سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کا یوم جمہوریہ مشاعرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-11

سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کا یوم جمہوریہ مشاعرہ

آج جہاں درسگاہوں اور خود اردو والوں سے یہ زبان دور ہوتی جا رہی ہے وہیں غزلوں، فلمی گیتوں اور شعر و سخن کی محفلوں نے اسے تا بندہ و درخشندہ بنا دیا ہے چنانچہ ایسی ہی ایک فقید المثال محفل شعر زیر اہتمام یونیورسٹی آف حیدرآباد ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ اور انٹرفیتھ کولیشن فار پیس نئی دہلی بضمن یوم جمہوریہ بتاریخ 26 جنوری بروز ہفتہ بوقت رات دس بجے منعقد ہوئی تھی – اس عظیم الشان مشاعرے کی صدارت ممتاز سخنور وسیم بریلوی نے فرمائی جبکہ جناب ورگس منی ولا ڈائرکٹر ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ پروفیسر رام کشن رام سوامی وائس چانسلر حیدرآباد یونیورسٹی اور پروفیسر سنینا سنگھ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی
جناب ورگس منی ولا نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ مشاعرے قومی اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیا کرتے ہیں پروفیسر رام کرشنن رام سوامی اور پروفیسر سنینا سنگھ کی انگریزی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ اردو زبان میں جو شیرینی ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں ہے جنگ آزادی میں اس زبان کے کلیدی رول کا دونون مقررین نے اعتراف کرتے ہوئے اردو کی ہمہ گیریت کو سراہا
صدر مشاعرہ نے کہا کہ حیدرآباد فرخندہ بنیاد علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور یہاں کہ سامعین مہذب ہوتے ہیں- حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب سے متاثر وسیم بریلوی نے کہا کہ حیدرآباد کے باشندے وراثتون کے امین ہیں-
ڈاکٹر محمد زاہد الحق نے اس بے مثال مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری اپنے سر لی- اور کہا کہ –
کچھ تو ہوتے ہیں محبر میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
ناظم مشاعرہ نے منفرد انداز مین مشاعرے کے آغاز پر نعتیہ غزل کو مدعو کیا-
وہ جو آتا تھاتیرا خط لے کر
وہ کبوتر بڑا سہانا تھا
ناظم مشاعرہ نے مشاعرہ کے بعد شاعر فاروق عارفی کو دعوت سخن دی تو وہ یوں گویا ہوئے
سزا معصوم کو ملتی ہے قاتل چھوت جاتے ہیں
ہمارے دور میں انصاف کس کے ساتھ چلتا ہے
حالات حاضرہ کی عکاسی کرنے والے اس شاعر کو پسند کیا گیا – آپ کے بعد مظہر رضی تشریف لائے –
بڑی سادگی سے پوچھتے ہیں چوٹ کرکے وہ
تمہارے دل کے آئینے مین بال کیسے آگیا
سامعین نے شاعر کی پذیرائی کی – ناظم مشاعرہ نے برجستہ جانثار اختر کا یہ شعر کہا-
اشعار میرے یوں تو زمانے کے لئے ہیں
کچھ شعر فکر تم کو سنانے کے لئے ہیں

طیب پاشاہ قادری حیدرآباد کی نمائندگی کر رہے ہیں- انہوں ہے تحت اللفظ کے بعد ترنم میں شعر سنائے-
زہر دل میں خلوص ہونٹوں پر
نہ رکھو ایسی دوستی مجھ سے
انکے بعد جدید لب و لہجہ کے ممتاز شاعر سردار سلیم نے کہا –
ناخن سے تراشا تھا جہان تو نے میرا نام
ایک خواب سا لمحہ میں اسی ڈال پر رکھ دوں

انہیں اچھی داد ملی اور اب سر زمیں کیفی اعظمی یعنی ممبئی سے تشریف لائے شاعر شکیل اعظمی نے مائک تھاما -
کچھ اسطرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے
بچھڑ بھی جائیں تو ہاتھوں میں ہاتھ رہ جائے

اب اپنے مخصوص ترنم مِیں شاعر فاروق شکیل نے سخن کے موتی یوں لٹائے:
زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی ہم کو مگر
حادثے میں بچ گئے تو زندگی اچھی لگی

سامعین نے شکیل کو پسند کیا- ان کے بعد طنز و مزاح کے مقبول شاعر سید علی بیخود نے یوں پھلجھڑیاں چھوڑیں-
کلچے تیری زندگی پو دل پلتا ہے
بس اک نوالے کی لئے لیتا ہے
کلچے نے کہا اپنے وطن میں بابا
یہ اک نوالہ بھی کسے ملتا ہے

انہیں اچھی داد ملی ، ان کے بعد سنجیدہ شاعر اقبال اشعر {دہلی} کا استقبال کیا گیا - اشعر نے فرمائش پر نطم " اردو ہے میرا نام" پیش کی اور غزل کے چند شعر ترنم مین سنائے –
وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں ایک زمانے سے

اس گل افشانی سے سارا ماحول معطر ہو گیا – ناظم مشاعرہ کی ایماء پر خوش الحان اور منفرد شاعر آغا سروش تشریف لائے – تحت اللفظ کے بعد ترنم کو اپنایا-
کبھی آسمان کی دوکان سے میں خرید لاوں گا چاند ایک
تیری سادگی کے سنگھار کو کوئی آئینہ بھی چاہئیے

ناظم مشاعرہ نے عوام ہ خواص میں مقبول شاعر منظر بھوپالی کے نام کا اعلان کیا تو تالیوں کی گونج سے مشاعرہ گاہ گونج اٹھِی شاعر نے حسب روایت ترنم سے اپنا سکہ جمانے کی کوشش کی –
انکے گھر کے آنگن میں رحمتیں اترتی ہیں
جسکے گھر میں اے منظر بیٹیان بہت سی رہتی ہیں
یاد آجاتی ہے پردیش گئی بہنوں کی
جھنڈ چڑیوں کا جب آنگن میں اتر آتا ہے

منظر نے تواتر کے ساتھ ایسے شعر پیش کئے جن میں عورت کے وجود کی اہمیت واضح تھی – منظر کے بعد سامعِیں نے چہیتے شاعر راحت اندوری کا والہانہ استقبال کیا گیا – راحت اندوری نے عصری مسائل کو شعری پیرہن دیا اور پڑھنے کے مخصوص انداز نے سماں باندھ دیا مزید برآں تا دیر مشاعرے پر چھائے رہنے کی روایت کو باقی رکھتے ہوئے یوں گویا ہوئے :
کٹ گَی ہے عمر ساری ین کی پتھر توڑتے
اب تو ان ہاتھوں میں کوہِ نور ہونا چاہئے
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے
اے موت تونے مجھ کو زمیندار کر دیا
میرے ہجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو، لے آؤ زمین پر رکھ دو

سامعین سے کھچا کھچ ہال اور خاص خنکی پر راحت اندوری کی شعری حلاوت اس حد تک اثر انداز ہو چلی تھی کہ وقت کے گزرنے کا احساس ہی باقی نہ رہا-
راحت اندوری کا رنگ دیکھئے
جس دن سے تم روٹھی ہو
مجھ سے روٹھے َ روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ ، بستر وستر سب
مجھ سے بچھڑکر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑگئے کپرے وپرے زیور ویور سب
راحت اندوری کو بہت پسند کیا گیا -

ماہرین غالبیات و اقبالیات مضطر مجاز نے اپنے سخن سے عطر بیزی کی –
کیا تھا وہ اور دیکھنے والوں کو کیا لگا
میں بے جو کچھ کیا تو سبھی کو برا لگا
وہ چند ہی شعر پر اکتفا کرکے لوٹ گئے – اب ناظم مشاعرہ صدر مشاعرہ ڈاکٹر وسیم بریلوی سے ملتمس تھے- وسیم بریلوی نے تحت اللفظ کے بعد چند شعر ترنم میں بھی سنائے-
ذرا لڑنے کی دل میں ٹھان لی
تو بڑا خطرہ ذرا سا ہوگیا ہے
بڑھی تو ہے گلی کوچوں کی رونق
مگر انسان تنہا ہو گیا ہے

غزل کو اشاروں کی زبان بھی کہا گیا ہے- دہلی میں پیش آئے واقعہ کو ڈاکٹر وسیم نے یوں شعری پیرہن دیا-
گونگی زمین تڑپی تڑپتی رہی مگر
بادل نے اپنی پیاس بجھا کر ہی دم لیا
مجھے اس پار اترجانے کی جلدی کچھ ایسی تھی
کہ جو کشتی ملی اس پر بھروسہ کرلیا میں نے

اس مشاعرہ کے اکثر سامعیں شعری ذوق کے حامل تھے اسکے باوجود بھی واقعی فکر و گہرائی رکھنے والے سخنورہں کی بینائی ان کی نظر میں سما نہ سکی – بہر کیف مشاعرے ہماری تہذیب اور ہمارے اقدار کے پاسبان ہوتے ہین اور ایسے اجتماعات کے وسیلے سے اردو سانس لیتی ہوئِی دکھائی دیتی ہے- ناظم مشاعرہ نے نہایت خوش اسلوبی اور اشعار کی وساطت سے مشاعرے کو کامیابی سے ہمکنار کیا- باالخصوص شعراء کے تعارف مین غیر جانبدار رہے-
بقول ناصر کاظمی کے طاؤس بولتے ہوں تو جنگل ہرا بھی ہواور وہاں طاؤس اور جنگل دونوں ہی اپنے اپنے رنگ میں نظر آرہے تھے – صبح ساڑھے تین بجے یہ خوشگوار مشاعرہ اختتام کو پہنچا۔

Republic day mushaira at central university hyderabad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں