باباؤں کے معاملے میں قانون کا دہرا معیار - سزا کا حقدار صرف کمزور طبقہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-02

باباؤں کے معاملے میں قانون کا دہرا معیار - سزا کا حقدار صرف کمزور طبقہ

asaram bapu scandal
ڈھونگی بابا آسارام کے واقعے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ملک میں قانون صرف غریبوں، لاچاروں، بے کسوں، تنگ دستوں اور مسلمانوں کیلئے ہے ۔ امیروں ، باباؤں، صنعتی گھرانوں،سادھو ؤں اور روحانی گروؤں کیلئے قانون گھر کی لونڈی کی مانند ہے۔ ان باباؤں پر ملک کے مختلف مقامات پر قتل، آبروریزی، دست درازی، بھکت خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے سیکڑوں ایف آئی آر اور مقدمات درج ہیں لیکن ان میں سے کسی پر اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ آسارام پر ہی زمین پر غیر قانونی طور پر قبضہ کرنے، قتل کرنے، آبروریزی سمیت متعدد ایف آئی آر اور مقدمات درج تھے لیکن پولیس نے ان سے پوچھ گچھ کی بھی ہمت نہیں کرسکی اس کے برعکس اس کے پیر چھوتی ہے۔ یہ کیسا رویہ ہے یہاں لوگ زانی، ڈھونگی، غاصب اور خواتین پر دست درازی کرنے والوں کی پرستش کرتے ہیں ۔ توہم پرستی کے خلاف اگر کوئی میدان میں آتاہے تو اسے قتل کرکے ہمیشہ ہمیش کے لئے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے جیسا کہ کچھ دنوں قبل نریندر ڈابھولکر کو مہاراشٹر کے پونے میں دن دہاڑے قتل کرکے دائمی طور پر اس آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی اس قتل میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم کا نام آرہا ہے۔ ایک گائے کے ذبیحہ پر شور مچانے والوں کو ذرا سا بھی افسوس نہیں ہوا ۔ کیوں کہ توہم پرستی ہندوستان میں ایک تجارت ہے جس کا سالانہ ٹرن اوور لاکھوں کروڑ روپے ہے۔ توہم پرستی کو وسعت دینے میں دن رات ٹی وی نیوز چینل لگے رہتے ہیں۔ ڈائن، بھوت پریت اور دوسری توہم پرستی کے سیریل سے تفریحی چینل بھرے پڑے ہیں۔ ہندوستان میں جس طرح اقتصادی، تعلیمی اور معاشرتی ترقی ہورہی ہے اس سے کہیں زیادہ توہم پرستی، اندھ واشواش میں اضافہ ہورہا ہے۔ توہم پرستی کو فروغ دینے کیلئے بچوں کی بلی تک کو روا سمجھا جارہا ہے۔نیوز چینلوں کا آغاز ہی توہم پرستی کے فروغ سے ہوتا ہے۔ باباؤں کی کرتوت کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ان کے چرن چھو لئے تو پھر کسی چیز کی ضرور ت باقی نہیں رہے گی۔افسوس کی بات تو ہے جو جتنا پڑھا لکھا ہے وہ اتنا ہی توہم پرستی میں آگے ہے۔ یہی توہم پرستی کا نتیجہ باباؤں کی لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ آبروریزی ہے۔کبھی بھوت پریت بھگانے کے نام پر تانترک خواتین کی آبرو ریزی کرتا ہے تو کبھی سادھو خاتون کی گود ہری کرنے کے نام پر اس کے ساتھ منہ کالا کرتا ہے تو پاپ سے موکش (نجات) دلانے کے نام پر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے اور اس طرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین عقیدت مندوں کی تعداد میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی اور باباؤں کے پروچن (وعظ) سننے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین پہنچتے ہیں باباؤں کو جرائم کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ آسام رام کی حمایت میں خواتین کا آگے آنا، میڈیا پر حملہ کرنا، ایک خاص پارٹی کی لیڈر کی آسام رام کے حمایت میں کھل کر آنا جرم کرنے پر اکسانے اور حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔
آبرویزی کی شکار16سالہ نابالغ لڑکی کے والد کے مطابق وہ سنت آسارام باپو کو خدا مان کر ان کی لگن میں پاگل تھے۔شاہجہاں پور میں آشرم کے لئے زمین خریدوائی ۔ لاکھوں روپے باپو کی خدمت میں خرچ کر دئے. بیوی، بیٹے، بیٹی بھی باپو کو خدا مانتے تھے۔ ' اندھی عقیدت ' میں انہیں سنت کے اندر بیٹھا ' راکشس ' نہیں دکھائی دیا۔انہیں بیٹی کے ساتھ آبروریزی کے واقعہ پر یقین ہی نہیں ہوا۔ لیکن جب انہوں نے بیٹی کو اعتماد میں لے کر پوچھا تو لاڈلی کے آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار پھوٹ پڑی۔ بولی پاپا ، باپو بہروپیا ہے، راکشس ہے۔ انٹرویو دیو درشن (فلسفہ الہی ) سب ڈھکوسلا ہے۔ 15 اگست کی رات باپو اس کے کمرے میں آئے۔ دروازہ بند کر ڈیڑھ گھنٹے تک جنسی استحصال کیا۔ یہ کہتے ہوئے لڑکی کے والد رونے لگے۔ اراکین پارلیمنٹ کے سخت رخ ایک طبقہ کے احتاج کے بعد بہت مشکل سے راجستھان پولیس آسارام کو گرفتار کرپاچائی ہے ۔ ایک طرف آسارام پولیس کو مسلسل ٹھینگا دکھا رہے تھے تو دوسری طرف ان کے حامی غنڈہ گردی پر اتر آئے۔ جودھپور میں آسارام کے حامیوں نے آشرم کے باہر ایک نیوز چینل کی ٹیم پر حملہ کردیا اور ان کا کیمرہ توڑ دیا۔ لات گھونسو سے پیٹا۔ یہی لوگ ہیں جو باباؤں کو رات ٹی وی پر دکھاتے رہتے ہیں۔ اندور میں ان کی گرفتاری کے بعد حامیوں نے سڑک پر بیٹھ کر نعرے بازی کرتے ہوئے انہیں لے جانے والے گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن بھاری پولیس فورس کی موجودگی کے سبب وہ ناکام رہے۔ اس دوران حامیوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے میڈیا پر پتھراؤ بھی کیا۔ اس وقت وہ راجستھان پولیس کی گرفت میں ہے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ ان کا کوئی بال باکا ہوگا۔ گرفتار کرنے والے اگرشیطان کے پجاری بن جائیں تو انصاف کی امید ویسے بھی موہوم ہوجاتی ہے۔
آسا رام کا اصل نام آسومل سروملانی ہے۔پاکستان کے سندھ میں پیدا ہونے والے اس 72 سالہ آسارام نے اپنے 37 سال کے سنت کیریر کی سلطنت میں دنیا بھر میں 425 آشرم اور 50 سے زیادہ گروکل، 1400ویدانت کمیٹیاں، سترہ ہزار بال سنسکار مراکز ہیں ، جن کی جائیداد کا مجموعی طور پر 8 ہزار کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا جارہاہے ۔بچپن سے مذہبی رجحان رکھنے والے آسومل (آسارام) نے ماں کے کہنے پر لکشمی دیوی سے شادی بھی کی لیکن بعد میں 1968 میں گھر چھوڑ کر نینی تال میں سوامی لیلا شاہ باپو مہاراج کے آشرم میں چلا گیا۔ اس کے گرو لیلا شاہ جلد ہی ان کی حرکتوں کو پہچان گئے تھے اور آشرم آنے پر بھی پابندی لگا دی تھی، اس کے باوجود ایک بار آسارام آشرم آگیا اور پھر اس کے گرو نے اسے آشرم سے باہر نکال دیا تھا۔ اس کے بعد آسومل گجرات کے احمد آباد آگیا اور وہاں سابرمتی ندی کے کنارے موٹیرا گاؤں میں 1971 میں پہلا آشرم کھولا اور پروچن دینے کا کام شروع کیا۔ دھیرے دھیرے لوگ جمع ہوتے گئے اور آسومل پروچن دینے والے آسارام باپو بن گئے اور سنت بننے سے پہلے ہی اس پر 1959 میں گجرات کے بیجا پور میں ایک شخص کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ بیجا پور کے سابق گارڈ رجک بھائی کا کہنا ہے کہ 1959 میں آسومل شرا ب کا کاروبار کرتا تھا اور اس پر ایک دن زیادہ شراب پینے کی وجہ سے پرشورام نام کے ایک شخص کے ساتھ مل کر ایک دیگر شخص کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ان پر2000 میں گجرات کے ضلع نوساری کے بھیروی گاؤں میں آشرم کی زمین ہڑپ لینے کاالزام لگا اور اس کے اگلے ہی سال 2001 میں مدھیہ پردیش کے رتلام میں آشرم کے لئے دی گئی تقریباً 7 سو ایکڑ زمین بھی غصب کرنے کا اس پر الزام ہے۔ 2008 میں گجرات میں اس کے آشرم میں دو طلباء کا قتل کرنے کا بھی اس پر الزام ہے اور اس وقت بھی اس معاملے نے کافی طول پکڑا تھا۔ اسی طرح گزشتہ 23 جون کو مدھیہ پردیش کے ضلع ودیشا ضلع کے اس کے ایک بھکت نے بدسلوکی کرنے کا آسارام کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ آسارام کے خلاف صرف احمد آباد میں ہی 16 مقدمے درج ہیں۔آسا رام کے پرانے ساتھی امرت نے بھی الزام لگایا کہ آسارام کئی لڑکیوں کے ساتھ ایسی حرکتیں کر چکا ہے اور ایک لڑکی کا تو قتل بھی ہوچکا ہے۔آسا رام کے قریبی راجو چانڈک نے بھی کہاکہ اس نے آسارام کو راجستھان میں ایک خاتون کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے دیکھ لیا تھا جس کی وجہ سے اسے آسارام سے نفرت ہوگئی۔
آبروریزی کے الزام سے گھرے آسارام کے دفاع میں بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے بیان دیا تھا۔کانگریس نے اسے بی جے پی کا دوہرا معیار بتایا اور کہا کہ ایک طرف تو وہ آبروریزی کرنے والوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتی ہے اور دوسری طرف اپنے کسی شخص کے پھنسنے پر جانچ ہونے سے پہلے ہی اسے بے قصور بتانے لگتی ہے۔ عجیب حال ہے ! ایک طرف تو معاملہ ہوتے ہی بھگوا پارٹی کی ایک رہنما فوراً کہتی ہیں ۔ ' یہ سنت معصوم ہیں ' تو ادھر توگڑیا اور وی ایچ پی اسے ہندوستانی سنت مہاتماو کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے کر ان کا دفاع کر رہے ہیں۔وی ایچ پی کے کارگزار صدر اشوک سنگھل نے آسارام کو معصوم قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کو ہندو سنتوں کے خلاف سازش قرار دیا۔ آخر یہ کون سا پیمانہ ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ آسام پہلے دھرم گرو ہیں جنہوں نے ایسی ذلیل اور گھٹیا حرکت کی ہے بلکہ اس سے پہلے کئی سادھو اور بابا اس طرح کی ذلیل حرکتیں کرچکے ہیں اور سب باہر ہیں۔
اچھادھاری سنت سوامی ابھیماند جی مہاراج چترکوٹ والے ان کا نام دراصل شیو مرت دویدی ہے۔ 1988 میں یہ دلی کے نہرو پلیس واقع ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں گارڈ کی ملازمت کرتے تھے۔ پیسے کی بھوک نے انہیں جسم فروشی کے کاروبار کے دھندے میں اتار دیا۔ 1997 میں گرفتارت بھی ہوئے۔جیل سے نکلنے کے بعد سائیں بابا کے بھگت بن کر جنسی ریکٹ چلا کروڑوں کی جائیداد کھڑی کی۔ اس معاملے میں ابھی ٹرائل چل رہا ہے۔ دوسرے بابا ہیں گرمیت رام رحیم سنگھ۔ یہ ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ ہیں ان کا تنازعات سے پرانا ناطہ ہے۔ 2002 میں ان پر ڈیرہ کی ہی کسی نامعلوم سادھوی نے تب کے وزیر اعظم واجپئی اور پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے جج کو خط لکھ کر آبروریزی کا الزام لگایا تھا۔ 2007 میں سی بی آئی نے ان پر آبروریزی اور کریمنل اٹمیڈیشن کا چارج لگایا تھا۔فی الحال یہ بیل پر آزاد ہیں۔اسی طرح سوامی نتیاند ہیں۔2010 میں یہ بابا سرخیوں میں چھایا رہا۔ وجہ تھی ساؤتھ کی ایکٹریس رجتا کے ساتھ ایک قابل اعتراض ویڈیو۔محض 32 سال کی عمر میں دھیانپیٹھم ادارے کے سربراہ کے عہدہ سے اس ویڈیو کی وجہ نتیاند کو استعفی دینا پڑا تھا۔ 2012 میں امریکی شہری آرتی راؤ نے بھی اس سوامی پر مسلسل پانچ سال ( 2005۔2009 ) تک عصمت دری کرنے کا الزام لگایاتھا۔ یہ بھی آزاد ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ میں یہی فرق ہے ۔ اسی طرح کی حرکت ایک بابا نے امریکہ میں کی تھی اور اس کی پاداش اسے 14سال کی سزا ہوئی تھی۔20 لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں سزا یافتہ امریکہ کے ٹیکساس میں 1990 میں برسانا دھام نامی سینٹر قائم کرنے والے پرکاش آنند سروسوتی نامی یہ بابا کے اوپر 1993 سے 1996 کے درمیان بچوں کے ساتھ جنسی فعل کا بھی الزام ہے ، جس کے لئے 2008 میں یہ گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ تقریبا 6 کروڑ کی بیل رقم پر ہا ہونے کے بعد 2011 سے یہ فرار ہیں۔خود کو بھگوان شو کا مرید بتانے والے اس شخص کا اصلی نام کڈومکلا بابو راؤہے ۔آندھرا پردیش کے کریم نگر کے ایک اسکول نے طالبہ سے چھیڑ چھاڑ کے الزام میں اس شخص کو ٹیچر کی ملازمت سے نکال دیا تھا۔ 2002 میں اس نے اپنا نام گوچومردھان سوامی ہے رکھ لیا اور بن بچوں کی ماں کے ساتھ بچے ہونے کا لالچ دے کراس کی آبروریزی کرتا تھا۔یہ اور بات ہے کہ اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اکثر تنازعات میں رہنے والے سوامی نارائن فرقے کا ایک سادھو جنسی سکینڈل میں پھنس گیا ۔سادھو کو ایک سی ڈی میں ایک طوائف کے ساتھ پیسے دے کر جنسی عمل کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ سوامی نارائن فرقے دنیا کے سب سے امیر فرقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے سادھووؤں کو پہلے بھی کئی بار ہم جنس پرستوں کے افعال اور جنسی اسکینڈل میں پکڑا جا چکا ہے۔ گجرات پولیس نے تین شخص کو سی ڈی بنانے کے الزام میں گرفتار کیا۔ یہ رویہ ہے ملک کی پولیس اور انتظامیہ کا ہے۔
اس16 سالہ لڑکی کو لاکھوں سلام ۔ اس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک طاقت ور شیطان کے خلاف منہ کھولا۔ حقیقت میں ہیرو نربھیا یا دامنی نہیں بلکہ یہ سولہ سالہ لڑکی ہے۔ اس لڑکی نے جس بہادری کا ثبوت پیش کیا ہے وہ نہ صرف قابل اتباع ہے بلکہ ملک کی ساری لڑکیوں کو اس لڑکی حمایت آنا چاہئے۔ آسام رام اور ان کے گرگوں نے جس طرح لڑکی اور اس کے خاندان کو پہلے پیسے کا لالچ دے کر معاملہ واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا اور نہ ماننے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی اس کے باوجود اس لڑکی کا اپنے موقف پر قائم رہنا اس کی بہادری کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ نربھیا یا دامنی کے معاملے میں سڑکوں پر اترنے والے ، پوری دہلی کو جام کرنے والے لڑکے ، خواتین اور لڑکیاں آج خاموش کیوں ہیں۔ محض اس لئے کہ اس لڑکی نے کمزور شخص نہیں بلکہ ایک طاقتور شخص کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ نربھیا یا دامنی کی حمایت میں اس لئے عورتوں، لڑکیوں، میڈیا اور سیاسی لیڈروں کا ہجوم تھا کیوں کہ اس کا تعلق ایک برہمن سے تھا اور جرم کا ارتکاب کرنے والے بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر اور کلینر وغیرہ تھے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ سزا صرف کمزور، بے بس اورمسلمانوں کے لئے ہے۔ یہ ہندوستانی معاشرہ کا گھناؤنا چہرہ اور انصاف کا دہرا معیار ہے۔ اگر جرم کسی کمزور، دلت اور مسلمان سے سرزد ہوا ہے تو اسے فوراً پھانسی پر لٹکا دیا جائے اس کے برعکس مجرم کوئی مالدار برہمن یا با اور سادھو ہے اس کی حمایت میں ایک بڑا طبقہ آکھڑا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ڈھونگی گرو آسام رام کی حمایت میں پورے ملک میں لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف خواتین کہتی ہیں کہ کوئی بھی لڑکی آبروریزی کا الزم لگاکر اپنی عزت کو نیلام نہیں کرے گی جب کہ دوسری طرف یہی خواتین آسارام کی حمایت میں کھڑی نظر آرہی ہیں۔ آخر یہ کون سا پیمانہ ہے۔ جب کہ آسام رام کی پوری تاریخ مجرمانہ واقعات سے پر ہیں۔

***
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
عابد انور

Asaram rape case, india society and law. Article: Abid Anwar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں