29/جون احمد آباد پی۔ٹی۔آئی
گجرات فسادات پر ایس آئی ٹی کی اختتامی رپورٹ کے خلاف ذکیہ جعفری کی احتجاجی درخواست پر بحث کرتے ہوئے ان کے وکیل سنجے پاریک نے آج احمد آباد کی عدالت میں زور دار بحث کرتے ہوئے کہاکہ دراصل چیف منسٹر نریندر مودی نے گجرات فسادات کی سازش رچی تھی۔ اس کیلئے انہوں نے گودرھرا کے سانحہ کو بنیاد بناتے ہوئے وشوا ہندو پریشد کے ذریعہ ہندوؤں کے جذبات بھڑکائے تاکہ مسلمانوں سے انتقام لیا جاسکے۔ ذکیہ جعفری، کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ہے۔ گلبرگ سوسائٹی قتل عام میں احسان جعفری کو زندہ جلادیا گیا تھا۔ میٹرو پولٹین مجسٹریٹ وجئے گناترا کی عدالت پر ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کرتے ہوئے سنجے پاریک نے کہاکہ گودھرا ٹرین سانحہ کے بعد گودھرا ریلوے اسٹیشن پر بے شمار کارسیوک جمع ہوئے اور وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے۔ حالات انتہائی کشیدہ تھے کہ اس وقت نریندر مودی نے وشوا ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری جئے دیپ پٹیل کو طلب کرتے ہوئے انہیں گودھرا روانہ ہونے کی ہدایت دی۔ جئے دیپ پٹیل نے وشوا ہندو پریشد کے دیگر لیڈروں کو جمع کیا اور فساد بھڑکانے کی تحریک شروع کردی۔ جئے دیپ پٹیل کا استعمال کرتے ہوئے نریندر مودی نے آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے کارکنوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ سازش کا آغاز یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے جئے دیپ پٹیل کو مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے ہندوؤں کے جذبات بھڑکانے کی ہدایت نہیں بلکہ کھلی چھوٹ دی تھی۔ جئے دیپ پٹیل اور دیگر 81 ہندو دہشت گرد فی الحال بروڈہ قتل عام کیس میں مقدمہ کا سامنا کررہے ہیں۔ ذکیہ جعفری نے اپنی احتجاجی درخواست میں ایس آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے گجرات فسادات کی ازسر نو تحقیقات اسی آزادانہ ایجنسی کے ذریعہ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے وکیل نے کہاکہ چیف منسٹر کو ضروری نہیں تھا کہ وہ وشوا ہندو پریشد کے لیڈروں اور کارکنوں کے ساتھ ربط قائم کرتے ہوئے ہدایت دے جبکہ چیف منسٹر ایک ریاست کا سربراہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تمام انتظمیہ کی باگ دوڑ ہوتی ہے۔ فسادات سے نمٹنے کیلئے سنگھ پریوار کا استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ فسادات پر قابو پانے کیلئے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مدد لی جاتی ہے لیکن نریندر مودی نے سنگھ پریوار کے کارکنوں کیا اور یہ استعمال لاء اینڈ آرڈر نافذ کرنے کیلئے نہیں بلکہ فساد بھڑکانے کیلئے کیا گیا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے فریضہ انجام دینے میں نریندر مودی نا صرف ناکام رہے بلکہ وہ فساد بھڑکانے کا مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ فساد بھڑکانے کا کام سنگھ پریوار ہی کرسکتا ہے اسی لئے انہوں نے وی ایچ پی لیڈر جئے دیپ پٹیل کو طلب کیا۔ پولیس عہدیداروں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے انہوں نے سرکاری مشنری کو خاموش رہنے کی اجازت دی تھی۔ اس کی گواہی کئی آئی پی ایس عہدیدار دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ان کے حلف نامے موجود ہیں۔ سنجے پاریک نے ایس آئی ٹی کے اس الزام کو مسترد کردیا کہ مودی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کوئی مقدمہ ابھی تک درج نہیں کیا گیا ہے۔ ذکے ہجعفری کے وکیل نے کہاکہ فساد کے دوران نریندر مودی کی خاموشی گہری سازش میں اس کے ملوث ہونے کا بین ثبوت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایودھیا میں لاکھوں کارسیوک جمع تھے۔ کارسیوکوں میں گجراتیوں کی کثیر تعداد موجودتھی۔ حالات سے نمٹنے کیلئے ریاستی حکومت کو پیشگی اقدامات کرنا چاہئے تھا۔ سنجے پاریک نے 15اگست 2009ء کو گجرات کے سابق وزیر سریش مہتا کا ایک مکتوب ایس آئی ٹی کو روانہ کیا گیا تھا عدالت میں پیش کیا۔ اس مکتوب میں سریش مہتا نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ 27؍فروری 2002ء کو وہ (سریش مہتا) نریندر مودی کے بازو میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت مودی نے یہ بیان دیا کہ ہندوؤں کو اب جاگ جانا چاہئے۔ ان کا یہ بیان ان کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف وہ کس قدر گھناؤنی متعصب اور زہریلی ذہنیت رکھتے ہیں وہ ان کے بیان سے ثابت ہوتا ہے۔ بیان اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نریندر مودی گجرات کے مسلمانوں سے انتقام لینے کا ارادہ رکھتے تھے اور وہ اس ارادہ میں پوری طرح سے کامیاب بھی ہوئے۔Modi conspired to instigate Hindus post-Godhra: Jafri's lawyer
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں