جگن کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ میں مسترد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-10

جگن کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ میں مسترد

سپریم کورٹ نے آج وائی ایس آر کانگریس کے صدر وائی ایس جگن موہن ریڈی کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا‘ جو جگن کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ یہ کاروائی غیر محسوب اثاثوں کے مقدمہ میں عمل میں آئی۔ عدالت نے بتایاکہ اس کی رہائی سے اس کے خلاف تحقیقات میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے جگن کے آڈیٹر وجئے سائی ریڈی کی ضمانت کو بھی منسوخ کرتے ہوئے 5جون تک خودسپردگی کی ہدایت دی ہے۔ اس بات کا اظہار سپریم کورٹ کے باہر سی بی آئی کے وکیل اشوک بھان نے صحافیوں سے کیا۔ جسٹس پی سداسیوم اور ایم وائی اقبال نے بھی کیس کے ایک ملزم و صنعت کار نما گڈا پرساد کی درخواست ضمانت کو مسترد کردیا۔ سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو اندرون چند ماہ تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ سی بی آئی نے 27 مئی کو کڑبہ کے لوک سبھا رکن جگن کو ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں اور افراد سے بے جا رعایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاری دولت اکٹھا کرنے کے الزام کے تحت گرفتار کیا تھا۔ جب کہ یہ صورتحال ان کے والد وائی ایس آر راج شیکھر ریڈی کی آندھراپردیش کے چفے منسٹر کی حیثیت سے معیاد کے دوران پیدا ہوئی تھی۔ بھان نے بتایاکہ جگن سب سے بڑے اسکام میں ملوث ہے اور انہوں نے خود کو دولتمند بناتے ہوئے معاشرہ کو ترقی کے جائز حقوق سے محروم کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کا سنجیدہ نوٹ لیتے ہوئے بتایاکہ قانون کے تحت کسی گروپ یا افراد کو خود کو متمول بنانے کی اجازت نہیں‘ جبکہ اسے مزید کچھ مدت تک جیل میں رہتے ہوئے مصائب برداشت کرنا ہوگا۔ جگن کو اسکام رقم کا سب سے بڑا استفادہ کنندہ اور کلیدی ملزم قرار دیتے ہوئے عدالت نے اس جواز کے تحت اس کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا کہ چوں کہ وہ ایک بااثر سیاست داں ہے‘ اس لئے تحقیقات میں رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے۔ بھان نے بتایاکہ انہیں مسرت ہے‘ قانون کی حکمرانی کو بالادستی حاصل ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے قانون کے قاعدہ کو بحال رکھا ہے۔ ملزمین کی تمام افواہوں کو غیر موثر کرتے ہوئے انہیں بے نقاب کردیا ہے اور اب ان کی جھوٹ پکڑلیا گیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی بتایاکہ سفید پوش جرائم کی تعداد میں زبردست اضافہ ہواہے‘ جس کے ملک کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

Jagan Mohan Reddy's bail plea rejected by Supreme Court

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں