حیدرآباد کا ذوق طعام اور مہمان نوازی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-21

حیدرآباد کا ذوق طعام اور مہمان نوازی

ایک نسل کے بعد دوسری نسل ہو بہو پچھلی نسل کے مطابق نہیں ہوتی بلکہ قدرے تیزگام ہوتی ہے ۔ یہ دراصل ایک نظام فطرت بھی ہے کہ ہر نسل اپنے عہد کیلئے پیدا ہوتی ہے اور وہ عہد ساز بھی ہوتی ہے ۔ زمانہ ترقی کی راہوں میں ہے ہرآن ایک تحقیق جدید ، ایک نئی ایجاد سے انسان بہرہ ور ہورہا ہے ۔ میں ترقی کے خلاف نہیں ہوں بلکہ بڑی حد تک ترقی پسند ہوں ۔ لیکن عجیب بات یہ ہیکہ "ترقی" اگر صرف لفظ ہوتا تو کوئی بات بھی نہیں تھی لیکن جب سے اس لفظ ، ترقی نے استعارہ کی صورت اختیار کرلی ہے وہیں سے نت نئے مسائل کا بھی آغاز ہے ۔ آپ یقیناً اتفاق کریں گے کہ وقت کی تیز رفتاری نے زمینی فاصلوں کو کم کردیا ، یا یوں کہوں کہ کائنات سمٹتی جارہی ہے ۔ انسان اب دیگر سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ کسی زمانے میں اگر انسان ایک گھنٹے میں چار میل پیدل سفر کے قابل تھا اور اگر وقت کو اکائی بنا کر آٹھ گھنٹوں کا حساب کرلیا جائے تو فاصلہ 32 میل قرار پاتا ہے ۔ اگر حیدرآباد سے لندن کا سفر آٹھ گھنٹوں میں طے ہورہا ہو بلکہ آواز کی رفتار سے زیادہ تیز پرواز کرنے والے طیارے اس سے بھی کچھ کم وقت میں یہ فاصلہ طئے کرتے ہوں تب تو زمین کی سرحدیں سمٹی سمٹی سی نظر آتی ہیں ۔ اس صبا رفتاری نے پنکھ لگادئے ۔ مواصلاتی نظام کی ترقی ہزاروں میل دور کے منظر آن واحد میں ، دنیا بھر کی نگاہوں میں ہیں ۔ سینکڑوں سیٹلائیٹ مدار میں گردش کررہے ہیں کہ پرندہ پنکھ مارے تو خبر ہوجائے ۔ یہ ترقی مبارک ہو ، کئی دن سے میں مسلسل اپنے بیٹوں اور پوتوں سے دریافت کررہا ہوں کہ "بیٹا اس طیارے کی کوئی خبر ملی جس میں 240 مسافر سفر کررہے تھے ؟" تو وہ مجھے جواب نہیں دے رہے ہیں ۔ شاید وہ مجھے اس لئے جواب نہیں دینا چاہتے کہ میں ٹہرا پرانے زمانے کا آدمی اپنے دور میں ہم بزرگوں کے آگے آنکھیں نیچی رکھا کرتے تھے ۔ اسی پاس و لحاظ کی خاطر شاید ان کی بھی نظریں نیچی ہیں ورنہ کون ترقی سے انکار کرسکتا ہے ۔
میں نہ فلسفی ہوں ، نہ مورخ میں تو صرف ایک عام سا انسان ہوں کہ یادوں کے کھنڈر سے جو کچھ برآمد ہورہا ہے سوچا اسے تحریر کی صورت طاق ہی میں سجادوں کہ "شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد" ۔ حیدرآباد کی تہذیب مختلف طبقات کی اہم آہنگی کی وجہ سے گنگا جمنی رواج پاگئی جو اس زمین کو چمن زار بناگئی ۔ ہر تہذیب پر اس خطہ کی آب و ہوا کا اثر رہتا ہے سو دکن کی تہذیب پر بھی تھا۔ اس زمانے میں خاندان بٹے ہوئے نہ تھے ۔ آج اپنوں سے کوئی ناطہ نہیں ، کل پرائے بھی اپنے تھے ۔ حیدرآباد سدا کا مہمان نواز واقع ہوا ہے ۔ پہلے مہمان آتے تو گھنٹہ دو گھنٹے ، دن دو دن کے نہیں بلکہ ہفتوں اور مہینوں کے مہمان ہوتے ۔ گھر کا نپا تلا اناج سہی لیکن مہمان تو مہمان ہے ، میزبان کا تھوڑئی کھاتا ہے ، اپنا رزق آپ لے کر آتا ہے اور ساتھ میں رحمتیں اور برکتیں بھی ۔ جانے راتوں رات وہ کونسے ہاتھ تھے جو مہمانوں کی تواضع کیلئے میزبان کا گھر بھردیتے تھے کہ یہ احساس ہی نہ ہوتا کہ گھر میں کوئی غیر بھی ہے ۔ مرد دیوان خانوں اور اپنی بیٹھکوں میں محفل سجائے کبھی یاد ماضی میں گم تو کبھی ہنسی مذاق میں ۔ ایام گذشتہ کے تذکرے اور ان تذکروں میں کبھی چپکے سے بیتے ہوئے ایام کی یاد چاند تاروں کی عماری پہ سجی آتی تو نہ جانے کونسا چہرہ ، فیروزی ، گلابی ، دہانی ہلکا ململ کا ڈوپٹہ سر پر ڈالے کہ ڈوپٹہ سر پر رہتا ، لیکن زلف رخسار پر جھولتی، لمحہ بھر کے لئے تصور میں ایک چھبی سی دکھلا کر گذر جاتا اور چپ سی لگ جاتی تو اس لمحہ کی چپ سے نہ جانے کیسے کمرہ کے در و دیوار روشن نظر آتے ، جیسے لمحہ بھر کیلئے چراغاں ہوگیا ہو یا شب برات کی مھتابیاں چھوٹ کر خاموش ہوگئی ہوں ۔ خواتین کی محفل الگ ہوتی ۔ مہمان کو رخصت کرتے کرتے آنکھ تو ہمیشہ بھر آتی ۔ حیدرآباد میں ہمیشہ ہی مہمان گھر سے ، رخصت تو ہوتے لیکن دل میں بستے تو ہمیشہ کیلئے یوں بس جاتے جیسے خالی مکان کو گھر بنا کر آباد کردیا ہو ۔
حیدرآباد کی غذائیں اور یہاں خورد و نوش کا اہتمام جداگانہ تھا ۔ خورد ونوش کی تہذیب میں ذائقے کا بڑا دخل ہے ۔ مہاراجہ بنارس کی رسوئی میں 58 اقسام کے پکوان ہوا کرتے تھے اور نوش فرمانے کی تہذیب یہ تھی کہ مہاراجہ بند کمرے میں تنہا تناول فرمایا کرتے تھے ۔ حتی کہ مہارانی صاحبہ بھی اس طعام میں شریک نہ ہوا کرتی تھیں کہ تناول فرمانا مہاراجہ کا شخصی فعل تھا اور اس شخصی فعل کو دیکھنا معیوب تھا ۔
hyderabad biryani
مہاراجکمار محمود آباد کا ذوق طعام کچھ اور وسیع تھا ، ان کے مطبخ میں 102اقسام کے پکوان تیار ہوتے تھے ۔ نواب صاحب بھوپال کب کسی سے کم تھے ۔ ان کے خانساماں نے نت نئے تجربوں کے ساتھ خوش ذائقہ ، خوش رنگ اور خوشبودار پکوانوں کی فہرست کو 148 پکوانوں تک پہنچایا ۔ یہ سب ریاستیں رہیں یہاں رئیس تھے ، راجہ مہاراجہ تھے ، لیکن بقول پروفیسر آغا حیدر حسن ، حیدرآباد مدینتہ الامراء تھا کوئی کنگال نگر نہیں یہاں تو چیز کا مول تھا کوئی اندھیر نگری نہیں تھی کہ ٹکے سیر بھاجی اور ٹکے سیر کھاجا ہو۔
ناشتے میں نان ورقی ، نان پنیری ، مونگ کی کھچڑی، چرونجی کی کھچڑی ، انڈے نیم برشت ، گردہ پالک ، نہاری ، پایہ زبان ، قیمہ ، اچار ، پاپڑ ، پھریری ماش کی دال ، تِل اور پودینے کی چٹنی ، مسور کی کھڑی دال تو ایسی کہ ترشے ہوئے پکھراج ، اسی لئے تو مثل مشہور ہوئی کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔ البتہ مونگ کی دال کا رواج نہ تھا کہ یہ پرہیزی کھانوں میں استعمال ہوتی تھی ۔ کباب تو صدیوں سے رائج ہیں لیکن حیدرآباد کی پسند ، ٹٹی کے کباب ، کباب بازاری ، طاس کباب ، برق کباب ، کباب چالکی ، کباب گولر ، جگر کباب ، کباب خطائی ، کباب اکبری ، پتھر کا گوشت ، شامی کباب ، شکمپور ، پسندہ کباب ، پتیلی کباب ، چاپ کباب ، کباب گورک ، کباب ماہی ، کباب ماہی سالم (گل دم) جھینگوں کے کباب ، مرغ مسلم ، بھیڑ مسلم ، سالم ران بھونی ہوئی بہت پسندیدہ تھے ۔ حیدرآبادی سالن اپنے ذائقے میں منفرد تھے ۔ خاص طور پر آصفیہ دوپیازہ ، آسمان جاہی دوپیازہ ، بھنا گوشت ، گردہ سینہ مغلئی ، کلیجی کا سالن ، اچاری گوشت ، ہری مرچ کا دوپیازہ ، کوفتہ ، آلو کا قورمہ ، سہ منی قورمہ ، شب دیگ شلغم ، مرغ کا قورمہ ، مرغ مغلئی ، ماہی قلیہ آصفجاہی ، ماہی قلیہ آسمان جاہی ، چمکورہ کا قلیہ ، چُگر گوشت ، بھنڈی گوشت ، بھنڈی کا قلیہ ، قیمہ آسمان جاہی ، مچھلی کا قورمہ ، مچھلی تلی ہوئی ، مچھلی کے کوفتے ، جھینگے کا سالن ، انڈوں کا خاگینہ ، خاگینہ سبزی ، مشہور عالم بگھارے بیگن ، پچمڑہ ، مٹر پنیر ، ملونی ترکاری ، دال گوشت ، کچی املی کا دالچہ ، ارہر کی دال محبوب پسند ، دم کی دال آسمان جاہی ، ٹماٹر کا کٹ ، کچے گوشت کے کوفتوں اور ابلے انڈوں کے ساتھ بورانی ، رائتہ آلو ۔ بریانی تو تھی ہی حیدرآباد پر تمام ۔ بقول پروفیسر آغا حیدر حسن مرحوم "بریانی ہے اس شہر پرتمام کہ جیسا ذائقہ یہاں کے الٹے ہاتھ کے پکائے میں آوے سو کسی اور شہر کے دہنے ہاتھ کے پکائے میں نہ آئے" ۔ سو حیدرآباد میں کئی اقسام کی بریانی کا رواج تھا مثلاً رومی بریانی ، خام بریانی ، دلہن بریانی ، بریانی دوپیازہ ، مجبوبی بریانی ، شانہ بریانی ، مرغ بریانی ، مچھلی بریانی ان کے علاوہ قبولی اور ترکاری کی بریانی کا ذائقہ اور تھا۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن مٹی کے ہانڈی میں پکی کھٹی دال جس پر رائی زیرہ سرخ مرچ کا تڑکہ دیا جاتا تو محلہ محلہ بگھار کی خوشبو پھیل جاتی ۔ کرڑ کا تیل اور مونگ پھلی کا تیل صرف بگھارے بیگن اور اچار میں استعمال ہوتا تھا ۔ انباڑے کی بھاجی اور اسکے ہم وزن ہری مرچ پاؤ بھر لہسن نہ ہو تو دوپہر کے کھانے کا ذائقہ کیا ! یہ نہیں کہ اہل حیدرآباد کو میٹھا پسند نہ تھا لیکن مٹھائیوں میں یہاں پسند محدود تھی ۔ شمالی ہندوستان اور بنگال جیسی مٹھائی کی بہت زیادہ خواہش یہاں نہیں رہی ۔
نواب مسلم جنگ حیدرآباد کے امراء میں گذرے ہیں ۔ افضل گنج کے پُل اور پرانے پُل کے بیچ مسلم جنگ کا پُل انہی کا تعمیر کردہ ہے اور ان ہی کے نام سے موسوم ہے ۔ انہوں نے میر محبوب علی خان آصف سادس کی خدمت میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مسلم جنگ کے گھر کو زینت بخشیں اور خاصہ ملاحظہ فرمائیں ۔ بارگاہ خسروی میں درخواست منظور ہوئی اور تاریخ دیدی گئی ۔ مسلم جنگ کی یہ خواہش تھی کہ ایسا نہ ہو بادشاہ سلامت کسی مخصوص پکوان کی فرمائش کریں اور وہ دسترخوان پر موجود نہ ہو ۔ انہوں نے ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے ماہر طباخ بلوائے ، منتخب خانساماں حاضر ہوئے اور 1428 پکوان کی فہرست ترتیب پاچکی اور تیاری شروع ہوئی۔ شہر کے تمام رئیس ، امراء ، دولہ ، جنگ، ریذیڈنٹ بہادر ، مصاحبین شاہ ، عہدیداران اعلی سب مدعو ہوئے حسب مراتب نشستوں کا اہتمام ہوا۔ بادشاہ سلامت طعام گاہ میں اپنی کرسی پر تشریف فرما ہوئے ۔ ہم نشین اجازت پا کر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے ۔ مسلم جنگ دست بستہ پہلو میں کھڑے ہوئے ۔ نہایت عجز و انکسار سے تشریف آوری اور اپنی قسمت پر ناز کا تذکرہ کرکے کہا "حضور والا کی اجازت ہو تو ماحضر پیش ہو ۔ ویسے اس بندہ عاجز کی کیا اوقات کہ سرکار کے ذوق طعام کی تیاری کرسکے جو کچھ ممکن ہوسکا سو حسب بضاعت حاضر ہے ۔ حضور ارشاد فرمائیں کہ خدمت عالی میں کیا پیش کیا جائے ۔ فدوی حاضر خدمت ہیکہ ایک ادنیٰ ملازم کی حیثیت سے سرکار کی خدمت میں حسب ارشاد پیش کرے" ۔ میر محبوب علی خاں نے کہا "مسلم جنگ ! تم نے بہت زیادہ تکلفات سے ہماری دعوت کا اہتمام کیا ہے" ۔ مسلم جنگ نے کہا "حضور کے شایان شان تو نہیں اس خیال سے کہ شاید حضور کچھ ملاحظہ فرمائیں اور پسندیدہ خاطر ہوجائے تو آبرو رہ جائے گی ۔ اس خیال سے کچھ ذائقے تیار ہیں ۔ سرکار کے مطبخ کی شان کے مطابق نہیں اس نمک حلال کے مقدور بھر ہے ۔ ارشاد ہو تو تعمیل کی جائے گی" ۔ میر محبوب علی خان کے لبوں پر تبسم کی لکیر آئی پھر کہا "کچھ زیادہ نہیں صرف تھوڑا سا چاکنہ اور کلچہ ہم پسند کریں گے" ۔ مسلم جنگ کا چہرہ سفید پڑگیا ۔ 1428 پکوانوں میں چاکنہ شامل نہیں تھا ۔ محبوب علی خان صورتحال کو بھانپ گئے اور کہا "اچھا رہنے دو ! تم اپنی پسند سے کوئی چیز کھلوادو" ۔ جب میز پر قابیں سج گئیں تو چرونجی کی کھچڑی آہستہ آہستہ کھاتے رہے کہ حاضرین سیر ہوجائیں ۔ اس دن سے آج تک حیدرآباد کی نہاری اور حیدرآباد کا "چاکنہ" مشہور ہے ۔
سہ پہر کو چاکنہ والیاں نک چک سے درست ، سوتی خوش رنگ ساڑی کا پلو کس کر کمر میں اڑسے ہوئے سر پر چاکنے کی ہانڈی اور ٹوکری میں تازہ کلچے لئے دیوڑھی پر آواز دیتی تھی ۔ بادام کے پتوں سے بنے ہوئے کٹوروں میں حسب فرمائش چاکنہ نکال کر اوپر تلے کلچہ ڈہک کر پیش کردیتی اور جو ختم ہونے کے قریب ہوتا تو کٹورہ اور آگے رکھ دیتی ۔ کوئی حساب تھوڑئی ہوتا تھا ۔ دست پر عطا جانتا تھا کہ کیا دینا ہے اور کتنا دینا ہے ۔ اور وہ کم ظرف بھی اتنی اعلی ظرف کہ لے کر گنتی کب تھی بس مٹھی بند کرکے تھیلی میں ڈال لیا کرتی تھی کہ دینے والے کا بھی بھرم رہ جائے ۔ دینے والے کا ہاتھ تو ہمیشہ ہی دیتا ہے اس میں مول تول کیسا ۔ بس یہ خیال تھا کہ جس چاکنے کی چاٹ لگی ہے وہ چھوٹنے نہ پائے ۔ وہ کھلا کر خوش ہوتی تھی تو یہ دے کر خؤش ہوتے تھے ۔
میں ٹہرا زبان کا چٹورہ جب تک بیوی زندہ تھی زبان کے چٹخارے بھی تھے ۔ اب میرا بیٹا کھانے کی میز پر چٹخارہ لے کرکھاتا ہے اور وہی کھانا مجھے پھیکا پھیکا سا لگتا ہے تو سوچتا ہوں چٹخارہ ہاتھ میں ہوتا ہے کہ کھانے میں ۔ کھانا سادہ ہو یا پُرتکلف لیکن اس زمانے میں دسترخوان دالان ہی میں بچھایا جاتا تھا ۔ بچے بزرگ سب دسترخوان پر اطراف میں بیٹھ جاتے ۔ گھر کے بزرگ اپنے ہاتھ سے سب کو پہلے کچھ نہ کچھ ڈالتے جاتے اور آخر میں اپنی پلیٹ میں کھانا لیتے جب تک بزرگ کھانا نہ شروع کریں سب ہاتھ روکے رہتے اور جونہی بزرگ نے کہا "بسم اللہ" سب نے بسم اللہ کہہ کر لقمہ توڑا اور خیر و برکت ایسی کہ سب شکم سیر ہو کر کھائیں ۔ دروازے سے سائل مایوس نہ جائے ۔ پھر بھی دسترخوان پر گرا پڑا سمیٹ کر آنگن کے کسی گوشے میں جھٹک دیا جاتا تاکہ کوے ، چڑیاں ، پرندے اپنا اپنا رزق پالیں تو چیونٹیاں مکوڑے بھی رزق کی تقسیم میں اپنا حصہ پالیں کہ پروردگار نہ جانے کس کس کی قسمت کا رزق کس گھر میں نازل کرتا ہے ۔ جب سے دسترخوان کی جگہ ڈائننگ ٹیبل آگئے اور بچا ہوا کھانا پلاسٹک کی تھیلیوں میں کوڑے دان کی نذر ہونے لگا ۔ چڑیوں اور پرندوں نے بھی شہر سے ہجرت کرلی کہ بے اماں زمینوں پر جہاں انسان ،انسان کو کاٹ کھارہا ہے ، وہاں رہنا بھی تو کیا رہنا ، جس انسان کے گھر میں اس کے خون کے رشتوں کو رہنے کی جگہ نہ رہی وہاں چڑیوں کو گھونسلے کی جگہ کہاں ۔ پوپھٹنے سے پہلے نہ چڑیوں کی چہچہاہٹ ہے نہ کوے کی کائیں کائیں ۔ اب مہمان کے آنے کی اطلاع کوے منڈیر پر نہیں دیتے ۔ پہلے آنگن تھا تو منڈیر بھی تھی ۔ اب ہمہ منزلہ عمارتوں میں انسان کو خود کے گھر کا پتہ مشکل سے ملتا ہے تو کوا بے چارہ کس کے گھر مہمان کے آنے کی اطلاع دے اور مہمان کے آنے کا بھروسہ بھی کیا ! پہلے ٹیلیفون پر آنے کی اجازت لی جائے ، پھر وقت مقرر کیا جائے ، ڈرائنگ روم میں چائے کے لوازمات کے ساتھ Sugar free کی شیشی بھی موجود ہو کہ مہمان کو زحمت نہ ہو ۔ روکھی پھیکی چیزیں کہ نمک بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے ۔ چکنائی Cholesterol کا باعث ہے ۔ تواضع میں مہمان کے لئے ان چیزوں کا خیال تو رکھنا ہے ۔ آخر کو ترقی یافتہ دور ہے ۔ وہ ایک دور تھا کہ نظام دکن کیلئے بم رُکن الدولہ سے مٹی کے گھڑوں میں مہربند کرکے پانی آتا تھا ۔ اور گھر گھر بہشتی چمڑے کی مشک اورڈول سے پانی بھرتے تھے اور اور بدن پروان چڑھتا تھا ۔ اب تو مہمان بھی اپنے ساتھ بسلیری کی بوتل ساتھ لانے لگے کہ نہ جانے جن کے ہاں مہمان جارہے ہیں وہاں خلوص میں آلودگی تو قابل برداشت ہے لیکن پانی میں آلودگی ہوتو مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ حکومت ترقی کا نعرہ دے رہی ہے ملک اور ریاست کے بجٹ میں اضافہ ہوگیا ساتھ ہی ہوا میں آلودگی کا بھی اضافہ ہوگیا ، پانی میں زہر کا اضافہ ہوگیا ، اناج میں ملاوٹ کا اضافہ ہوگیا ، کرنسی میں جعلی نوٹوں کا اضافہ ہوگیا ، سیاست دانوں کی دولت میں اضافہ ہوگیا ، عام آدمی کی غربت میں اضافہ ہوگیا ، دفاتر میں رشوتوں کا اضافہ ہوگیا ، ناپ تول میں بے ایمانی میں اضافہ ہوگیا ۔ ڈاکٹروں کی فیس میں اضافہ ہوگیا ، زندگی کی قیمت میں اضافہ ہوگیا اور حیرت انگیز طور پر ترقی نے کتنی چیزوں کو انسان کیلئے سستا کردیا ہے ۔ موت سستی ہوگئی ، آبرو سستی ہوگئی ، شراب سستی ہوگئی ، قتل سستا ہوگیا ۔ میں جس دور کا مرقع لکھ رہا ہوں وہ ایک فرسودہ اور پسماندہ دور تھا اس زمانے میں ہر چیز اصلی تھی ، نوٹ بھی ، ہوا بھی ، پانی بھی ، غذا بھی انسان بھی بے ریا ، دل بھی محبت سے معمور ، رشتے بھی اٹوٹ ، دوستیاں بھی پائیدار ، شیخ و برہمن باہم ، دیوالی اور عید مشترک ، محرم سب کیلئے غم کا مہینہ ، رمضان سب کیلئے تقدس کا مہینہ ، بیٹی سب کی جائی ، شادی سب کی مسرت ، خوشی برابر کی غم برابر کا ۔ میرے آگے ابھی بہت کچھ منظر ہیں لیکن شاید نئی نسل کو یہ خیال گذرے کہ ماضی کے یہ تذکرے وائرس کی صورت ترقی کو متاثر نہ کردیں ۔ اس ترقی یافتہ دور میں میں کیا اور میری بے نوائی کیا ۔
دمشق مصلحت و کوفۂ نفاق کے بچی
فغانِ قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا

***
afarruq[@]gmail.com
18-8-450/4, SILVER OAK, EDI BAZAR,NEAR SRAVANI HOSPITAL, HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
علامہ اعجاز فرخ

The Food culture & hospitality of Hyderabad Deccan. Article: Aijaz Farruq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں