صدر مرسی کے اسلام پسند دستور کو بھاری اکثریت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2012-12-26

صدر مرسی کے اسلام پسند دستور کو بھاری اکثریت

مصر نے منگل کو اعلان کیا کہ رائے دہندوں نے صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حلیفوں کی جانب سے تیار کردہ دستور کو زبردست اکثریت سے منظوری دیدی ۔ اب حکومت نے کرنسی تحدیدات عائد کر دی ہیں تاکہ معاشی بحران سے نمٹا جاسکے جو کوئی ہفتوں کی بدامنی کی وجہہ سے ابتر ہوچلا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے قطعی اعداد شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ دستور کو 66.8 فیصد و وٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔ جس کے ساتھ اسلام پسندوں کو چناؤ میں لگاتا تیسری فتح حاصل ہوئی جو 2011 کے انقلاب میں حسنی مبارک کی معزولی کے بعد سے درج ہوئیں ۔ مرسی کے بائیں بازو والوں لبرل، سیکولرسٹ اور عیسائی حریفوں نے اس قدم کو روکنے کیلئے سڑکوں پر احتجاج کیا کیونکہ ان کا استدلال رہا کہ یہ ایسا چارٹر ہے جو سیاست اور مذہب کو خطرناک طورپر خلط ملط کرتا ہے ۔ صدر کا استدلال ہے کہ نیا دستور اقلیتوں کیلئے معقول تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسے جلد منظوری ضروری ہے تاکہ ملک میں دو سال سے جاری ہڑبونگ اور سیاسی غیر یقینی کیفیت کا خاتمہ ہو جائے ۔ جس نے معیشت کو تباہ کر رکھا ہے ۔ انتخابی نتائج کے اعلان سے چند گھنٹے پیشتر حکام نے بیرونی کرنسی میں زائد از10,000 ڈالر کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک سفر پر نیا امتناع عائد کر دیا۔ جواصل سرمایہ کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے کیا گیا اقدام ہے ۔ بعض مصریوں نے مزید سخت تحدیدات کے اندیشے سے بینکوں سے اپنی بچت کی رقومات نکالنا شروع کر دی ہیں ۔ "ہاں " والے و وٹ نے تقریباً دو ماہ میں پارلیمانی انتخابات کی راہ فراہم کی ہے ۔ جس سے تیزی سے ابھرتے اسلام پسندوں اور ان کے مخالف لبرل اور لفٹنٹ حریفوں کے درمیان ایک اور انتخابی لڑائی کا ماحول تیار ہورہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ قطعی نتیجہ قبل ازیں مرسی کے اخوان المسلمون کی جانب سے معلنہ غیر سرکاری اعداد وشمار سے بڑی حدتک میل کھاتا ہے ۔ یہ دستور ایسے ادارے کی جانب سے ترتیب دیا گیا جس میں زیادہ تر مرسی کے اسلام پسند حریف شامل ہیں ۔ نتائج کا اعلان اپوزیشن کیلئے مایوس کن ہے جس نے حکام پر و وٹوں کی دوبارہ گنتی کے لئے دباؤ ڈالا تھا کیونکہ انہوں نے رائے دہی میں بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے تھے ۔ اعلیٰ ترین انتخابی کمیٹی کے جج سمیرابو الماطیع نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ہم نے تمام شکایات کی سنجیدگی سے تحقیقات کی ہے ۔ قطعی سرکاری رائے دہی 32.9 فیصد ہے ۔ قاہرہ جو رائے دہی سے قبل اکثر پرتشدد احتجاجوں میں گھرا رہا نتیجہ کے اعلان کے بعد بظاہر پرسکون دکھائی دیا اور اپوزیشن گروپوں نے اس نتیجہ پر مظاہروں کے کوئی منصوبوں کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ اپوزیشن کے ترجمان خالد داؤد نے کہا کہ یہ نتائج اس قدرعجیب ہیں اور تناسنی نشانات میں کوئی تبدیلی نہ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری شکایات پر کچھ بھی اقدام نہیں کیا گیا۔ 15اور 22دسمبر کو منعقدہ ریفرنڈم نے عرب دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی قوم میں گہری دراڑکے بیچ بودئیے لیکن مرسی کا کہنا ہے کہ نئے دستور کو لا کر تیزی سے لاگو کرنے پر استحکام آئے گا اور معیشت میں اچھال کا موقع دستیاب ہو گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں