ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:15 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-18

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:15


شاتو کا نام سنتے ہی ونود چیخنے لگا ۔
ونود چیختا رہا ۔۔۔۔
"یہ بالکل جھوٹ ہے ۔۔۔" یہ بالکل بکواس ہے ۔" میں نے تارک ناتھ کا خون نہیں کیا ہے ۔۔۔" لیکن انسپکٹر پولیس نے اس کی چیخوں کو بالکل نظر انداز کردیا اور اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں ۔
ہتکھڑیاں پہننے کے بعد ونود پر جیسے سکتہ سا طاری ہوگیا ۔
چند منٹ بعد انسپکٹر پولیس تہہ خانے سے پروفیسر تارک ناتھ کی لاش بھی نکال لایا ۔۔۔ اب اس نے ونود سے پوچھا "یہ پروفیسر تارک ناتھ کی لاش ہے جو کل شام کو شہر سے آئے تھے ، آپ نے ان کو اس حویلی میں ٹھہرایا تھا اور رات کے بارہ بجے کے بعد آپ نے ان کا قتل کردیا تھا ۔
ونود جواب دینے کے بجائے خاموش رہا ۔
انسپکٹر پولیس نے مزید کہا "اب میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ مجھے پوری ایمانداری سے بتا دیجیے کہ آپ نے پروفیسر کا قتل کیوں کیا ہے ۔"
لیکن ونود ایک بت کی طرح خاموش رہا ۔
"آپ کی خاموشی ، آپ کی مصیبتوں میں اضافہ کردے گی ،مسٹر ونود ۔"
انسپکٹر نے بڑے ملائم لہجے میں کہا " اس لیے میں جو کچھ پوچھوں آپ مجھے بتا دیجیے ۔۔"

"میں نے تارک ناتھ کا قتل نہیں کیا ہے ۔" ونود نے مری مری آواز میں جواب دیا ۔
"یہ ہر مجرم کہتا ہے ۔۔۔۔" انسپکٹر نے کہا "خیر ۔۔۔۔ آپ یہ بتائیے کہ تہہ خانے میں جو انسانی ہڈیاں پڑی ہیں وہ کس کی ہیں ؟"
"یہ ہڈیاں صدیوں پرانی ہیں ۔" ونود نے جواب دیا ۔
"میں شاتو سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ آپ اس کو بلوائیے۔۔۔۔"
انسپکٹر نے کہا ۔۔
شاتو بھی مر چکی ہے ۔۔۔" ونود نے کہا ۔
"کیا آپ نے اس کا بھی قتل کردیا ہے ۔۔؟" انسپکٹر نے بڑی حیرت سے سوال کیا وہ ابھی چار گھنٹے قبل مجھ سے مل چکی ہے ۔"
"میں آپ سے سچ کہتا ہوں شاتو نام کی کوئی عورت زندہ نہیں ہے " ونود نے کہا "آپ سے جو عورت ملنے آئی تھی وہ شاتو نہیں تھی ۔ وہ شاتو کا بھوت تھا ۔۔۔۔ وہ شاتو کی روح تھی ، وہ شاتو کا سایہ تھا ۔۔۔۔۔"
"میرا خیال ہے کہ آپ پاگل ہوگئے ہیں مسٹر ونود ۔۔۔" انسپکٹر نے بڑی حیرت سے کہا ۔
"جی نہیں ۔۔۔ ونود نے کہا "میں پاگل نہیں ہوں ۔۔ میں آپ کو پوری کہانی سنائے دیتا ہوں ، کہانی سننے کے بعد آپ یقیناً میرے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیں گے۔"
ونود نے اس کے بعد اب تک کی پوری کہانی انسپکٹر کو سنادی ۔
ونود نے واقعی اب کوئی بات نہیں چھپائی تھی ۔ کہانی سن کر خود مجھے بھی حیرت ہوئی ، کیوں کہ ونود نے مجھے بھی تارک ناتھ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔۔۔ میں نے بھی اس کی داستان کی تصدیق کردی اور شانتا نے بھی ۔۔۔۔ لیکن انسپکٹر نے اس کہانی پر بالکل یقین نہیں کیا ۔ اس نے کہا " واقعی آپ ایک بے مثال افسانہ نگار ہیں مسٹر ونود ۔۔۔۔"
اب انسپکٹر مجھ سے مخاطب ہوا اس نے مجھ سے پوچھا "آپ یہاں کیوں آئے ہیں ۔"
"ونود نے مجھے بلایا تھا ۔" میں نے جواب دیا ۔
"کس لیے بلایا تھا۔" انسپکٹر نے مجھ سے پوچھا ۔۔۔۔
"وہ مجھے اپنی کہانی سنا کر مجھ سے مشورہ لینا چاہتا تھا کہ ان پراسرار حالات میں اسے کیا کرنا چاہیے ۔ میں اس کا بہت پرانا دوست ہوں ۔" میں نے جواب دیا ۔
انسپکٹر پولیس نے اس کے بعد مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا ۔ اس نے شانتا سے پوچھا "آپ نے پروفیسر تارک ناتھ کو دیکھا تھا ۔"
جی ۔۔۔ نہیں ۔" شانتا نے مردہ آواز میں جواب دیا "البتہ میرے پتی نے مجھے ان کی آمد کی اطلاع ضرور دی تھی ۔" شانتا نے مزید کہا "لیکن میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میرے پتی نے ان کا قتل نہیں کیا ہے ۔"
انسپکٹر پولیس مسکرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی یہ مسکراہٹ اس امر کا ثبوت تھی کہ وہ ہم سب کو جھوٹا سمجھ رہا ہے ، اس نے ہماری کہانی پر قطعی یقین نہیں کیا ہے ۔
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا ۔۔۔۔ میں نے انسپکٹر سے پوچھا "شاتو آپ سے کس وقت ملنے آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"تقریبا چار بجے صبح ۔۔۔۔ "انسپکٹر نے جواب دیا ۔ وہ اب بھی مسکرا رہا تھا ۔
"کیا اس نے آپ کو قتل کی اطلاع دینے کے علاوہ اور بھی کچھ کہا تھا ۔۔۔" میں نے پوچھا ۔
" جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ونود کی حویلی میں رہتی ہے ۔۔۔" انسپکٹر نے جواب دیا "اور اسی لیے میں اس سے ملنا چاہتا تھا اور اسی لیے میں آپ کی اس کہانی پر ایک فیصد بھی یقین کررہا ہوں کہ شاتو نام کی کوئی عورت اس حویلی میں نہیں رہتی ہے اور یہ کہ اس کو مرے ہوئے ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ۔"
"لیکن انسپکٹر صاحب ۔۔۔۔ می ابھی اور اسی جگی ثابت کرسکتا ہوں کہ شاتو ایک زندہ عورت کا نام نہیں ہے۔" میں نے کہا ۔
وہ کیسے ؟" انسپکٹر نے حیرت سے پوچھا ۔
"آپ میرے ساتھ باہر چلنے کی زحمت گوارا کریں ۔" میں اتنا کہہ کر کھڑا ہوگیا ۔
انسپکٹر نے میرا جملہ سن کر چند لمحات تک میری طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر ونود کو اسی کمرے میں چھوڑ کر میرے ساتھ باہر نکل آیا ۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا "میں آپ کو شاتو سے ملانے لیے جا رہا ہوں ۔۔۔"
"لیکن ابھی آپ کہہ چکے ہیں کہ شاتو زندہ نہیں ہے ۔۔"
انسپکٹر نے کہا ۔
"میں نے ٹھیک کہا تھا ۔۔۔۔" میں نے جواب دیا اور اس کو لے کر حوض تک پہنچ گیا ۔ اب میں نے شاتو کے بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "انسپکٹر صاحب ۔۔۔۔ آپ اس بت کو غور سے دیکھیں اور پھر یہ بتائیں کہ کیا یہ اسی عورت کا بت نہیں ہے جو آپ کے پاس قتل کی اطلاع دینے کے لیے آئی تھی ۔
انسپکٹر نے بت کی طرف دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا ۔ اب اس کی حیرت کی باری تھی ۔ چند لمحات کے بعد اس نے کہا "واقعی ۔۔۔۔۔ یہ اسی عورت کا بت ہے ، وہی آنکھیں ، وہی لب ، وہی جسم ، وہی قد ، حد یہ کہ اس بت کا لباس بھی وہی ہے جو وہ عورت پہنے تھی ۔
"بت کی طرف سے نظریں ہٹانے کے بعد انسپکٹر نے مجھ سے مزید کہا "فی الحال میں یہ ایک طلسم ہی کہوں گا ۔۔۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں ونود کو رہا کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا ۔ میں ونود کو اپنے ساتھ لے جانے اور اس کو پروفیسر کے قتل کے الزام میں حراست میں رکھنے پر مجبور ہوں ۔
حالات اس کے خلاف ہیں لیکن اگر آپ چاہیں تو افسران اعلیٰ سے مل کر اس کی رہائی کی کوشش کرسکتے ہیں ۔۔۔ ورنہ عدالت کے دروازے کھلے ہیں ۔
انسپکٹر نے مزید کہا "میرا خیال ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخص یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ ایک بت بھی زندہ ہوسکتا ہے ۔"
"لیکن اگر آپ چاہیں تو آج رات کو بارہ بجے یہاں آکر بت کو زندہ دیکھ سکتے ہیں ۔" میں نے ونود کی رہائی کے لیے مزید وکالت کی ۔
"مجھے یہ تماشہ دیکھنے کی فرصت نہیں ہے ۔" انسپکٹر نے جواب دیا اور اس کمرے کی طرف روانہ ہوگیا جہاں ونود سپاہیوں کی حراست میں بیٹھا تھا ۔
میں نے ونود کی موجودگی میں ایک مرتبہ پھر انسپکٹر کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بالکل نہیں پسیجا ۔ اس نے پنچ نامہ تیار کیا اور ہم سب کی دستخط لے لئے ۔۔۔۔۔۔ اب وہ روانگی کے لیے بالکل تیار تھا ۔ پروفیسر کی لاش لاری میں لادی جا چکی تھی ۔
میں نے انسپکٹر سے پوچھا "آپ ونود کو اپنی حراست میں کب تک رکھیں گے ۔۔۔۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے جیل کب بھجیں گے ۔۔۔۔۔"
"مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کرنے کے بعد میں شام تک انھیں جیل بھیج دوں گا۔" انسپکٹر نے جواب دیا۔
"اور پروفیسر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آپ کو کب مل جائے گی ۔" میں نے پوچھا ۔
"آج شام تک ۔۔۔۔"انسپکٹر نے کہا "لیکن آپ کو پوسٹ مارٹم رپورٹ سے کیا دلچسپی ہے ۔"
"اس لیے دلچسپی ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ یہ ظاہر کردے گی کہ پروفیسر کی موت کیسے واقع ہوئی ۔ اس کا قتل ہوا ہے یا وہ قدرتی موت مرا ہے ۔"
میرا جواب سن کر انسپکٹر نے غور سے میری طرف دیکھا اور پھر پوچھا معلوم ہوتا ہے آپ کو ڈاکٹری لائن کا بھی تجربہ ہے ۔"
"تجربہ نہیں ۔۔۔۔۔" میں نے کہا "میں خود ڈاکٹر ہوں اور پروفیسر کی لاش پر سرسری نظریں ڈالنے کے بعد ہی میں اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں کہ ان کی موت قدرتی طور پر ہوئی ہے کوئی بھی انسانی ہاتھ ان کی موت کا ذمہ دار نہیں ہے ۔"
"تم ٹھیک کہتے ہو کمار ۔۔اچانک انود نے کہا "وہ ڈر کر مرا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور یا پھر جیسا کہ میں کہ چکا ہوں شاتو نے اس کو انتہائی خوف زدہ کرکے مرنے پر مجبور کردیا ہے ۔"
"بہرحال ۔۔۔" انسپکٹر نے ایک طویل سانس لینے کے بعد کہا" سارا فیصلہ عدالت کرے گی ۔ میں تو قانون کا غلام ہوں اور قانون پر عمل کرنا میرا فرض ہے ۔"
انسپکٹر اتنا کہہ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔ اور اس نے ونود سے کہا "آئیے مسٹر ونود۔۔۔" اور ونود بھی کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیر کانپ رپے تھے ، وہ بیدِمجنوں کی طرح لرزاں تھا ۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کی جسمانی قوتوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہو ۔
منظر اتنا دل خراش تھا کہ کود میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں ۔
میرے تصور میں بھی نہ تھا کہ میرے حویلی پہنچتے ہی ونود ایک خوف ناک مصیبت سے دو چار ہوجائے گا ایک ایسی مصیبت سے جس سے نجات پانے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی ۔
میں نے ونود کی طرف دیکھا اور ونود نے میری طرف اف کتنی مایوسی تھی اس کی آنکھوں میں ۔۔۔۔ آج بھی جب میں ان آنکھوں کو ویرانی کا تصور کرتا ہوں تو میرا کلیجہ کانپ جاتا ہے ۔
ونود پولیس کی حراست میں باہر جانے لگا تو شانتا دوڑ کر اس سے لپٹ گئی وہ چیخنے لگی "نہیں نہیں میں اپنے دیوتا کو نہیں جانے دوں گی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بالکل بے گناہ ہے ۔ اس نے کوئی قتل نہیں کیا ہے ۔ ۔۔۔۔
یہ ظلم ہے ۔۔۔۔۔۔ میں یہ بے انصافی نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔"
ونود ایک بے بس اور مجبور انسان کی طرح شانتا کی یہ بےکسی دیکھتا رہا ۔ اس کے بعد اس نے شانتا سے کہا "یہ تمہاری دیوانگی ہے تم اپنا یہ حال بنا کر میری مشکل آسان نہیں کروگی شانتا ۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو ، میرا یہ دوست یہاں موجود ہے ، وہ تمہاری بھی حفاظت کرے گا اور میری رہائی کی کوشش بھی کرے گا ۔ اس لیے اب تم اپنے آنسو پونچھ ڈالو ۔۔۔"
ونود نے شانتا کو کچھ اس طرح سمجھایا اور تسلی دی کہ شانتا نے اس کا دامن چھوڑ دیا ۔۔۔ اور ایک بت کی طرح کھڑی ہوگئی ۔
اب نوکروں نے بھی رونا اور چلانا بند کردیا تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ خاموشی بالکل لمحاتی تھی کیوں کہ جیسے ہی پولیس کی حراست میں ونود پولیس لاری میں سوار ہوا ، ایک مرتبہ پھر سب رونے لگے ۔۔۔۔ لاری باہر نکلی تو شانتا دوبارہ پچھاڑیں کھا رہی تھی ۔۔۔۔ بالک لایسا معلوم ہورہا تھا جیسے زندہ ونود باہر نہ جارہا ہو ، ونود کی لاش باہر جا رہی ہو ۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:15

7 تبصرے:

  1. جناب مکرم صاحب ۔ ناول ۔ ایک بت۔ کی اگلی قسط کب شائع ہوگی۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کچھ مسائل کے سبب یہ اور دیگر سلسلے رک گئے ہیں۔ انشاءاللہ اگلے ہفتے سے سلسلے جاری ہوں گے۔

      حذف کریں
  2. محترم مکرم صاحب، تین ہفتے سے انتظار کر رہے ہیں، کوئ صورت نظر نہیں آتی۔

    کچھ بتائیں گے کہ اگلا حصہ کب شائع ہو رہا ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ان شاءاللہ ہفتہ 29/جون کو ناول "ایک بت" کی 16 ویں قسط شائع ہوگی۔ دو دن مزید انتظار فرما لیجیے

      حذف کریں
  3. غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا۔

    محترم مکرم صاحب، کوئ امید ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. میاں منتظر12/05/2013 12:25 AM

    چار ماہ ہو چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ غالبا آپ اس سلسلے کو بھول چکے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کمپوزر صاحب ہاتھ دے گئے تھے ۔۔۔ آجکل دوبارہ رابطے میں ہیں۔ اگلے ہفتہ سے تمام سلسلوں کے دوبارہ اجرا کی امید رکھئے
      :)

      حذف کریں