اترپردیش حکومت کے طارق قاسمی فیصلے پر مرکز کی مخالفت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-26

اترپردیش حکومت کے طارق قاسمی فیصلے پر مرکز کی مخالفت

اترپردیش کی حکومت نے گورکھپور میں 22مئی 2007ء کو پیش آئے بم دھماکوں کے ملزمین طارق عثمانی کے خلاف مقدمہ سے دستبرداری اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزمین کو رہا کردینے کا یہ یوپی اے حکومت کا پہلا مستحسن اقدام ہے۔ گذشتہ سال برسر اقتدار آنے کے بعد اکھلیش یادو کی حکومت نے بے قصور نوجوانوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سماج وادی کی حکومت وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو اس بات کا مسلسل تیقن دے رہی تھی کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہا کردیا جائے گا۔ آل انڈیا سنی سنی بورڈ کے صدر محمد مشتاق نے یوپی اے حکومت کے اس فیصلہ کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے کہاکہ سماج وادی پارٹی نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ حیرت اور تعجب کی انتہا یہ ہے کہ مملکتی وزیر داخلہ آر پی این سنگھ نے یوپی حکومت کے اس فیصلہ کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کو سیاسی مفاد برادری سے جوڑا نہیں جانا چاہئے۔ یوپی اے حکومت ین اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے گورکھپور بم دھماکہ کے ملزم کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا مقابلہ تمام جماعتوں کو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کرنا چاہئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مرکزکی منموہن سنگھ حکومت نے جو سیکولر اصولوں پر گامزن رہنے کا مسلمہ ریکارڈ رکھتی ہے، بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہا کرنے کابارہا وعدہ کرچکی ہے۔ اس کے باوجود طارق عثمانی کی رہائی پر مملکتی وزیر داخلہ کا ردعمل اس کے دوہرے معیار کو اجاگر کرتا ہے۔ ہندوستان کی تقریباً تمام سیکولر جماعتوں اور مسلم تنظیموں کی نمائندگی پر یوپی اے حکومت نے کئی مرتبہ دعویٰ کیا تھا کہ مسلم نوجوانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ اس کے باوجود برسوں گذر جانے کے باوجود ہزاروں مسلمان ملک کی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ اب جب کہ یوپی حکومت نے صرف ایک نوجوان کے خلاف مقدمہ سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ایک مستحسن اقدام کیا ہے، مرکزی حکومت کی جانب سے اس کی مخالفت بڑی معنی خیز سمجھی جارہی ہے۔ اس کے اس دوہرے رویہ سے کانگریس کے زیر قیادت یوپی اے حکومت کا اصلی چہرہ مسلمانوں میں بے نقاب ہوتا جارہا ہے۔

Centre against the decision of UP govt on Tarqi qasmi case

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں