم کیا ہے اور اندرون دو ماہ رپورٹ پیش کرنے کیلئے کہا۔ چیف منسٹر کو فساد میں سیاسی سازش کا شبہ ہے۔ ضلع مجسٹریٹ مظفر نگر کوشل راج شرما نے بتایاکہ ضلع اور اس کے اطراف کے دیہی علاقوں میں کہیں سے تازہ تشدد کی کوئی اطلاع نہیں۔ اکھلیش یادو نے ریاستی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد صحافیوں سے یہ بات کہی۔ کابینہ نے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے حالات پر قابو پانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔ یادو نے کہا"ہمیں اطلاع ملی ہے کہ کئی افراد گھربار اور دیہات چھوڑ کردوسرے مقامات پر نقل مکانی کرگئے ہیں وہ اپنے گھروں کو واپس ہونا چاہتے ہیں، میری اپیل ہے کہ بھائی چارگی کو بقرار رکھاجائے۔" فوج نے مظفر نگر اور شاملی میں آج بھی طلایہ گردی کی جہاں امتناعی احکام پر سختی سے عمل آوری ہورہی ہے۔ فرقہ وارانہ طورپر حساس ضلع بریلی میں سیکوریٹی بڑھادی گئی ہے ۔
نئی دہلی۔
فسادات سے متاثرہ مغربی اترپردیش سے مسلمانوں کے فرار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اقلیتی امور کے رحمن خان نے آج وزیراعظم منموہن سنگھ سے کہاہے کہ وہ ریاستی حکومت پر فوری کاروائی کیلئے دباؤ ڈالیں۔ رحمن خان نے آج منموہن سنگھ سے ملاقات کرتے ہوئے خطہ بالخصوص مظفر نگر، شاملی اور آس پاس کے علاقوں میں اقلیتی فرقہ کی حالت زار پر توجہ دلائی۔ ایک سرکاری ترجمان نے بتایاکہ انہوں نے نظم و قانون کی صورتحال اور اقلیتی فرقہ کی حالت کے بارے میں بات چیت کی جس کے نتیجہ میں کئی افراد کو محفوظ مقامات پر جانے کیلئے مجبور ہونا پڑا ہے ۔ انہوں نے وزیراعظم کو بتایاکہ یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے اور اس سے فرقہ وارانہ تقسیم پیدا ہوسکتی ہے ۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں