مہاراشٹرا ضلع جلگاؤں - ممنوعہ تنظیم سیمی کے دو کارکنان باعزت بری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-04

مہاراشٹرا ضلع جلگاؤں - ممنوعہ تنظیم سیمی کے دو کارکنان باعزت بری

مہاراشٹرا کے چالیس گاؤں ضلع جلگاؤں خاندیش میں ممنوعہ تنظیم سیمی کے دو کارکنان با عزت بری
12/ سال بعد بے گناہ مسلم نو جوانوں کو انصاف ملا، ایڈوکیٹ عبدالوہاب عبدالسلام دیشمکھ کی کامیاب پیروی
سال 2001ء میں غیر قانونی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار اسٹو ڈنٹ اسلامک مو ومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے دو ممبران کو نا کافی ثبوت کی بناء پر با عزت بری کر دیا گیا۔ مسلم نوجوانوں کو ممنوعہ تنظیم (سیمی) سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے لیکن عدالت میں پولس ان مسلم نوجوانوں کو قصور وار ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے اور اکثر منہ کی کھانی پڑتی ہے لیکن بیچارے مسلم نوجوانوں کا کیرئیر برباد ہو جاتا ہے۔ اس کی تلافی تاخیر سے ہونے والے عدالتی فیصلوں سے نہیں ہو پاتی ہے ۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اس سلسلے کی ایک کڑی جلگاؤں ضلع کے چالیس گاؤں تعلقہ میں نظر آئی جہاں کے دو مقامی مسلم نوجوانوں کو سیمی سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن اب انہیں عدالت نے بے قصور قرار دے دیا ہے ۔ جلگاؤں ضلع کی چالیس گاؤں کورٹ کے چیف جج شری منت چکّرنے سماعت کے دوران فریق کے دلائل کو سنا۔ پولیس نے ان کے خلاف عدالت میں 2006 ؁ میں چارج شیٹ داخل کی تھی مگر مقدمے کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل ایم ایس یولے نے مذکورہ ملزمین کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے اور انھیں ملزمین ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اس لئے چیف جج محترم شری منت چکّر نے ثبوت نہیں ہونے کے سبب دو مسلم نوجوانوں کو با عزت بری کر دیا۔ ان سبھی کے با عزت بری ہو جانے سے اب مہاراشٹر کے دیگر علاقوں میں جہاں پولس نے سیمی کے کارکنان کو اسی الزام کے تحت گرفتار کیا ہے ان کی رہائی کے لئے بھی آسانیاں پیدا ہو گئیں ہیں ۔ پولس نے جلگاؤں ضلع کے چالیس گاؤں تحصیل کے دو مسلم نوجوانوں جاوید خان بدیع الزماں خان عمر (23) سال اور جابر خان یوسف خان عمر (21) سال،رہائش چالیس گاؤں کو سیمی سے تعلق رکھنے کے الزام میں 2001 / میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ وہ ممنوعہ تنظیم کے لئے سر گرم رکن ہیں اور ملک دشمن کار روائیوں میں مصروف ہیں ۔ ان پر ملک کے لئے نقصان دہ سرگرمیوں میں مصروف ہونے کا بھی پولس نے الزام عائد کیا۔ چالیس گاؤں پولس نے ان لا فول ایکٹو ٹیج ایکٹ 1967 کی دفعہ 3،10، 11، کے تحت الزامات عائد کر گرفتار کیا تھا۔ 2001/ میں ان دو مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ چالیس گاؤں عدالت نے ان تمام نوجوانوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن پولیس نے ساڑھے چار برس بعد ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی اور اس مقدمہ کا ٹرائل آر سی سی نمبر 2001/1158، کے تحت عدالت میں مقدمہ کی پیروی شروع ہوئی۔ ان تمام دو نوجوانوں کی گرفتاری کے وقت تلاشی اور گھروں کی چھان بین کے بعد پنچ نامے ،اسپاٹ پنچ نامے اور کار روائی کو پولس سچ ثابت نہیں کر سکی۔ پولس نے عدالت میں کل دس گوا ہوں کو پیش کیا۔ اس میں ملزمین کی جانب سے پیروی کرنے والے پاچورہ ضلع جلگاؤں کے مشہور نامی گرامی وکیل دفاع ایڈوکیٹ عبدالوہاب ایڈوکیٹ عبدالسلام دیشمکھ نے اپنی جرح میں تمام مدعے عدالت میں اکھاڑپھینکے ۔ چالیس گاؤں عدالت جج محترم شری منت چکّرنے دونوں فریق کے دلائل سننے اور پنچ نامہ، گوا ہوں و استغاثہ کی باتوں کا جائزہ لینے کے بعد دونوں مسلم نوجوانوں کو بے قصور قرار دیا اور انہیں با عزت بری کرنے کا حکم دیا۔ 12/ سال تک مقدمہ بازی میں مصروف رہنے کے بعد ان دونوں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمے سے نجات ملی۔ مسلم نوجوانوں کی با عزت بری ہونے کے بعد جب ہم نے ان سے بات کی تو دو نوں نوجوانوں نے کہا کے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم باعزت بری ہوئے کیونکہ ہم بے قصور تھے۔ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ مگر پولس نے ہمیں جھوٹاکیس بنا کر گرفتار کیا ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے وکیل ایڈوکیٹ عبدالوہاب عبدالسلام دیشمکھ کی کامیاب پیروی سے ہم با عزت بری ہوئے ۔ دونوں نوجوانوں کے با عزت بری ہونے کی وجہ سے جلگاؤں ضلع کے مسلم طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑگئی ہے ۔ اور نوجوانوں اور ایڈوکیٹ عبدالوہاب دیشمکھ کو مبارک باد دئے رہے ہیں ۔ غور طلب ہے کہ اس سے پہلے بھی سال 2009/ میں ایڈوکیٹ عبدالوہاب دیشمکھ نے اسی طرح ۔ ‘سیمی’ کے مقدمہ میں گرفتار پانچ نوجوانوں کو پاچورہ کی عدالت میں ان کی پیروی کر با عزت بری کرایا تھا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں