Pakistani army supported Pervez Musharraf
پاکستان میں 18 اپریل کی تاریخ ممکنہ طورپر ملک کے تاریک ابواب میں ایک اور اضافہ کرجاتی اگر اسلام آباد ہائی کورٹ سے فرار ہوتے وقت پولیس نے سابق صدر پرویز مشرف کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہوتی۔ فوج اپنے سابق سربراہ کے معاملے میں کس قدر دخیل تھی اس کا اندازہ اسلام آبادپولیس کے انسپکٹر جنرل بنی امین خان کے اس استدلال سے ہوتا ہے کہ مسلح کمانڈوز وکلاء کے لباس میں وہاں موجود تھے اورججوں کو حبس بیجا میں رکھنے کے مقدمہ میں جیسے ہی جنرل مشرف کی ضمانت خارج کی گئی، فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز اور 200 رینجرز اہلکار انہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ بنی امین خان کی طرف سے سپریم کورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پرویز مشرف کے اسلام آباد ہائی کورٹ سے فرار کی ذمہ داری رینجزر پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر پولیس مداخلت کرتی تو نوبت رینجرز کے ساتھ تصادم تک پہنچ سکتی تھی۔جنرل مشرف کو گرفتار نہ کرنے پر اپنے خلاف کارروائی کو انسپکٹر جنرل اسلام آباد نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ کورٹ کے 3رکنی بنچ کے سامنے دلائل پیش کرتے ہوئے بنی امین خان کے وکیل عزیز چوہدری نے کل عدالت کو بتایاکہ ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمہ میں جب جنرل مشرف کی ضمانت خارج کی گئی تو فوج کے اسپیشل سروسیز گروپ کے کمانڈوز اور 200 رینجرز اہلکار انہیں اپنے ہمراہ لے گئے۔ وکیل کے مطابق مسلح کمانڈوز وکلاء کے لباس میں عدالت میں موجود تھے۔ ضمانت کی منسوخی کے بعد رینجزر کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے طورپر عدالتی حکم پر علمدرآمد کرنا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس رینجروں نے جنرل مشرف کو وہاں سے نکلنے میں مدد کی۔ بیشتر سیاسی حلقوں میں ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ بظاہر پاکستانی فوج تمام قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ کر جنرل مشرف کو تحفظ دینے پر مامور ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں