ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:13 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-27

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:13


پروفیسر تارک ناتھ کی لاش فرش پر بالکل چت پڑی تھی۔
ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان کی گردن کو آہنی ہاتھوں سے دبادیا گیا ہو، ان کے جسم کے کسی حصے پر کسی چوٹ کا نشان نہیں تھا کوئی زخم نہیں تھا لیکن ان کے چہرے پر خوف اور دہشت جم کر رہ گئی تھی۔
پروفیسر کی اس خلاف توقع موت نے ونود کے حواس معطل کر دئے چند لمحات کیلئے وہ بالکل ساکت ہو کر رہ گیا۔ وہ سوچتا رہا کہ کیا ایک روح بھی کسی کا قتل کر سکتی ہے۔

اچانک اس کے کانوں میں وہی جانی پہنچانی آواز گونجی۔ شاتو اسی کمرے میں موجود تھی۔ اور اب بالکل صاف نظر آ رہی تھی۔ بت واقعی زندہ ہوگیا تھا۔ شاتو نے بڑے محبت بھرے لہجے میں ونود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"آج میری ایک بڑی دیرینہ تمنا پوری ہوگئی راج کمار۔۔۔"
"یعنی اپنے چچا کو قتل کرنے کی تمنا۔۔۔" ونود نے بڑی دھیمی آواز میں کہا۔
"نہیں۔۔۔" شاتو نے کہا "میں نے اپنے چچا کا قتل نہیں کیا ہے"۔
"تم روح ہوکر جھوٹ بول رہی ہو شاتو۔۔۔" ونود نے کہا۔
"پروفیسر تارک ناتھ میرے مہمان تھے اور تم نے ان کا قتل کرکے میری راہ میں کانٹے بودئیے ہیں۔۔۔ مجھے بتاؤ کہ جب پولیس مجھ سے یہ پوچھے گی کہ ان کا قتل کس نے کیا ہے تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں اگر پولیس سے کہوں گا کہ ان کا قتل ایک عورت کے زندہ بت نے کیا ہے تو دنیا میں میری بات کا کون یقین مانے گا"۔

"پروفیسر تارک ناتھ کا قتل میں نے نہیں کیا ہے راج کمار۔۔۔" شاتو نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "تم خود سوچو کہ ایک بھتیجی اپنے چچا کا قتل کیسے کرسکتی ہے"۔
"بالکل اسی طرح جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا قتل کر سکتا ہے۔ تمہارے چچا نے تمہارے باپ کا قتل کیا تھا اس لئے تم نے اس کا بدلہ بے چارے پروفیسر کا قتل کر کے لے لیا حالانکہ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ ان کی شکل تمہارے ظالم چچا سے ملتی جلتی تھی"۔
"میں پھر کہتی ہوں کہ میں نے پروفیسر کا قتل نہیں کیا ہے"۔ شاتو نے اب اپنی مسکراہٹ ختم کردی۔ وہ اچانک سنجیدہ ہوگئی۔

"پھر۔۔۔ ان کا قتل کس نے کیا" ونود نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا "میں ابھی دس پندرہ منٹ قبل ان کو اسی کمرے میں زندہ چھوڑ گیا تھا۔ یقیناً ان کا قتل ہوا ہے"۔
"انہوں نے خودکشی کی ہے راج کمار۔۔۔" شاتو نے کہا۔
"خودکشی۔۔۔"ونود نے گھبرا کر کہا۔
"ہاں ۔۔۔۔خودکشی۔۔۔۔"شاتو دوبارہ مسکرائی "وہ مجھے دیکھ کر ڈر گئے، میں ان کے سامنے اپنے مکمل جسم کے ساتھ آ گئی تھی۔۔۔ میں نے ان سے صرف اتنا کہا تھا "کہو چاچا جی۔۔۔ اب تم میرے جال میں آگے نا۔۔۔"
"اور اس کے بعد ۔۔۔" ونود نے جلدی سے پوچھا۔

"اور اس کے بعد ان کے حلق سے خود بخود گھٹی گھٹی چیخیں نکلنے لگیں، میں جیسے جیسے ان کے قریب آتی گئی وہ پیچھے ہٹتے گئے۔ اور پھر وہ اس طرح چیخنے لگے جیسے میں ان کا گلا دبا رہی ہوں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے میں نے ان کے جسم کو چھوا تک نہیں تھا"
شاتو نے مزید کہا: "وہ ڈر گئے تھے خوف کی وجہ سے ان کا دم نکل گیا۔۔۔ اور یہی میری تمنا تھی"۔

چند لمحات کی خاموشی کے بعد شاتو نے دوبارہ اپنے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے کے بعد کہا "اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ان کی موت چاہتی تھی بلکہ خود اپنی آنکھوں سے ان کو مرتے دیکھنا چاہتی تھی۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ آج میری ایک بہت پرانی تمنا پوری ہوگئی ۔۔۔"

"اور اب مجھے یہ بھی بتادو کہ تم اس حویلی میں اور کس کس کی موت چاہتی ہو۔۔۔" ونود نے اپنی آواز میں زہر کی تلخی گھولتے ہوئے کہا۔
"ہر اس انسان کی موت جو میرے اور تمہارے درمیان حائل ہوگا" شاتو بولی۔
"میں تمہیں ختم کردوں گا شاتو۔۔۔" ونود چیخا۔
"مجھے فنا نہیں ہے راج کمار۔۔۔" شاتو نے جواب دیا۔
"نکل جاؤ یہاں سے" ونود غصہ میں دیوانوں کی طرح چیخا۔
"ونود میرا غم نہ بڑھاؤ۔۔۔" شاتو نے بڑی نرمی سے جواب "صدیوں سے میں جس آگ میں جل رہی ہوں اس میں تیل نہ ڈالو۔۔۔"

"میں کہتا ہوں نکل جاؤ یہاں سے "ونود دوبارہ چلایا۔
"بہت اچھا! میں چلی جاؤں گی لیکن ایک بات یاد رکھنا راجکمار کہ عورت کی محبت اگر نفرت میں بدل جاتی ہے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا ہے"۔ شاتونے بڑی مدھم آواز میں کہا "عورت کا انتقام بڑا بھیانک ہوتا ہے راج کمار"۔
"میں تیرے انتقام سے نہیں ڈرتا" ونود نے کہا۔
"ڈرنا پڑے گا تمہیں راج کمار۔۔۔" شاتو نے جواب دیا اور آہستہ قدموں کے ساتھ کمرے کے باہر جانے لگی۔۔۔ لیکن جیسے ہی وہ ونود کے قریب آئی اور ونود نے اس کے آنکھوں میں آنسو کے موتی چمکتے دیکھے ونود کا سارا غصہ کافور ہوگیا۔ اس کے دل میں بالکل اچانک شاتو کیلئے ایک محبت سی پیدا ہوگئی۔

شاتو کیلئے ونود کا یہ جذبہ بالکل نیا تھا۔ کیونکہ آج تک اُس کے دل میں شاتو کیلئے کوئی محبت نہیں پیدا ہوئی تھی۔ شاتو کمرے سے باہر نکلی تو ونود نے کہا "شاتو ۔۔۔ میری ایک بات سنتی جاؤ۔۔۔"
لیکن شاتو نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

ونود بھی اس کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا۔ اس نے دوبارہ شاتو کو آواز دی لیکن شاتو جیسے بہری ہو چکی تھی وہ آگے بڑھتی رہی۔ حوض میں داخل ہوئی، چبوترے پر چڑھی اور ونود کے دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ بت میں تبدیل ہو گئی۔

ونود حوض کے قریب آیا، اس نے شاتو کے بت کی طرف دیکھا محض چند لمحات قبل شاتو کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن وہ آنسو زندہ شاتو کی آنکھوں میں تھے۔ اس وقت جو شاتو اس کے سامنے تھی وہ مسکرا رہی تھی۔
ونوددیر تک اس دل فریب مسکراہٹ پر نظریں جمائے رہا اور پھر خود اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے آہستہ سے کہا "مجھے معاف کردو شاتو"۔
لیکن شاتو کا بت خاموش رہا۔

شانتا اپنے کمرے میں بے ہوش پڑی تھی۔ پروفیسر تارک ناتھ کی لاش اپنے کمرے کے فرش پر پڑی تھی۔ باہر ونود بالکل ساکت نگاہوں سے شاتو کے بت کی طرف دیکھ رہا تھا اور وقت بڑی تیزی سے گذر رہا تھا۔
ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے حویلی میں موت کا سایہ پھیل گیا ہو۔
اب تک حویلی کے نوکر اس صورتحال سے بے خبر تھے، ونود نے ان کو حویلی کے آسیب کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ لیکن اب حویلی کے نوکروں کو بھی سب کچھ معلوم ہوگیا تھا۔ دونوکر تو اپنا سامان لے کر اگات پوری کی آبادی میں چلے گئے۔ اور باقی نوکروں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ صبح ہوتے ہی حویلی کی ملازمت چھوڑ دیں گے۔

لیکن۔۔۔ ونود کو حویلی کے حالات کی ان تبدیلیوں کا کوئی علم نہ تھا وہ بس شاتو کے مسکراتے بت کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ اس بات کو اب تک اس نے سینکڑوں مرتبہ دیکھا تھا۔ اُس وقت بھی دیکھا تھا جب بت کو کنویں سے نکالا گیا تھا اور وہ کیچڑ میں لت پت تھا اور اس وقت بھی دیکھا تھا جب بت کو صاف کر کے فوارے کے چبوترے پر نصب کیا گیا تھا۔

اس نے اب تک بت کے بدلتے ہوئے کئی انداز دیکھے تھے۔ اس نے اس بت کو زندہ بھی دیکھا تھا، بولتے ہوئے بھی دیکھا تھا، ہنستے ہوئے بھی دیکھا تھا اور آنسو بہاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ لیکن آج پہلی مرتبہ پتھر کے اس بت نے اس کے حواس خمسہ پر ایک جادو سا کردیا تھا۔ آج پہلی مرتبہ اس کو بت سے ہمدردی ہو رہی تھی۔ آج پہلی مرتبہ اس کو بت کی آنکھوں میں خود اپنی جھلک نظر آ رہی تھی۔ وہ بت کی طرف دیکھ بھی رہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ شاتو کی اس مسکراہٹ کے پیچھے غم کی کتنی دل سوز داستان مستور ہے۔ شاتو کی اس مسکراہٹ میں کتنی الم ناک کہانی پوشیدہ ہے۔

اور اب ونود کو افسوس ہورہا تھا کہ وہ شاتو سے اس کی کہانی نہ سن سکا۔۔۔ شاتو کی یہ کہانی ادھوری رہ گئی۔ کیونکہ شائد اب شاتو کی روح دوبارہ کبھی بھی اس سے ملنے نہیں آئے گی۔ شائد اب شاتو کا بت دوبارہ کبھی نہیں زندہ ہوگا۔

سوچتے سوچتے ونود کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ ایک مرتبہ پھر اس کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔
"شاتو مجھے معاف کردو۔ میں اپنے الفاط واپس لیتا ہوں شاتو۔ مجھے بڑا افسوس ہے کہ میری وجہ سے تم کو دکھ پہنچا۔"
لیکن شاتو کا بت بدستور خاموش رہا۔
ونود کے الفاظ کا شاتو پر کوئی ردعمل نہیں ہوا۔
اب ونود کی قوت فیصلہ جواب دے چکی تھی۔
وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ فوارے کے بت پر آخری نظر ڈالنے کے بعد وہاں سے شانتا کے کمرے کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں وہ کمرہ پڑتا تھا جس میں پروفیسر تارک ناتھ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس نے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر ایک مرتبہ لاش پر نظر ڈالی۔ چند لمحات تک کچھ سوچا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ بند کردیا۔

ونود جب شانتا کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں پلنگ پر پڑی ہوئی تھی۔ اس نے شانتا کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور خاموشی کے ساتھ پلنگ کے قریب رکھی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
پلنگ کے قریب وفادار کالکا فرش پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کافی دیر تک روتا رہا ہو ونود نے اس سے کہا "غم نہ کرو کالکا، سب ٹھیک ہوجائے "۔
"نہیں مالک۔۔۔۔" کالکا نے روہانسی آواز میں کہا "اب آپ کو یہ حویلی خالی کردینا چاہئے"۔
"میں خود کبھی یہی فیصلہ کرچکا ہوں"۔ ونود نے ہاتھ کی کلائی پر بندھی ہوئی گڑھی دیکھتے ہوئے کہا "اس وقت رات کے دو بجے ہیں۔۔۔ صبح آٹھ بجے ہم یہ حویلی خالی کردیں گے۔ تم ضروری سامان باندھ لو۔ باقی سامان پھر منگوا لیا جائیگا"۔
"پھر میں جاؤں۔۔۔" کالکا نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم آج کی رات ایک لمحہ کیلئے بھی نہ سونا۔ شانتا کی حالت ٹھیک نہیں ہے کسی وقت بھی اس کی طبعیت زیادہ خراب ہو سکتی ہے اور اس وقت اگر تم سورہے ہوگے تو میری پریشانی بڑھ جائے گی۔ میں بھی اسی لئے تمام رات جاگنا چاہتا ہوں"۔ ونود نے کہا اور گردن گھماکر شانتا کی طرف دیکھنے لگا۔

تقریباً پندرہ منٹ بعد شانتا نے آنکھیں کھولیں۔ ونود کو اپنے بالکل قریب بیٹھے دیکھ کر اس کے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ پھیلی اور اس نے بڑی آہستہ آواز میں کہا
"میں اب ٹھیک ہوں ونود۔۔۔تم زیادہ پریشان نہ ہو"۔
"ہم صبح سات بجے یہ حویلی خالی کردیں گے"۔ ونود نے کہا۔
"اور بت کا کیا کرو گے"شانتا نے پوچھا۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:13

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں