احمد ہمیش یکم جولائی 1940 کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع بلیا کے ایک چھوٹے سے گاوں بانسپار میں پیدا ہوئے۔1962ءمیں ان کی ایک نظم حنیف رامے کی ادارت میں نکلنے والے جریدے "نصرت" میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اردو کی پہلی نثری نظم ہے۔ 1970 ء کی دہائی کے اوائل میں کراچی منتقل ہونے کے بعد وہ کچھ عرصے تک وہ ریڈیو پاکستان کراچی کی ہندی سروس سے وابستہ رہے۔
اسی زمانے میںجب قمر جمیل کی قیادت میں نثری شاعری نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی تو احمد ہمیش اس کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ تاہم اس سے پہلے وہ ایک تجریدی افسانہ نگار کے طور پر اپنی پہچان منوا چکے تھے اوران کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "مکھی" 1968 میں ہندوستان سے شائع ہوکر دھوم مچا چکا تھا ۔ تیس برس بعد 1998 میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ کہانی مجھے لکھتی ہے کے نام سے شائع ہوا۔
احمد ہمیش نثری شاعری میں انتہائی منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ان کی شاعری کا مجموعہ "ہمیش نظمیں" نثری نظم کا ایک اہم مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی کی دہائی میں انہوں نے افسانوں کا ایک انتخاب "عصر حاضر کی کہانیاں" کے نام سے شائع کیا تھا ۔ احمد ہمیش ایک ادبی جریدہ "تشکیل" کے مدیر بھی تھے۔ یہ جریدہ بھی احمد ہمیش کی شخصیت کی طرح ایک منفرد اور متنازع جریدہ سمجھا جاتا ہے ۔
--- بشکریہ : اب تک ٹی۔وی
احمد ہمیش بھی ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے ۔۔۔ ایک ذہین شاعر ،ایک بڑا افسانہ نگار رخصت ہوا --- آہستہ آہستہ اردو ادیبوں کا یہ قافلہ گم ہوا جا رہا ہے ۔ 1960 کے بعد ادب میں جدیدیت کا غلبہ ہوا ۔ اس رجحان سے متاثر ہو کر جو لوگ ادب میں وارد ہوئے، ان میں ایک اہم نام احمد ہمیش کا بھی تھا ۔ احمد ہمیش مشرقی یوپی کے شہر بلیا میں پیدا ہوئے ۔ حالات کا شکار ہو کر پاکستان چلے گئے ۔ پاکستان سے ایک ادبی رسالہ "تشکیل" شایع کیا۔ آخر کے 10 برسوں میں وہ اردو کی سیاست کو لے کر پریشان رہے ۔ ان کو اس بات کا بھی صدمہ تھا کہ اردو والوں نے ان کی قدر نہ کی ۔ مکھی ، کہانی مجھے لکھتی ہے ۔۔۔۔ انکی مشہور کہانیوں میں شمار کی جاتی ہیں ۔۔۔ انکی نظمیں بھی جدید تر خیالات کو سامنے رکھتی تھیں ۔ اردو نے ایک بڑا ادیب کھو دیا ۔۔۔ ایک ایسا ادیب جو نہ صرف وقت پر نظر رکھتا تھا ، بلکہ خود کے لئے جنگ لڑنا بھی جانتا تھا ۔۔۔ وہ کئی بار ہندوستان آئے اور اپنے متنازعہ بیانات کو لے کر بھی سرخیوں میں رہے۔
--- مشرّف عالم ذوقی
صاحب اسلوب افسانہ نویس اور جدید نثری نظم کے بنیاد گزار جو اشاعت کے حوالے سے غالباً اردو نثری نظم کے پہلے شاعر تھے ، اس دار فانی میں نہیں رہے۔ وہ بانسپار (ضلع بلیا ، انڈیا) سے آئے تھے اور گذشتہ گذشتہ روز افق کے اس پار چلے گئے۔
احمد ہمیش صاحب افسانوں ، اپنی نثری نظموں اور ادبی / تنقیدی نشستوں میں اپنی خوبصورت اور بامعنی گفتگو کے لیے یاد رہیں گے۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے۔
--- عباس رضوی
تاریخ وفات احمد ہمیش
از: --- تنویر پھول
تاریخ ہجری : 1434 ہجری
جہانِ ادب ، سرشتِ احمد ہمیش
تاریخ عیسوی : 2013 عیسوی
گلشن میں پھول! آج عنادل اداس ہیں
گل ہے جو شمعِ زندگی احمد ہمیش کی
اردو ادب کے کاندھوں پہ ہے بارِ غم پڑا
"قطفِ الم ہے رخصتی احمد ہمیش کی"
(قطف بمعنی ٹوکری)
renowned urdu critic ahmed hamesh passes away
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں