وکلا نے بتایا کہ ان کے موکل پر اب تک دو مرتبہ حملہ ہو چکا ہے اور اب ہم اپنے موکل کی جان مزید جوکھم میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ ایک مرتبہ اگر کسی پر حملہ ہو جائے اور مزید حملے کا خدشہ ہو تو وہ سکون سے نہیں رہ سکتا۔ پھر ان پر جیل کے انتہائی سیکوریٹی والے حصے میں حملہ ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ وہ گذشتہ تقریباً دس برسوں سے قید میں ہیں اور اب ان کی عمر 50 سال سے زائد ہو چکی ہے اس لیے جیل میں رہنا اب ان کے لیے آسان نہیں۔ پھر یہ شکایت بھی ہے کہ ان کے کیس کی نہایت سست روی سے سماعت ہو رہی ہے۔
مزید انہوں نے کہا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ پرتگال اور ہندوستان کی عدالتیں ایک دوسرے کے ذریعے جاری کئے گئے احکامات کا احترام کریں۔ پرتگال کی عدالت اب تک تین فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ ابوسالم کو واپس پرتگال بھیج دیا جائے لیکن اس پر ہندوستان نے اب تک عمل نہیں کیا ہے۔ پرتگال حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی عدالت کے حکم کو پارلیمانی ذرائع سے ہندوستان تک پہنچائے اور ابوسالم کو اپنے ملک میں واپس بلوا لے۔ لیکن ہماری درخواستوں کے باوجود وہاں کی حکومت بھی خاموش ہے ، اس لیے اب ہم نے ابوسالم کو واپس پرتگال لے جانے کے لیے یورپی یونین کے حقوق انسانی کمیشن سے رجوع ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ پرتگال حکومت نے ابوسالم کو اس شرط پر ہندوستان کے حوالے کیا تھا کہ ان پر ایسی دفعات کا اطلاق نہیں کیا جائے گا جن سے انہیں سزائے موت ہو یا 25/سال سے زائد قید کی سزا ہو۔
لیکن 1993 بم دھماکہ کیس میں ابوسالم پر گذشتہ سال ایسی زائد دفعات کا اطلاق کیا گیا ہے جس میں سزائے موت ممکن ہے۔ اس کاروائی پر ابوسالم کے وکلاء نے پہلے ہندوستانی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جہاں ان کی عرضی مسترد ہو گئی جس کے سبب وہ پرتگال ہائیکورٹ سے رجوع ہو گئے۔ پرتگال کی عدالت نے اس مشاہدے کے ساتھ ابوسالم کے حق میں فیصلہ سنایا تھا کہ معاہدے کے شرائط کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ لہذا اب ابوسالم کے وکلا چاہتے ہیں کہ ابوسالم کی جلد از جلد پرتگال کو منتقلی ہو جائے۔
Salem's lawyer to move EU to cancel his extradition treaty
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں