علامہ اقبال کا دستور العمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-29

علامہ اقبال کا دستور العمل

علامہ اقبال کا دستور العمل
خودی، بلند کردار، عمل پیہم، حب نبویؐ
ان چار ستونوں میں دونوں جہانوں کی فلاح پوشیدہ ہے !

21 اپریل حکم الامت، شاعرمشرق، مفکر اعظم علامہ محمد اقبال کا یوم وفات ہے، آیئے اس عظیم ہستی کیلئے دعاء مغفرت کے بعد ان کے پیغام کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

فلسفۂ حیات کو سمجھنے اور فلاحٔ کامل کا راز جاننے کیلئے ازل سے آج تک کوششیں جاری ہیں، کلام اقبال کے تفصیلی مطالعے کیلئے ایک زندگی ناکافی ہے ۔ اقبالیات پر سیر حاصل تحقیق کیلئے مشرق و مغرب کی ساری جامعات کم پڑجائینگی۔

علامہ اقبال کو سمجھنے کیلئے دل و دماغ کی یکسوئی اور روح تک رسائی ضروری ہے، اقبال کے پیغام تک پہنچے کیلئے ہم سب کو اپنے اندر چھپے درویش اور صوفی کو تھپتھپا کرجگانا پڑے گا!!

علامہ اقبال کے کلام میں اور انکی فکرو شعور کے ہر زاویئے میں احکام الٰہی اور فلاحٔ انسانی بدرجۂ اتم موجود ہے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے دین اسلام کے بنیادی عقائد اور تفسیرقرآان کو اپنے کلام کا محور بنایا، یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کا کلام، مقام اور پیغام مثل آفتاب ابد تک روشن رہے گا۔

علامہ اقبال نے کامیاب زندگی گذارنے اور تا ابد فلاح کے حصول کیلئے ہم سب کو "دستورالعمل" یعنی "Operating Manual" بنا کر دیا ہے جس کے چار ستون ہیں :

1) خودی
2) بلند کردار
3)عمل پیہم
4) حب نبویؐ

جی ہاں، یہی وہ چار "عماد اساسی" ہیں جنکو زندگی میں آراستہ کر کے ہر انسان دین و دنیا کی حقیقی کامیابی بخوبی حاصل کر سکتا ہے، علامہ اقبال نے گہری مشق کے بعد خردکی گتھیاں سلجھائیں اور ہمارے لئے سیاہ تر کائنات میں روشنی کے دروازے کھول دیے ۔

آئیے علامہ اقبال کے پیش کردہ " دستورالعمل" کا درویشانہ جائزہ لیتے ہیں، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسطرح "چار ستونوں " پر عمل پیرا ہو کر ہم فلاحٔ ابدی حاصل کر سکتے ہیں ۔

علامہ اقبال سمجھاتے ہیں کہ اپنے آپکو پہچانو، اپنے مقصدحیات یعنی "بندگی" کو ایمانداری سے انجام دو، اپنے فرائض کو جانو، معاملات کو خوش اسلوبی سے مکمل کرو، تم اپنی ذات کی تکمیل کرلو یہ کائنات تمہارے قدموں پر ہو گی، اپنی ذات پر اعتماد اور توحید پر پختہ اعتقاد، اقبال کا پیغام خودی حقیقتاً خود آگہی اور وحدانیت کا اقرار ہے ۔

خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ

خودی ہی وہ پہلا ستون ہے جو "خودشناسی" سکھاتا ہے، یہی وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے وحدانیت کا یقین ہماری روح میں جڑیں پکڑتا ہے، ہمارے اندر قدرت نے بیش بہا جواہر پوشیدہ رکھے ہیں، خودی کے ذریعے انکو کام میں لا کر ان پر عمل پیرا ہو کر ہمارے لئے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہونا ممکن ہے ۔

تسخیرذات اور تسخیرجہاں کیلئے بلندکردار ہونا شرط ہے، بلند کردار انسان ہی اعمال حسنہ پر کاربند ہوتے ہیں اور ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں، کردار میں کج روی رکھنے والے اچھے اعمال کے لائق نہیں رہتے ۔

خود شناسی وحدانیت الٰہی پر یقین محکم کو جنم دیتی ہے، یہی وہ رسی ہے جسکو تھام کر بندہ اپنے کالق کو پہچانتا ہے، اس طرح آدمی انسان بنتا ہے اور کردار کی بلندیوں ں کی جانب رواں دواں ہو جاتا ہے، یہاں اس نقطے کو سمجھنے کیلئے علامہ اقبالکا ایک بامعنی فارسی قطعہ کافی ہو گا۔

صورت نہ پر ستم من،
بت خانہ شکستم من،
آں سیل سبک سیرم
ہر بند گذشتم من،

صدیوں کی ملوکیت کے باعث آج کی امت محمدیہ میں نبوت اور خلافت راشدہ کے روحانی اثرات تیزی سے زائل ہورہے ہیں، آجکل ماڈرن مسلمان اپنے مسائل کے حل کیلئے وسائل و فضائل پر کم ہی توجہ دیتے ہیں، خود ساختہ مولویوں کے فتوے اور بدعتوں پر انحصار کر کے ہم اپنی دنیاوی ناکامیوں کی اصل وجوہا ت سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔

اپنی بداعمالیوں کی "تطہیر" کرنے کی بجائے آج کا مسلمان قسمت کو برا بھلا کہہ کر اپنی زوال پذیری کو یقینی بنا رہا ہے ۔

عمل پیہم کی جانب رجوع کرنے کی بجائے قضاوقدر پر تکیہ کئے بیٹھے رہنا علامہ اقبال کو قطعی قبول نہیں،انکا پیغام صاف اور سادہ ہے ۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی،
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے،

علامہ اقبال کے پیش کردہ" دستورالعمل" میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ہم عمل پیہم ہی کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی فلاح کے حقدار ہو سکتے ہیں، اور دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے !

خودآگہی (بذریعۂ وحدانیت)، بلندکردار، اور عمل پیہم پر حب نبویؐ کی " مہر" کا ثبت ہونا دونوں جہانوں کی کامیابی کی دلیل ہے ۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے کیا خوب سمجھایا ہے، ملاحظہ فرمائیے ۔

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں ۔

" حب نبویؐ، کلمۂ توحید کی تکمیل ہے "۔ ۔ ۔
نہایت سادہ سافلسفہ ہے، اسوۂ حسنہ اور سیرت نبویؐ پر عمل کر کے ہی اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی مکمل خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے، اس طرح آدمی، انسان۔ ۔ ،،، اور انسان مومن بنتا ہے، یہی وہ راستہ ہے جو مے خانے سے فردوس تک انسان کو لیکر جاتا ہے، اسی "مقام وفا" کو پانے کے بعد ہم اپنی ذات سے بلند ہو کر لوحٔکائنات پر قلم درازی کے لائق بنتے ہیں، یہی وہ "اعجاز بندگی" ہے جسکو پانے کے بعد ہم اپنی قسمت خود لکھ سکتے ہیں، بناسکتے ہیں، سنوار سکتے ہیں ۔

آج کے دور ابتلاء میں مسلمانوں کی ذہنی و عملی تیرگی کا علاج "حب نبویؐ" ہے، یہی وہ چوتھا ستون ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہماری انفرادی کامیابی اور امت محمدیہ کی اجتماعی یکجہتی ممکن ہے ۔

آئیے علامہ اقبال کے کلام اور پیغام کو دوبار بغور پڑھتے ہیں، انکے بتائے ہوئے " دستورالعمل" کو سمجھتے ہیں اور انکے سمجھائے ہوئے چار ستونوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی اور معاشرے کو سوارتے ہیں، اپنی زبوں حالی پر ہمیں آگے بڑھکر خود قابو پانا ہو گا!! عالمی حالات اور قدرتی آفات ناگہانی کا اشارہ اور اصرار یہی ہے !!

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

***
روحیل خان
چیئرمین، اردو اکیڈمی اِنٹرنیشنل، واشنگٹن، ڈی ،سی، امریکہ۔
ای۔میل: rohailkhan00[@]gmail.com ، فیس بُک: Rohail00
روحیل خان

Practical constitution of Allama Iqbal - Article: Rohail Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں