الفاظ کا مزاج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-20

الفاظ کا مزاج

urdu-words
گزشتہ دنوں غلام ربانی مرحوم ( 1888تا 1976 ء) کی ایک کتاب "الفاظ کا مزاج" ہمارے ہاتھ لگی۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک دلچسپ اور علمی نوعیت کی حامل تصنیف ہے۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔
(ندیم صدیقی، ممبئی)

زبان اپنے وسیع معنی میں خیالات ظاہر کرنے کاذریعہ ہے۔ جانوروں کی چیخیں بھی ایک حد تک زبان کہی جاسکتی ہیںبشرطیکہ ان کے دل کی حالت ظاہر کریں۔

الفاظ بامعنی آواز یں ہیں۔ چرند اور پرند بھی ایسی آوازیں نکالتے ہیںجن کے معنی ہوتے ہیں۔ وہ خوف ظاہر کرتے ہیں۔ خوشی اور خواہش بھی ظاہر کرسکتے ہیں مگراپنے خیالات ظاہر نہیں کرسکتے۔جانداروںمیں ایک انسان ہی ہے جو کچھ محسوس کرتا اور سوچتا ہے ، اس کوبیان بھی کرسکتا ہے۔ زبان وہ چیز ہے جس پر تمام انسانی تعلقات قائم ہیں۔ یہ الفاظ سے بنتی ہے اور الفاظ سانچے ہیںجن میں خیالات ڈھلتے ہیں۔ چنانچہ ہر لفظ جوکسی چیز کیلئے بنتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی خیال لپٹا ہوتاہے۔

الفاظ ، اینٹ اور پتھر کی طرح بے جان نہیں ہوتے۔ یہ جانداروں کی طرح پیدا ہوتے ہیں ، بڑھتے اورمَرجاتے ہیں۔ ا ن میں شریف بھی ہوتے ہیں اور رذِیل بھی۔ سخت بھی ہوتے ہیں اورنرم بھی۔ کسی میں شہدکی سی مٹھاس ہوتی ہے اور کوئی کڑوا ہوتاہے۔ کسی میں ترنم ہوتا ہے اور کوئی چٹان کا روڑا ہوتاہے۔ ان میں سادگی بھی ہے اورپُرکاری بھی۔ انکسار بھی ہے اور شان وشکوہ بھی۔ یہ سفر بھی کرتے ہیں اور ایک ملک سے دو سرے ملک میں اس طرح پہنچ جاتے ہیں جیسے کوئی اپنی جاگیر میںپہنچ جائے۔ لیکن سفر کی تکان اور زمانے کی گرد سے ان کا رنگ روپ بدل جاتا ہے اور پردیسی الفاظ میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ ان کا پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے اور بعض وقت تو ان کے مزاج میں بھی فرق آجاتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ خواہ کسی حالت میں ہوں سننے والے کو اپنی بیتی سناتے ہیں۔ آج کل کا ماہرآثار قدیمہ کسی تہذیب کا پتہ لگانا چاہتا ہے تو وہ پرانی کتابوں ہی پر تکیہ نہیں کرتا۔ اس کیلئے وہ زمین کھودتا ہے اور پھر ان سے سکے ، کتبے ، ہتھیار ،مِٹّی کی مورتیں ، منکے ، اینٹیں ، ہانڈیاں ، ٹھیکرے ، مُردوںکی کھوپڑیاں وغیرہ بہت سی چیزیں برآمد کرتا ہے اور ان چیزوں کے مطالعے سے نتیجے نکالتا اور تاریخ مرتب کرتاہے۔ زمین کی طرح زبان بھی پرانے خزانوں سے مالا ل ہے۔ اگر زبان کو کریدا جائے تو اس میں بے شمار ایسے الفاظ نکلتے ہیںجو قدیم لوگوں کے خیالات ، جذبات ان کے کارناموں اور ان کی معاشرت کو اُجاگر کردیتے ہیں۔ تصویر کی طرح الفاظ کی بھی زبان ہوتی ہے وہ بولتے ہیں، سننے والے کو اپنی بیتی سناتے اورہزاروں برس کے علمی اور اخلاقی واقعے سامنے رکھ دیتے ہیں۔

'شاہ' ہزاروں برس پرانا لفظ ہے۔ یہ اس وقت کی یاد دلاِتا ہے جب ایران میں لوگ جنگلی جانوروں کو مار کر ان کے سینگ سروں پر لگاتے تھے اور یہ سینگ بہادری اور سرداری کانشان سمجھے جاتے تھے ، جب لوگ کسی کے سرپر سینگ یا ، شاخ ، دیکھتے تو اس کو سردار سمجھتے اور" شاخ "کہتے تھے۔یہی "شاخ"کا لفظ رفتہ رفتہ " شاہ"بن گیا۔

'زندان ' قدیم زمانے میں جب کوئی بادشاہ جنگ میں فتح پاتا تو شکست کھانے والی فوج کو تہس نہس کردِیاجاتا تھا اور جو قیدی ہاتھ لگتے ان کو بھی قتل کردیا جاتا تھا۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ دُشمن کا کوئی سپاہی زندہ نہ بچے۔آخر ایک زما نہ آیا انسانی ہمدردی کو جنبش ہوئی۔ چنانچہ قیدیوں کی زندگی بخش دی جاتی تھی اور ان کو ہمیشہ کیلئے زندان میں ڈال دیا جاتا تھا۔ زندان زندگی سے ہے اور اس میں عمر قید کا مفہوم ہے۔
دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسد
جانتے ہیں سینۂ پرخوں کو زنداں خانہ ہم
(غالب)

" استاد" حضرت زرتشت کی مرقومات کا مجموعہ "اوستا" ہے۔ مذہبی کتابوں کے سمجھنے اور سمجھانے کیلئے خاصی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے پھر ' اوستا' نہایت ہی قدیم ایرانی زبان میں تھی جس کو سمجھنے والے کم تھے ، چنانچہ جو حضرات اوستا کے ماہر ہوتے ان کو استاد کہاجانے لگا۔ اُستاد بڑی عزت اوروقار کا لفظ ہے۔ لیکن جوں جوں زمانہ گزرتاگیا اس کارُتبہ کم ہوتا گیا۔ یہ لفظ پروفیسر کیلئے موزوں تھا۔ مگر بعد میں ہر فن کے ماہر کیلئے اُستاد کہنے لگے۔ یہاں تک کہ سارنگیے کا نام بھی اُستاد جی ہوگیا ہے اور اب یہ لفظ چالاک اورچلتے پرزے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے۔

"سوئمبر" سنسکرت میں " سوئم " خود اور 'بر' شوہر ہے جس کا مطلب شوہر خود انتخاب کرنا۔آج کل لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کوپسند کیا جاتا ہے اور بعض اوقات منگنی کے بعد بھی کسی وجہ سے بات توڑ دی جاتی ہے۔سوئمبر کا لفظ اس زمانے کی یاد دِلاتاہے جب لڑکی بھری سبھامیں خود شوہر انتخاب کرتی تھی اور ماں باپ یا کوئی اور کچھ نہیں کرسکتے تھے۔

اس قسم کے الفاظ کی بھی کمی نہیں جو اِبتدا میں بہت اچھے معنوں میں استعمال ہوتے تھے مگر پردیس جاکر اپنی عزت کھو بیٹھے۔ خلیفہ آنحضرت کے جانشین کا لقب تھا۔ پھر اولیا کرام کے جانشینوں کو بھی خلیفہ کہنے لگے۔ ہوتے ہوتے درس دینے والی ملانی جی کے بچوں کو بھی خلیفہ کہاجانے لگا۔ یہاں تک تو مضائقہ نہ تھا مگر اس کا کیا علاج کہ اب حجام کو بھی خلیفہ کہتے ہیں۔ملا دو پیازہ کی طرح مولانا حالی نے بھی ایک النامہ لکھاتھا جس میں " المذہب" کو اعلان جنگ لکھا ہے۔ مذہب کے نام جو کشت وخون ہوتے ہیں وہ ابھی کم نہیں ہوئے۔خون خرابہ کے علاوہ مذہب میں زبانی جنگیں بھی بہت ہوئی ہیں اور ان سے بہت سے الفاظ پیدا ہوئے ہیں ، توحید ، تنویث، تثلیث ، جبریہ ، قدریہ ، ناستک ، نیچریا دہریا ، معتزلہ ، مقلد ، غیر مقلد ، اہلِ حدیث وغیرہ میں مختلف عقیدے سے جھلکتے ہیں۔ مذہبی اختلافات نے اور بھی گل کھلائے ہیں۔

بدھو۔ بدھی سے ہے جس کے معنی عقل و دانش ہیں۔ اس لئے بدّھو کے معنی دانش مند ہوئے۔ گوتم کا لقب بھی بودھ تھا۔ ملک میں جب بدھ مت کو فتح ہوئی تو دوسرے مذہب کے لوگوں کو ان کا عروج ناگوار گزارا اور اُنہوں نے بدھ مذہب کے پیردوں کوطنز کے طور بدّھو کہنا شروع کیا۔ کہنے کو تو بدّھو کہتے تھے مگر دل میں ان کو بے وقوف سمجھتے تھے۔آخر دل کی بات ہوکر رہی اور بدّھو جو کسی زمانے میں دانش مند تھا اب بے وقوف یا احمق بن کر رہ گیا۔

Mood of the words. Article: Ghulam Rabbani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں