Hyderabad a Separate state or Telangana without Hyderabad?
علیحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کا مطالبہ پر مشتمل جدوجہد اب ایسا لگتا ہے کہ اپنے منطقی انجام تک پہونچ رہی ہے اور علاقہ کے عوام کے جذبات کو مطالبات کو دیکھتے ہوئے یوپی اے حکومت اور کانگریس اعلی کمان بھی کسی قطعی نتیجہ یا فیصلہ تک پہنچنے کی تیاری کررہے ہیں۔ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے مطالبہ پر اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کل کوئی فیصلہ کرلیا جائے گا تاہم یہ فیصلہ کیا ہوگا اس تعلق سے مختلف طرح کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کانگریس ہائی کمان نے آندھراپردیش کی تقسیم کا عملاً فیصلہ کرلیا ہے۔ اس تعلق سے مختلف امکانات پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مرکزی حکومت علیحدہ ریاست تو تشکیل دے گی تاہم اس کا نام تلنگانہ نہیں ہوگا اور نہ رائل تلنگانہ کہا جائے گا۔ تلنگانہ کے 10 اضلاع کے علاوہ رائلسیما کے 2اضلاع کرنول اور اننت پور کو بھی شامل کرتے ہوئے "حیدرآباد اسٹیٹ" یا "ریاست حیدرآباد" کا نام دیا جائے گا اسی طرح مابقی ریاست کو آندھرا اسٹیٹ کانام دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بعض دیگر اضلاع کو ترقیاتی پیکج بھی دیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں علاقہ آندھرا کی علیحدہ ریاست میں کوئی دارالحکومت بننے تک اور تمام انتظامی امور کی تکمیل تک حیدرآباد کو جڑواں دارالحکومت بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تجویز ہے جس کے ذریعہ کانگریس پارٹی ایک تیر سے 2نشانہ کرسکتی ہے۔ ایک تو علیحدہ ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے علاقہ تلنگانہ میں اپنا موقف مستحکم کرسکتی ہے تو سارے ہندوستان میں حیدرآباد اسٹیٹ کے نام پر مسلمانوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دوسری تجویز یہ بھی ہے کہ علیحدہ ریاست تلنگانہ ہی تشکیل دیدی جائے تاہم حیدرآباد کو اس کا حصہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ حیدرآباد کے بغیر تلنگانہ قائم کرتے ہوئے حیدرآبادکو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے یا خود اختیاری بورڈ کے تحت اس کو دینے کی تجویز پر بھی سرگرمی سے غور ہورہا ہے۔ تاہم علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک چلانے والے گوشہ اس تجویز کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں کل کانگریس کور کمیٹی اجلاس میں کسی نہ کسی فیصلے کے امکان کو محسوس کرتے ہوئے سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے قائدین بھی سرگرم ہیں اور انہوں نے قبل ازوقت ہی کل 12 جولائی جمعہ کو "سیما آندھرابند" منانے کا اعلان کردیا ہے۔ جس طرح تلنگانہ مسئلہ پر اب ہر ہر لمحہ تجسس بڑھتا جارہا ہے اسی طرح دارالحکومت دہلی میں اس مسئلہ پر سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ علاقہ تلنگانہ اور سیما آندھرا کے قائدین دہلی میں ہر ہر گوشہ تک پہنچ کر اپنے احساسات سے واقف کروانے میں جٹ گئے ہیں اور دونوں ہی علاقوں کے قائدین کسی نہ کسی طرح اپنے اپنے مقصد کو کامیاب کرنے کی تگ و دوکررہے ہیں۔ ایک طرف تلنگانہ کے قائدین مرکزی حکومت اور پارٹی ہائی کمان پر علیحدہ ریاست کی تشکیل کیلئے دباؤ بڑھانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف سیما آندھرا قائدین نے بھی اپنی سرگرمیاں تیزکردی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ پارٹی ہائی کمان اور مرکزی حکومت سے تقریباً مایوس ہونے کے بعد راشٹرا پتی بھون سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سیما آندھرا کے قائدین نے صدر جمہوریہ سے ملاقات کرتے ہوئے علیحدہ ریاست کی تشکیل یا پھر آندھراپردیش کی تقسیم کو روکنے کی خواہش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سرگرمیاں ایسے وقت میں مزید بڑھ گئی ہیں جب آندھراپردیش میں کانرگے امور کے نگران بنائے گئے کانگریس جنرل سکریٹری ڈگ وجئے سنگھ نے ایک بار پھر یہ واضح کردیا ہے کہ تلنگانہ مسئلہ پر فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ابھی تک اس مسئلہ کو لیت و لعل کا شکار کیا گیا تھا لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو مزید التوا میں ڈالنے سے پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے۔ اب اس پر آر یا پار کا فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا ہے اور کل کانگریس کور کمیٹی کا جو اجلاس ہونے والا ہے اس میں صرف مسئلہ تلنگانہ پر غور ہوگا اور 2ہی پہلو زیر غور ہوں گے۔ ایک پہلو علیحدہ ریاست کی تشکیل کا ہوگا اور دوسرا ریاست کو متحدرکھنے کا ہوگا۔ دونوں ہی پہلوؤں پر تفصیلی طورپر غور و خوص ہوگا اور اس کے بعد کسی فیصلے کا اعلان ہوسکتا ہے۔ کل ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ اس میں کمیٹی کے رکن نہ ہونے کے باوجود کانگریس کے نائب صدر مسٹر راہول گاندھی کے علاوہ دیگر 2قائدین بھی شرکت کریں گے جو کمیٹی کے رکن نہیں ہیں۔ یہ قائدین آندھراپردیش میں کانگریس امور کے سابق نگران و مرکزی وزیر مسٹر غلام نبی آزاد اور موجودہ کانگریس امور نگران کار مسٹر ڈگ وجئے سنگھ ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں