علامہ (الاماں) آئی بی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-09

علامہ (الاماں) آئی بی


ہند میں حکومتی ایجنسیاں اہل ایمان پر روز نئے نئے ہتھکنڈے آزماتے رہتی ہیں ایسی ہی ایک علامتی کہانی یہاں کی سچائی ظاہر کرنے کے لیے قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔ یہ واقعات ہند میں رہائش پذیر کسی بھی اہل ایمان کے ساتھ واقع ہوسکتے ہیں اس کے لیے ملک سے غداری نہیں بلکہ اسلام سے وفاداری ہی کافی ہے جس کے دل میں ایمان جتنا پختہ ہوگا جو جتنا اسلام پر عمل پیرا ہوگا وہ اتنے ہی جلد حکومتی ایجنسیاں ( انٹلی جنس ) اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ یہ علامتی کہانی ہے لیکن اگر اس میں سے صرف چند مبالغہ آمیز جملوں کو ہٹا دیں تو صد فی صد سچ ہے ۔ اس کا ثبوت ہند کے اخبار خود ہیں حال ہی میں ایک صحافی آشیش کھیتان نے بھی انٹلی جنس ایجنسیوں کی مسلم دشمنی اور ان کے خون میں بسی زعفرانیت کو اجاگر کیا۔ اسی پر ایک کہانی پیش خدمت ہے۔

ایک دن میاں چتُر دانش صاحب ضیاء الوقت کی چائے کی دوکان پر بیٹھے چائے نوشی کررہے تھے ۔ان کے ہاتھ میں ادائے وقت اخبار بھی تھا۔ ساتھ ہی ہوٹل کے کارنر میں ایک ٹی وی بھی چل رہا تھا جس میں کسی نوجوان کی گرفتاری اور اس پر چرچا چل رہی تھی ۔ معاملہ چونکہ چتر دانش صاحب کے گاؤں کا تھا اس لیے جو گراہک بھی چائے پینے یا سموسہ کھانے آتا وہ ٹی وی کی خبر کی خبر ضرور دریافت کرتا ۔ ادھر جناب ضیاء الوقت صاحب بھی ٹی وی کو اور اسکی خبر کو تاڑ لیا کرتے تھے۔ اتنے میں بدحال رئیس صاحب بھی وہاں آگئے ۔ ہوٹل میں چتُر دانش کو دیکھا تو انکی بانچھیں کھل گئی ۔ ساتھ میں ادائے وقت بھی ہو تو بات ہی کیا! بہر کیف وہ اپنی آمد کا جشن مناتے چتر دانش کے سامنے وارد ہوئے ۔ چتر دانش نے اخلاقاً چائے کی پیشکش کی تو بدحال رئیس صاحب نے قبول کرلیا مگر اس سے قبل سموسے کے ناشتے کی شرط بھی لگا دی۔ ٹی وی کااینکر سنسنی کمار اپنی توانائی کے ساتھ خبر دوہرا رہا تھا’’ دیکھیے اس خونخوار چہرے کو اس کے دماغ میں چل رہی تھی خفیہ سازش‘‘ ۔ ا س خفیہ سازش پر نہ اخبار میں روشنی ڈالی گئی نہ ہی پچھلے پانچ گھنٹوں کی ٹی وی کے مختلف بک بک چینلس کے کسی تبصرے کے پروگرام میں اس کا خلاصہ کیا گیا ۔ بس یہ خفیہ سازش اخیر تک خفیہ ہی رہی۔ معاملہ چتر دانش اور بدحال رئیس کے گاؤں مان لے پور کا تھا اس لے یہ دونوں ساتھ گاؤں کے دیگر دردمند مسلم حضرات بھی کافی پریشان تھے ۔ مگر وہیں کچھ ایسے اشراف بھی تھے جنہیں ٹی وی اور اخبار کی گواہی پر وحی الہی کا سا یقین تھا سو وہ نیوز اینکرس اور ٹی وی کے وظیفہ خوار مبصرین کے ساتھ ساتھ گرفتار شدہ نوجوان غریب خان پر لعنت و ملامت بھی کرنے لگے۔
آخر کار بدحال رئیس سے چپ نہ رہا گیا اس نے چتر دانش سے چائے کی چسکی لیتے ہوئے سوال کیا ۔ ’ یار چتر یہ بتا کیا یہ خبر صحیح ہے؟
چتر دانش کی چترائی سارے ما ن لے پور میں مشہور تھی لہذا وہ اپنے انداز میں گویا ہوا۔ ’ ہا ں ۔ میرے دوست ۔ یہ خبر بالکل۔۔۔۔سچ ہے۔ غریب خان کے تیور تو پیدائش سے ہی سب پر واضح تھے ۔ کیا تم نے اسے دیکھا نہیں ؟
بدحال رئیس: دیکھا ہے مگر وہ تو ایک سادہ سا نوجوان تھا ۔اس کی پہنچ اتنی دور کیسے ہوگئی۔ اس کی بہنوں کی شادی اور خود اسکی شادی و طعام ولیمہ بھی رشتہ داروں او رجان پہچان والوں کا کرم تھا ۔
اس پر چتُر دانش گویا ہوئے ۔ ہاں میرے دوست وہ سب تو صحیح ہے مگر تم جانتے ہواسکی جان پہچان کس سے ہوگئی؟
بدحال رئیس: کس سے؟
چتر دانش: ارے یا ر ۔ الاماں آئی بی سے ۔
بدحال رئیس: الاماں آئی بی !!!
چتر دانش : الاماں نہیں ۔ الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا۔
بدحال رئیس: وہ کون ہے او ران سے پہچان بن جانے سے کیا ہوگیا؟
چتر دانش: یار تم بہت بھولے ہو ۔ دعا کرو کہ کبھی تمہاری ملاقات الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا سے نہ ہو ۔
بدحال رئیس : اگر ہوجائے تو کیا ہوگا؟ میں کچھ سمجھا نہیں؟
چتر دانش : کیا ہوگا!!! ارے یہ پوچھو کیا نہیں ہوگا؟ تم جانتے ہو اس غریب نوجوان غریب خان کے ساتھ کیا ہوا جب اس کی ملاقات الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا سے ہوئی ؟
بدحال رئیس : نہیں۔ کیا ہوا؟
چتر دانش : آرام سے بیٹھو سناتا ہوں۔ ( مزید چائے اور گرما گرم سموسے کا آڈر دہراتے ہوئے)۔ سنو۔۔۔۔
وہ ایک سادہ سا نوجوان تھا اپنے گھر کی ذمہ داری سنبھالتاتھا۔ اس کی نئی نئی شادی بھی ہوئی تھی۔ اسے اس کی ماں کا علاج بھی کرانا تھا۔ اس کے والد اکثر بیمار رہتے تھے ان کا علاج بڑے اسپتال میں کرانا تھا۔ بھائی کو بھی آگے پڑھانا تھا۔ دو جوان بہنوں کے نکاح کا بھی انتظام کرنا تھا۔ان سب کے باوجود شرافت و بھولے پن کے اس میں ذہانت کمال درجے کی تھی۔ جس جگہ وہ کام کرتا تھا دوپہر کے کھانے اور شام کے وقت لوگ اس سے اپنی پریشانی ،الجھن یا سوالات بیان کرتے وہ انہیں بے حد عمدہ اور صحیح حل تجویز کرتا لوگ اسے دعا ئیں دیتے۔ غربت کی وجہ سے وہ پڑھ نہ سکا ورنہ وہ ایک مزدور کی طرح ہرگز کام نہیں کررہا ہوتا۔ ایک دن دوپہر کے کھانے کے دوران اخبار کی کسی خبر پر کس نے تبصرہ چھیڑدیا اس نوجوان سے جب رائے پوچھی گئی تو اس نے بھولے پن میں کچھ سوالات ساتھیوں کے سامنے رکھ دیے جس کی وجہ اس خبر کی اور اس جیسی تمام خبروں کی حقیقت سب پر واضح ہوگئی ۔
مگر بے چارے کی قسمت خراب تھی ایک دن الاماں آئی بی لعن اللہ علیہاسے اس کی ملاقات ہوگئی ۔ الاماں کی کرامات کا شہرہ ساری دنیا میں مشہور تھا لہذا چند ہی گھنٹوں میں اس نوجوان کی خالی تھیلی جس میں دوپہر کے لیے دو روٹیاں اور اچار تھا الاماں آبی کی کرامت کا ظہور ہوا دیکھتے ہی دیکھتے اس نوجوان کے ٹفن بکس سے XYZ نہیں نہیںABCX نہیں نہیں RDX ہاں یہی حرف تھے جو نکل آئے۔ پھر اسی تھیلی سے کئی سو کروڑ کی نقلی کرنسی ،کئی ملکوں کے جعلی پاسپورٹ ، شناختی کارڈ نکل آئے ۔
الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا کی کرامتیں ابھی تھمی نہیں تھیں مزید جاری تھیں مگر ملک کے تحفظ اور اس کے مفاد کی خاطر الاماں بقیہ چیزیں کیمروں کے بجائے بند کمروں میں برآمد کرنے لگے ۔ چھوٹی سے تھیلی جس میں وہ گھر جاتے وقت کبھی کبھار کچھ سبزی یا پھل لے لیتا جو اس قابل بھی نہیں تھی کہ ایک ساتھ دوکلو پھل یا پوری ایک کلو سبزی سماسکے اب الاماں کی نظر بے رحم ہوتے ہی وہ عمرو عیار کی زنبیل بن گئی۔ اس میں سے کئی درجن دستی بم ، کئی کلو دیسی و غیر ملکی کارتوس بھی برآمد ہوئے۔
وہ نوجوان جو بچپن میں اسکول ، جوانی میں گھر اور دکان کے علاوہ پروس میں بھی جھانکا نہیں تھا الاماں کی کرامت سے وہ چند ساعتوں میں کئی سال پہلے بیرون ملک کے دورے کرچکاتھا جس کا ثبوت اس کے پاسپورٹ اور ویزے سے عیاں تھا۔ مگر اس کے پاس تو ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں تھا۔ ایک بار وہ شناختی کارڈ بنوانے آفس گیا تھا تو اتنے پاپڑ بیلنے پڑے کہ اس نے شناختی کارڈ کا خیال دل سے نکال دیا۔ لیکن اب اس کی ملاقات کسی سادھارن شخص سے نہیں الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا سے ہوگئی تھی۔ جنھوں نے چٹکی بجاتے ہی پاسپورٹ ، ویزا اور کئی سال پہلے غیر ملکی دورے بھی کروادیے۔
اس نوجوان کی خواہش تھی کہ اسکا بھی کسی بینک میں کھاتہ ہو۔ کچھ جمع پونجی بھی رہے۔ مگر وہاں بھی دستاویزات کی بھرمار نے اسے یہ خیال ترک کرنے پر مجبور کردیا۔ سچ تو یہ تھا کہ اس کے پاس کچھ بچتا ہی کہاں تھا جسے وہ بینک کھاتے میں رکھے؟
مگر الاماں آئی بی کی نحوست ابھی باقی تھی جو نئی نئی کراماتیں دکھاتی جارہیں تھیں ۔ راتوں رات غریب خان کے ملک بھر میں کئی اکاؤنٹ نکل آئے۔ملک بھر نہیں بیرون ملک میں بھی غریب خان کے کئی اکاؤنٹ نکل آئے بلکہ اکاؤنٹ ہی نہیں ان میں ڈھیروں ڈالر، پونڈ، یورو کچھ دینار اور کچھ کلو سونا بھی نکل آیا۔
بدحال رئیس:(بات کاٹ کر) ارے یار چتر یہ کیسے ہوسکتا؟ بلکہ گرفتاری سے ایک دن پہلے ہی وہ میرے پاس آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اباکی دوائی لانی ہے کچھ ادھار پیسوں کا انتظام کروادو تو مہربانی ہوگی۔ میں تمام پیسے وقت پر لوٹا دوں گا۔
میں نے اسے اس سے پہلے ایک دو سے بات کر رقم دلوائی تھی اس نے ایمانداری سے وقت پر لوٹا بھی دی تھی مگر ہر بار کون مصیبت مول لے گا ۔ اتفاق سے اس دن میرے پاس بھی کچھ رقم تھی لیکن میں نے منع کردیا تھا۔اگر یہ اخبار اور ٹی وی سچ کہہ رہے ہیں تو میں نے اچھا ہی کیا ۔ بھلا جس کے پاس اتنی دولت اسے اور کیا ضرورت ؟ مگر یا ر یہ بتاؤ ،غریب خان کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا اس بات کا ذمہ میں لینے کے لیے تیار ہوں۔ مگر اب صورتحال دیکھ کر عجیب محسوس ہوتاہے کہ چند دن پہلے تک پھٹے حال شخص کی آخر راتوں رات کن بزر گ سے وسیلہ بازی ہوگئی ۔ وہ اتنا بڑا آدمی بن گیا؟
چتر دانش: ارے یار میں نے کہا نہ کہ الاماں آئی بی کو ئی معمولی ہستی نہیں ہے ۔ ان کی بد نظر جس پر بھی پڑے اس کے دن بدل ہی جاتے ہیں۔وہ ہستی صرف آئی بی نہیں ’ الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا‘ ہے۔ خبر ہے کہ جب سے ان بزرگ کا جنم ہوا ہے شیطان ملعون بھی کبھی کبھا ر ان کی بدولت آرام کرلیتا ہے۔ آخر اتنے ایماندار بے ایمان کارندے جو میسر آگئے اسے۔آگے بھی تو سنو کہ غریب خان پر الاماں آئی بی کی نحوست کیا کیا رنگ لا رہی ہے؟
بدحال رئیس : سناؤ بھئی آگے غریب خان پر کیا گزری؟
چتر دانش: سنو۔
ابھی یہ خبر بھی آرہی ہے کہ الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا نے غریب خان کی پھٹی پرانی خستہ حال تھیلی سے تین عدد بیرون ملک تیار کردہ لمبی دوری والے ٹینک بھی برآمد کر لیے ہیں۔ یہ سب کچھ ممکن ہے میرے دوست کیونکہ یہ سب کرنے والی کوئی معمولی ہستی نہیں بے حد کرامتی اور با اثر ہستی ہے ۔ الاماں آئی بی لعن اللہ علیہا و یدخلہم فی النار جہنم ۔
بدحال رئیس: اللہ ہمیں انکی نظر بد سے بچائے ۔

Allama Al-amaaN IB - a short-story by: AbdulMuqeet AbdulQadeer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں