سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -1 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-28

سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -1


Fall-of-Hyderabad-Pt-Sunderlal-Report
آندھرا پردیش کی تقسیم اور تشکیل تلنگانہ پر حکومت ہند کی جانب سے قائم کردہ گروپ آف منسٹرس کے سامنے آندھرا پردیش کی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اپنے اپنے موقف کو پیش کیا۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے صدر و رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے گروپ آف منسٹرس کو ایک ضخیم دستاویز پیش کرتے ہوئے حیدرآباد کے سیاسی موقف پر نمائندگی کی ہے۔ اس نمائندگی میں کچھ ایسے تاریخی پہلو بھی پیش کیے گئے ہیں جو اب تک بہت کم منظر عام پر آئے ہیں۔
ان تاریخی پہلوؤں میں پنڈت سندرلال کی وہ رپورٹ بھی شامل ہے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ سقوط حیدرآباد کے نام پر کس طرح سلطنت آصفیہ کے حدود میں قیامت صغریٰ برپا کی گئی۔ سقوط حیدرآباد کو ہوئے 65 سال گزر چکے ہیں لیکن حکومت ہند نے پنڈت سندر لال کی اس رپورٹ کو باقاعدہ طور پر منظر عام پر نہیں لایا۔ بیرسٹر اویسی نے کافی محنت اور جستجو کرتے ہوئے اس رپورٹ کو محفوظ اسنادات سے نکال کر اس کے ذریعے حیدرآباد کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس رپورٹ میں کیا درج ہے ، اس کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
- ایم اے ماجد (اعتماد نیوز ، یکم/ دسمبر 2013)
(نوٹ از ادارہ تعمیرنیوز):
سندرلال رپورٹ بالآخر حکومت ہند کی جانب سے 2013 میں عوام کے مطالعے کے لیے جاری کر دی گئی ہے جو نئی دہلی کے نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ تعمیرنیوز پر اس کے اردو ترجمے کا خلاصہ انہی سات اقساط کے ذریعے پڑھا جا سکتا ہے:
سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی
ریاست آندھراپردیش کی تقسیم اور علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کیلئے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ تقسیم ریاست کیلئے راضی اور عدم راضی فریق اب شہر حیدرآباد پر اپنی اپنی دعویداری کے ذریعہ تقسیم کی سوداگری میں مصروف ہیں۔ حیدرآباد کے ایک شہری ہی نہیں ایک علاقہ ہی نہیں بلکہ یہ تاریخ، تہذیب، تمدن ، سماجیت، معیشت کا ایک ایسا مرکز ہے جو اپنی ایک منفرد پہنچان رکھتا ہے۔
سقوط حیدرآباد(17ستمبر1948) سے لے کر تشکیل ریاست آندھراپردیش(یکم نومبر1965) سے آج تک شہر حیدرآباد سیاسی طورپر موضوع بحث بنارہا۔ سقوط حیدرآباد کے وقت حیدرآبادپر کیا گذری اس کے بارے میں بہت کم صحیح معلومات دستیاب ہوئی ہیں۔ ملک کی سرکردہ دانشورو کالم نویس اے جی نورانی نے اپنی ایک کتاب"حیدرآباد کی تباہی" کے عنوان پر شائع کی ہے۔ جس میں حیدرآباد کی بربادی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

آندھرا پردیش کی تقسیم اور تشکیل تلنگانہ پر حکومت ہند کی جانب سے قائم کردہ گروپ آف منسٹرس کے سامنے آندھرا پردیش کی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اپنے اپنے موقف کو پیش کیا۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے صدر و رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے گروپ آف منسٹرس کو ایک ضخیم دستاویز پیش کرتے ہوئے حیدرآباد کے سیاسی موقف پر نمائندگی کی ہے۔ اس نمائندگی میں کچھ ایسے تاریخی پہلو بھی پیش کیے گئے ہیں جو اب تک بہت کم منظر عام پر آئے ہیں۔
ان تاریخی پہلوؤں میں پنڈت سندرلال کی وہ رپورٹ بھی شامل ہے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ سقوط حیدرآباد کے نام پر کس طرح سلطنت آصفیہ کے حدود میں قیامت صغریٰ برپا کی گئی۔ سقوط حیدرآباد کو ہوئے 65 سال گزر چکے ہیں لیکن حکومت ہند نے پنڈت سندر لال کی اس رپورٹ کو باقاعدہ طور پر منظر عام پر نہیں لایا۔ بیرسٹر اویسی نے کافی محنت اور جستجو کرتے ہوئے اس رپورٹ کو محفوظ اسنادات سے نکال کر اس کے ذریعے حیدرآباد کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس رپورٹ میں کیا درج ہے ، اس کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

"حکومت ہند نے ہم سے یہ کہاکہ خیرسگالی مشن کے طورپر حیدرآباد روانہ ہوں اور ایک رپورٹ پیش کریں۔ یہ وفد پنڈٹ سندرلال، قاضی عبدالغفار اور مولانا عبداﷲ مصری پر مشتمل تھا۔ نومبر 1948ء میں حیدرآباد پہنچا اور دسمبر 1948ء کو دہلی کیلئے روانہ ہوگیا۔ ریاست حیدرآباد کے 16اضلاع کے منجملہ 9 کا اس وفد نے دورہ کیا جن میں 7ضلع مستقر، 21 ٹاونس اور 23اہم مواضعات شامل تھے۔ ان علاقوں کے دوروں کے علاوہ ہم نے 109 مواضعات کے جہاں کا ہم نے دورہ نہیں کیا، تقریباً500 سے زائد افراد سے ملاقاتیں کیں۔
ملاقاتوں کے علاوہ 13جلسہ عام اور 27خانگی نشستوں جن میں ہندو، مسلمان، کانگریسی، سرکاری عہدیدار، جمعےۃ علماء کے ارکان، مجلس اتحاد المسلمین کے ارکان، مختلف تعلیمی اداروں کے اسٹاف و طلبہ، ترقی پسند مصنفین کے ارکان اور ان کے انجمنوں کے نمائندے ہندوستانی پرچار سبھا کے ارکان و نمائندوں کو اس مشن کے ارکان نے مخاطب کیا۔

جن اہم شخصیتوں سے ہم نے ملاقات کی اور ان سے بات چیت کی ان میں ایچ ایچ دی نظام (نواب میر عثمان علی خان بہادر)، ایچ ایچ دی پرنس آف برار( اعظم جاہ بہادر)، سوامی راما نند تیرتھ، میجر جنرل جی این چودھری، ڈی ایس بھکلے چیف سیول اڈمنسٹریٹر، ڈاکٹر ملکوٹے، رامچندر راؤ، راما چاری، کے ودیا، وینکٹ راؤ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ان تمام اجلاسوں، نشستوں، ملاقاتوں اور بات چیت کا ایک ہی نقطہ نظر تھا، وہ مختلف طبقات کے درمیان خیر سگالی رشتوں کو بنانا اور خیر سگالی ماحول کو پیدا کرنا۔ عوام سے یہ اپیلیں بھی کی گئیں کہ وہ ماضی کو بھول کر امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزارنے مل جل کر کام کریں۔ ان نشستوں اور اجلاس میں حکومت ہند کی پالیسیوں کا مکمل خلاصہ کیا گیا۔ ہندیونین کا یہ مقصد بیان کیا گیا کہ وہ حیدرآبادی عوام کیلئے ایک سیکولر حکومت کی فراہمی چاہتے ہیں۔ بلا لحاظ مذہب و ملت، ذات پات تمام کو مساویانہ آزادی اور شہری حقوق دئیے جائیں گے اور انہیں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔ حیدرآباد میں متعین کئے گئے ملٹری اڈمنسٹریشن کو یہ واضح کیا گیا کہ وہ حکومت ہند کی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے اپنا فرض نبھائیں اور اسی کے مطابق کام انجام دیں۔

ہم یہ مکمل طورپر سمجھتے ہیں اور ہمارا مقصد واضح ہے کہ ہمارا نہ تو ایک تحقیقاتی کمیشن ہے اور نہ ہی پولیس ایکشن کے بعد جو واقعات رونما ہوئے ہیں اس کی چھان بین کی جائے لیکن ہم نے جو کچھ دیکھا ہے اس کو بیان کرنا اور حیدرآباد میں ہمارا جو دورہ رہا اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی اہمیت کے ساتھ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں جو موقع دیا گیا ہے ہم حیدرآباد و اطراف بلدہ اور دیگر حصوں میں جو کچھ واقعات ہوئے ہیں اس کو علم میں لائے بغیر ہمارا فرض مکمل نہیں ہوگا۔
ریاست حیدرآباد 16اضلاع پر مشتمل ہے۔ جہاں 22ہزار سے زائد مواضعات ہیں۔ ان کے منجملہ صرف 3اضلاع کو چھوڑ کر ریاست کے بیشتر علاقے فرقہ وارانہ ہنگاموں سے پاک نہیں تھے اور ان تین اضلاع میں بھی جزوی طورپر کچھ نہ کچھ واقعات ہوئے۔ ابتداء میں رضا کار انتہا پسندوں کی سرگرمیوں ار بعد میں نظام حکومت کے تباہ ہونے کے سبب یہ حالات کافی ابتر ہوگئے۔ 4اضلاع ایسے تھے جہاں حالات کافی حد تک خراب رہے لیکن دیگر 8اضلاع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں کے وقاعات قیامت خیز ثابت ہوئے۔ ان 8شدید ترین متاثر اضلاع میں 4اضلاع ایسے ہیں جو شدید ترین طورپر متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں عثمان آباد، گلبرگہ، بیدر، ناندیڑ شامل ہیں۔ ان چار اضلاع میں بے شمار لوگ ہلاک کئے گئے۔ گڑ بڑ کے دوران اور پولیس ایکشن کے بعد ان اضلاع میں جو واقعات ہوئے ان میں کثیر ہلاکتیں ہوئیں۔
ایک محتاط اندازہ کے مطابق 18ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کیا گیا۔ دیگر شدید متاثرہ 4اضلاع میں اورنگ آباد، بیڑ، نلگنڈہ اور میدک شامل ہیں۔ ان اضلاع میں جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کی تعداد 3500تا4000 تک بتائی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق پولیس ایکشن کے بعد 25تا30ہزار افراد ساری ریاست میں ہلاک ہوئے اور ان میں 90فیصد ان متاثر 8اضلاع سے تھے۔ (عثمان آباد، گلبرگہ، بیدر، ناندیڑ/اورنگ آباد، بیڑ، نلگنڈہ، میدک)۔ حیدرآباد میں ہماری آمد کے بعد حکام نے ہمیں بتایاکہ سب سے زیادہ یہ اضلاع متاثر ہوئے ہیں اور ان اضلاع میں ہمارے وفد کی خیر سگالی خدمات کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ آپسی تناؤ، نفرت، بے اعتمادی کے اس ماحول کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شدید ترین متاثر 8اضلاع کے منجملہ جو چار اضلاع بدترین طورپر متاثر ہوئے (عثمان آباد، گلبرگہ، بیدر و ناندیڑ) یہاں رضا کاروں کا کافی اثر تھا۔ رضا کار سرگرمیوں سے جہاں ریاست بھر متاثر تھی یہ اضلاع بھی متاثر رہے۔ لاتور ٹاون جو قاسم رضوی کا وطن ہے اور جو دولت مند کچی مسلمان تاجروں کا ایک بڑا تجارتی مرکز مانا جاتاہے، میں 20دن تک قتل عام جاری رہا۔ اس ٹاون 10ہزار مسلمانوں کی آبادی تھی اور ان میں صرف 3ہزار ہی بچ گئے۔ دو تا تین ہزار قتل کردئیے گئے اور مابقی اپنا سب کچھ چھوڑ کر جان بچاکر وہاں سے نکل گئے۔ جو کل تک دولت مند تھے وہ پیسہ پیسہ کیلئے محتاج ہوگئے۔
ان شدید ترین متاثرہ اضلاع کے علاوہ ریاست کے دیگر متاثرہ علاقوں میں فرقہ وارانہ جنون اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ صرف مردوں کا قتل ہی نہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ بڑے پیمانے پر لوٹ مار ، آگ لگانا، مسجدوں کی بے حرمتی، زبردستی تبدیلی مذہب، عورتوں کا اغواء، عصمت ریزی۔ یہ واقعات ریاست حیدرآباد کے بیرونی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر پیش آئے۔ ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ مکانات، اراضیات اور جو مال غنیمت ہے اس کو دھڑ لیا گیا۔ کروڑہا روپئے کی املاک لوٹ لی گئیں۔ تباہ کردی گئیں، ان کے مالکین سے چھین لی گئیں اور تمام علاقوں میں متاثر ہونے والے مسلمان تھے۔ بے یارومددگاراس اقلیت پر ان لوگوں نے بھی مظالم ڈھائے جو کبھی رضا کار کے ظلم کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ بلوائیوں، لیٹروں کے ساتھ مال غنیمت کیلئے کئی ٹولیاں نکل پڑیں۔ کوئی مسلح تھے تو کوئی بنا ہتھیار۔
ہندوستانی فوج جب ریاست حیدرآباد کی سرحد پار کررہی تھی تب اس کے پیچھے لوٹ مار مچانے والے درانداز بھی پہنچ گئے اور وہ لوٹ مار اور مال غنیمت کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے۔ ہمیں قطعی طورپر یہ معلوم بھی ہوا ہے کہ کئی مسلح تربیت یافتہ افراد جو سرکردہ جرائم پیشہ اور فرقہ پرست (ہندو) تنظیموں سے وابستہ شولاپور او دیگر ہندوستانی علاقوں سے ریاست حیدرآباد میں داخل ہوئے۔ ان فرقہ پرست اور مجرموں کی ٹولیوں کے ساتھ کچھ مقامی اور کچھ غیر مقامی کمیونسٹوں نے بھی کچھ واقعات میں حصہ لیا جو بڑے پیمانے پر قتل، غارت گری، اغواء ، لوٹ مار کے واقعات کا سبب بنا۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ ان لوٹ مار میں ہندوستانی فوج اور مقامی پولیس نے صرف چند ایک واقعات میں حصہ لیا اور لوٹ مار میں شامل ہوئے۔
حیدرآباد میں ہندوستانی فوج اور اس کے عہدیداران کے قابل سربراہ میجر جنرل چودھری کی قیادت میں بہتر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ ان حالات میں ہندوستانی فوج کی کارکردگی کو ضبط تحریرکریں۔ بلاشبہ جنرل چودھری ذرا برابر بھی فرقہ وارانہ تعصب نہیں رکھتے۔ وہ حکومت کی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے اور مختلف طبقات کے درمیان امن و ہم آہنگی کو بنانے، لاقانونیت کو کچلنے کیلئے جو انسانی طورپر ممکن ہے وہ کررہے تھے۔ جنرل چودھری اور ان کے عہدیدار اور بے حیثیت مجموعی ہندوستانی فوج اس کام میں جٹی تھی۔ جنرل کی با صلاحیت ہدایتوں کو روبہ عمل لانے ان کے عہدیداروں کا بھی تعاون دیکھا گیا جس کی وجہہ سے جائیداد و املاک سے محروم بے شمار مسلمانوں کو ان کی لٹی ہوئی املاک واپس دلانے میں مدد ملی۔ اغوا کی گئیں بے شمار عورتوں کو ڈھونڈ نکال کر ان کے حقیقی خاندانوں تک واپس پہنچایا گیا۔ یہ کام ابھی بھی جاری ہے۔
ملٹری گورنر اور چیف سیول اڈمنسٹریٹر اور ان کے بیشتر رفقاء، عہدیداران کے ماتحت کام کرنے والے مستعدی سے مختلف طبقات کے درمیان رابطہ بنانے کا کام کررہے ہیں۔ بڑی حد تک یہ اپنے کام میں کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فوج میں ایک ایسا بھی طبقہ ہے جو فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے پوری طرح پاک نہیں ہے۔ بالخصوص ایسے علاقہ سے تعلق رکھنے والے جہاں ان کے خاندان (تقسیم کے وقت) متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جن کے رشتہ دار راست یا بالواسطہ ان حالات سے گذرے ہیں، یہ فوجی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے ہیں لیکن ان سے جواب طلبی بڑی مشکل ہے۔

ان گھناونے واقعات کے دوران کچھ امید کی کرنیں بھی دیکھی گئیں۔ کچھ واقعات میں مسلمانوں نے بتایاکہ کیسے ہندوؤں نے ان کے مرد اور عورتوں کا اپنی جان پر کھیل کر تحفظ کیا۔ بالخصوص ہندو بافندے( بنکر) نے مسلم بافندوں کو بچانے کی کوشش کی۔ بعض اوقات میں اپنی جان پر کھیل کر بھی انہوں نے اپنی مسلم برادری کو بلوائیوں، لٹیروں سے بچانے کی کوشش کی۔ اغوا کی گئی کئی مسلم عورتوں کو واپس لانے میں بھی کئی ہندوؤں نے مدد کی۔
بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف مظالم کے کہانیوں کے خلاصہ کو مکمل کرنے سے پہلے ہم اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے یہ بیان صرف رواداری میں یا حقائق کے بغیر تحریر نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے جو کچھ تحریر کیا ہے اس کی ہم مکمل ذمہ داری لیتے ہیں۔ ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جو متاثرین نے ہمیں بتایا، متاثرین کے دوست احباب نے ہم سے جس بات کا ذکر کیا اور قابل اعتبار ہندوؤں اور مسلمانوں سے ہم نے جو گفتگو کی کانگریس کے معتبر ہندو اور اسی طریقے سے رضا کار تحریک کے مخالف معتبر مسلمانوں سے جو باتیں معلوم ہوئیں اس کی بنیاد پر ہم نے یہ رپورٹ تیار کی ہے"۔


The Violent tale of Fall of Hyderabad by Pundit Sunderlal Report. part-1

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں