نہاری کی شان میں ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-23

نہاری کی شان میں ۔۔۔

شہر حیدرآباد ، رمضان میں "شہر حلیم" بن جاتا ہے اور عام دنوں میں اس کی حیثیت "نہاری کے شہر" کی ہوتی ہے۔ جدھر دیکھئے بس نہاری کی دیگیں چڑھی ہوئی ہیں۔ کوئی "پائے" سے "نسخہ کیمیائے محبت" کشید کر رہا ہے تو کوئی "زبان" سے شعری لذتیں اٹھا رہا ہے۔ مجھ جیسے غریب غرباء تو ملا نصرالدین کی طرح صرف "شوربے" پر اکتفا کیے رہتے ہیں اور وہ بھی باسی کلچوں کے ساتھ ۔۔۔

سچ پوچھئے تو "نہاری کلچہ کلچر" حیدرآباد کی امتیازی شان ہے۔ نہاری کلچے نوابان دکن کا من بھاتا کھاجا رہا ہے۔ نہاری کلچوں کی چٹخارے دار طغیانی میں حیدرآباد کی صبحیں اور شامیں ہمیشہ غوطہ زن رہتی ہیں ۔۔۔
ایک دفعہ ہندوستان کے "پائے" کے ادیب و نقاد شمس الرحمن فاروقی صاحب حیدرآباد آئے تو انہیں کسی نے پرانے شہر کی ایک ہوٹل لے جا کر "پائے" کھلا دئے تھے۔ وہ شام فاروقی صاحب پر اتنی گراں گزری کہ پو پھٹنے تک غالب کے اس شہرہ آفاق مصرع کی تصویر بنے رہے :
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

میں تو کہتا ہوں کہ یہ صرف اور صرف حیدرآبادیوں کا ہی حق ہے جو ایسی مسالے دار ثقیل غذائیں پچا لیتے ہیں۔ وہ چاہے نہاری ہو ، چاکنہ ہو ، بیسن کی مرچیاں ہوں یا بیوی کی تیکھی گالیاں ہوں ، یہ لوگ ہنستے ہنستے ہو ہو ہا ہا کرتے ہوئے شوق سے نگل جاتے ہیں۔

ویسے آپ کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ نہاری کی شان لحمیات سے ہے ، اگر نہاری میں سے لحمیات کو نکال دیں تو پھر نہاری پر پوری طرح سے سنسکرت کی سنسکرتی کا قبضہ ہو جائے گا۔ یہاں پہلے ہی سے لفظ نہاری پر فارسی اور سنسکرت دونوں میں ٹھنی ہوئی ہے۔ فارسی کا دعویٰ ہے کہ لفظ نہاری "نہار" یا "صبح تا نصف النہار" وغیرہ جیسی تراکیب کا حصہ ہے لہذا میں نہاری کی ماں ہوں ۔۔۔
اور سنسکرت کہتی ہے کہ نہاری "نا آہار" کی ایک شکل ہے چنانچہ میں نہاری کی جننی ہوں!!
میں کہتا ہوں کہ بھائی! ہمیں اس جھگڑے سے کیا لینا ، نہاری فارسی میں بنائی جائے یا سنسکرت میں ، اس کا مزا تو نہیں بدلے گا۔ نہاری چاہے کسی بھی زبان میں بنائی جائے ہمیں تو نہاری کھانے سے مطلب ہے۔

ہمارے یہاں نہاری کے ایک سے بڑھ کر ایک شوقین لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو چکھ کر بتا سکتے ہیں کہ نہاری کس ہوٹل کی ہے؟
ایسے ہی ایک نہاری شناس ذائقہ باز ہمارے خلیل خان فاختے کے ہاتھ لگ گئے۔ خان صاحب نے انہیں اپنے گھر بلا کر نہاری چکھائی تو پہلے تو وہ اس نہاری کو چکھتے ہی رہ گئے اور پوری نہاری ختم کرنے کے بعد بولے : "آج میں پہلی بار ہار گیا ہوں ، پتا نہیں یہ کس ہوٹل کی نہاری ہے؟"
بعد میں خان صاحب نے میرے سامنے یہ بھانڈا پھوڑا کہ دراصل وہ نہاری تھی ہی نہیں بلکہ دال کی ہانڈی کا دھویا ہوا پانی تھا!!

Hyderabadi Nahari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں