ملک میں ثالثی کے مراکز کی ضرورت - چیف جسٹس التمش کبیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-15

ملک میں ثالثی کے مراکز کی ضرورت - چیف جسٹس التمش کبیر

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس التمش کبیر نے آج کہاکہ ثالی کے مراکز میں نہ صرف امیروں اور کارپوریٹ گھرانوں بلکہ عام آدمی کے معاملات سے بھی تیزی کے ساتھ نمٹنا چاہئے ۔ ثالی کے مراکز کا مقصد امیروں اور تجارتی گھرانوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے معاملات کی یکسوئی بھی ہے ۔ اس پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کے دوسرے ثالی مرکز کا یہاں افتتاح کرنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ کارپوریٹ گھرانوں کی ضروریات پوری کرتا ہے کیونکہ ہندوستان کے متعدد تجارتی معاملات کی سنگاپور یا ماسکو جیسے بیرونی ثالثی کے مراکز میں یکسوئی کی جا رہی ہے ۔ جسٹس کبیر نے کہاکہ 90-120 دن کے مقررہ وقت میں کیسوں کی یکسوئی اور آخری حدتک ثالث کی فیس کے 8لاکھ آخری حد کے تعین سے یہ مراکز مزید بامعنی بن گئے ہیں ۔ ثالثی کا مرکز ایک ایسی جگہ ہے جہاں عوام کے مقدمات کی تیزی کے ساتھ یکسوئی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سے عدالتوں کا بوجھ کم ہو گا۔ زیر التواء مقدمات کے مسئلہ سے نمٹنے کمے ئلے یکسوئی کے اس طرح کے متبادل میکانزم پر زور دیتے ہوئے چیف جسٹس نے ثالثی مرکز کا تقابل ایک ایسے پریشر کوکر کے حفاظتی وال سے کیا جس میں اگر دال نہ ہوتو دباؤ کے سبب وہ پھٹ جائے گا۔ جسٹس کبیر نے ماتحت اور ہائیکورٹس پر اپنے تجربات کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ خاص طورپر تجارتی مقدمات وقت طلب ہوتے ہیں جب میں پیروی کر رہا تھا تو بعض اوقات اس طرح کے کیسس میں سمن کی واپسی کیلئے 6ماہ یا 2تا3سال کا وقت لگ جاتا تھا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس و سپریم کورٹ ے موجودہ جج جسٹس وکرم جیت سین جنہوں نے یہاں مرکز کے قیام میں اہم رول ادا کیا نے کہاکہ مرکز میں شکایات کی تیزی کے ساتھ یکسوئی پر توجہ مرکوز کی جائے گی جبکہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس ایچ ایل دتو نے قانونی برادری سے اپیل کی کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ مرکز میں عام عوام خاص طورپر نچلے طبقہ کی ضریورات پوری ہوں ۔ کرناٹک ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ڈی ایچ واگھیلا نے اس طرح کے مراکزکو مقبول بنانے پر زور دیتے ہوئے اس مرکز کو جنوبی ایشیاء میں اپنی نوعیت کا منفرد مرکز قرار دیا۔

Arbitration Centre to settle cases out of court - Supreme Court Chief Justice Altamas Kabir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں