ابن صفی نے اپنے کرداروں کو زندۂ جاوید کر دیا ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-26

ابن صفی نے اپنے کرداروں کو زندۂ جاوید کر دیا ہے

ibn-e-safi novels characters
اردو ادب میں ایسے بہت سے کردار ہیں جو حیات جاوداں لے کر آئے ہیں، جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ڈپٹی نذیر احمد کے اصغری ، اکبری اور ابن الوقت ، مرزا ہادی رسوا کا مشہور کردار امراؤ جان ، منٹو کا منگو کوچوان ، کرشن چندر کا کالو بھنگی ، منشی پریم چند کا ہوری اور امتیاز علی تاج کے مزاحیہ کردار چچا چھکن کو اسی زمرے میں رکھا جا سکتا ہے جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔
بلاشبہ یہ سب اردو ادب کے بڑے نام ہیں لیکن بات جب کردار سازی کی آئے گی اور اس کا منصفانہ تجزیہ کیا جائے گا تو ابن صفی ان تمام سے بہت آگے نظر آئیں گے۔ انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں کردار تخلیق کیے ہیں جو منفرد بھی ہیں اور جداگانہ شخصیت کے حامل بھی۔ تقریباً تمام کردار ایسے ہیں جنہوں نے قارئین کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ رکھے ہیں۔ ابن صفی کے کردار خواہ اچھے ہوں یا برے ، بےپناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں ، بسا اوقات یہ الہ الدین کے چراغ والے جن کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی پیشکش اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ یہ کہیں سے بھی مافوق الفطرت نہیں لگتے۔ ان کا ہر عمل فطری ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے یہ سب اپنے ہی سماج کے جیتے جاگتے افراد لگتے ہیں۔

ابن صفی نے اپنے کرداروں کو وہ جاودانی عطا کر دی جو اردو ادب کے معدودے چند کرداروں ہی کے حصے میں آئی ہے۔ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابن صفی سے زیادہ شہرت ان کے کرداروں بالخصوص علی عمران اور احمد کمال فریدی کے حصے میں آ گئی۔
ابن صفی دراصل ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بہت زیادہ توجہ دیتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے کردار کہیں سے بھی غیر فطری نہ لگیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بحیثیت ایکس۔ٹو جولیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران کبھی کبھی بہکنے بھی لگتا ہے لیکن فوراً ہی خود پر قابو بھی پا لیتا ہے۔
یہ ابن صفی کی کردار نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ایکس ٹو آخر وہی عمران ہی تو ہے جو بڑی مشکلوں سے کبھی کبھار سنجیدہ ہوا کرتا ہے۔ وقتاً فوقتاً اس کا بہکنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی انسان ہے ، مشین نہیں۔

زیرنظر مضمون میں ان کے فن ناول نگاری کے ایک پہلو یعنی کردار نگاری پر گفتگو کی گئی ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ ان کے کرداروں پر کوئی گفتگو ہو ، آئیے ان کے کرداروں کی ایک جھلک دیکھتے چلیں اور دیکھیں کہ ان کرداروں کو محض ان کی گفتگو سے ہی پہچان لینا کتنا آسان ہے۔

"آپ کا فرمانا درست ہے۔ مگر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اس محکمے میں روٹیوں کے لیے نہیں آیا۔ میری خطر پسند طبیعت نے اسی پیشے میں تسکین کا سامان دیکھ کر مجھے اس طرف آنے پر مجبور کیا ہے۔ میرا اس کام میں دل ہی نہیں لگتا جس میں قدم قدم پر موت کا خطرہ نہ ہو۔"
بحوالہ : فریدی اور لیونارڈ

کیا ابن صفی کے قارئین کو یہاں کوئی مغالطہ ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ انسپکٹر احمد کمال فریدی کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہو سکتا جو بعد میں "کرنل فریدی" کے نام سے مشہور ہوئے۔

ان کا ایک دوسرا کردار جو فریدی کی طرح سنجیدہ نہیں ہے ۔۔۔ لیکن صرف وہی ایک ایسا شخص ہے جس پر فریدی آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکتا ہے۔ اس کا ایک مکالمہ ملاحظہ فرمائیں جو حسب سابق ایک دوشیزہ کی شان میں ادا ہو رہا ہے۔
"تم پھولوں سے زیادہ حسین ہو ، کنول سے زیادہ نازک ، تمہاری آواز نہیں شہد کی بوند ہے ، جب تم مسکراتی ہو تو کلیاں کھل جاتی ہیں، جب چلتی ہو تو قیامت اپنے گریبان میں منہ ڈال کر کھڑی رہ جاتی ہے اور جب نہیں چلتی ہو تو قیامت اپنا ارادہ بدل کر ۔۔۔ اوہ وہ ۔۔۔ بدل کر ۔۔۔۔ کیا کرنے لگتی ہے ۔۔۔۔ جانتی ہو ۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتیں ۔۔۔۔۔ اچھا ، میری آنکھوں میں دیکھو ، کیا دکھائی دیتا ہے؟"
بحوالہ : پراسرار کنواں

یہ کون ہے؟
کیا یہاں یہ بتانے کی ضرورت ہے، قطعی نہیں۔ کیپٹن حمید کے علاوہ بھلا اور کون ہو سکتا ہے جو لڑکیوں کی صحبت کا رسیا تو ہے مگر وہاں بھی اپنی سنجیدگی برقرار نہیں رکھ پاتا۔
ایک اور کردار جس کے مداحوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔۔۔۔۔

۔۔۔ لیکن جیسے ہی کیپٹن فیاض اندر داخل ہوا ، فون کی گھنٹی بجی اور اس کے ہونٹوں پر بکھری ہوئی زبردستی کی مسکراہٹ غضب آلود کھنچاؤ میں تبدیل ہو گئی۔ وہ سامنے آتی ہوئی چیز کو ٹھوکر سے ہٹاتا ہوا فون کی طرف جھپٹا۔
"ہیلو" وہ ماؤتھ پیس میں غرایا۔
دوسری طرف سے خالص اختری بائی فیض آبادی کے اسٹائل میں آواز آئی : "دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے"
"کون بیہودہ ہے؟"
"سوپر فیاض! وہی پرانا خادم"
بحوالہ : گیند کی تباہ کاریاں

سوپر فیاض کا یہ پرانا خادم اپنے زمانے کی پراسرار شخصیت علی عمران ایم ایس سی ، ڈی ایس سی آکسن ہے ، جس کی بےپناہ صلاحیتوں کو اس کے والد ڈائرکٹر جنرل رحمان صاحب بھی ٹھیک سے نہیں پہچانتے ، لیکن ابن صفی کے قارئین سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
ابن صفی نے اس کردار کے دو متضاد پہلوؤں کو اس خوبصورتی کے ساتھ نمایاں کیا ہے کہ اس کی ایک ہلکی سی جھلک سے ہی قارئین اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں کہ اس وقت ہمارے سامنے کون ہے؟ علی عمران یا ایکس ٹو۔
"دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے" ۔۔۔۔ کیپٹن فیاض کے سامنے عمران کے علاوہ بھلا کسی کی جراءت ہو سکتی ہے کہ اس طرح گانا گائے؟

کرداروں کی شخصیت کو سنوارنے میں ابن صفی نے بڑی عرق ریزی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر وہ تمام کے تمام یکجا ہو جائیں اور کسی موضوع پر بحث کریں تو مصنف کو یہ بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے کہ یہ جملہ کس نے ادا کیا؟ جملوں میں استعمال ہونے والے الفاظ ہی اس کردار کی شناخت بن جاتے ہیں اور قارئین خود ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ پہلا جملہ کس نے ادا کیا اور اس کا جواب کس نے دیا؟
ملاحظہ فرمائیں ایک نمونہ ۔۔۔

وہ چائے کی ٹرے سنبھالے ادھر ہی آ رہا تھا۔
"ابے تو بولتا کیوں نہیں؟"
"جب آ ہی رہا تھا تو بولنے کی کیا ضرورت تھی۔"
"اچھا جی! اگر آتے وقت کوئی تمہاری گردن اڑا دیتا تو ، تب بھی تم خاموش ہی رہتے؟"
"نہیں صاحب! لپٹ پڑتا اس سے! خون پی لیتا۔"
"لپٹ پڑتے ۔۔۔۔۔ ابے تو پھر ان برتنوں کا کیا ہوتا ۔۔۔ نمک حرام کہیں کے۔"
"نمک حرام نہ کہا کیجیے صاحب!"
"کیوں؟"
"اگر نمک حرام ہوتا تو دو آنے سیر کبھی نہ بکتا بلکہ بوتلوں میں پچپن روپے فی بوتل کے حساب سے فروخت ہوتا اور لوگ نمکین پکوڑے کھا کر ادھر ادھر غل غپاڑے مچاتے پھرتے۔"
"تیری باتیں سمجھنے کے لیے ارسطو کا دماغ چاہیے! میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ ابے تو کھڑا منہ کیا دیکھ رہا ہے؟"
بحوالہ : خطرناک لاشیں

یہ دو لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے جس میں کسی کا نام نہیں ہے لیکن قارئین کو اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ یہ مباحثہ عمران اور سلیمان کے درمیان ہے۔
دراصل وہ سلیمان ہی ہے جو عمران سے مباحثے کی ہمت کر سکتا ہے۔ کبھی کبھار جوزف سے بھی اس طرح کی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں لیکن اس کا انداز قدرے مختلف ہوتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب اسے یومیہ ملنے والا "کوٹہ" وقت پر نہیں مل پاتا۔ قارئین سمجھ جاتے ہیں کہ جوزف کا دماغ اپنی جگہ سے کھسک رہا ہے۔
ملاحظہ کیجیے ایک مکالمہ :

"تیسرے قیدی کو لاؤ!" عمران نے جوزف سے کہا۔
"باس تین ہی تو ہیں، ہر قیدی تیسرا ہو سکتا ہے!"
"اچھا!" عمران آنکھیں نکال کر بولا: "اب مجھے منطق پڑھائے گا!"
"کیا کروں باس، ابھی تک نہیں ملی!" وہ جماہی لے کر بولا: "تم خود ہی بتاؤ میں آدمیوں کی طرح کیسے سوچ سکتا ہوں؟"
"اس قیدی کو لاؤ جسے بعد میں لے گئے تھے!"
"میں تہہ خانے میں نہیں جاؤں گا!" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"کیوں؟" عمران نے آنکھیں نکالیں۔
"میری طرف دیکھ کر مسکراتی ہے۔"
"اچھا تو پھر؟"
"تو گویا یہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی؟" جوزف روہانسا ہو کر بولا۔
"اچھا تو ہی بتا، کیا خاص بات ہے؟ میری سمجھ میں تو نہیں آتا!"
"کوئی عورت تمہیں دیکھ کر مسکرائے تو تم کیا سمجھو گے باس؟"
"خود کو سکندر اعظم سمجھنے لگوں گا!"
بحوالہ : جونک کی واپسی

ابن صفی اپنے ایک ایک کردار اور اس کے ایک ایک مکالمے پر محنت کرتے تھے اور خوب کرتے تھے۔ وہ اس بات کا خصوصی خیال رکھتے تھے کہ کہیں ان کے قارئین کو کوئی بات بری نہ لگے۔ وہ دراصل اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ان کے قارئین دو حصوں میں منقسم ہیں۔
ایک طبقہ وہ ہے جسے فریدی پسند ہے۔ یہ طبقہ فریدی کی سنجیدگی و متانت اور اس کی شجاعت کی وجہ سے اس کا دلدادہ ہے جبکہ دوسرا طبقہ عمران کے مداحوں کا ہے۔ یہ طبقہ ایکس۔ٹو کے اندازِ سراغرسانی کا قائل ہے اور عمران کی احمقانہ حرکتوں پر سر دھنتا ہے۔
ابن صفی کے اس اعتراف کے باوجود کہ وہ فریدی کے کردار کو زیادہ پسند کرتے ہیں ، یہ طبقہ فریدی پر عمران کو ترجیح دیتا ہے۔
اپنے قارئین کی پسند و ناپسند کا ابن صفی کتنا خیال رکھتے تھے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قارئین کے بےحد اصرار پر انہوں نے فریدی اور عمران کو "زمین کے بادل" میں یکجا کیا اور وادئ تاریک کے ایک نازک لمحے میں فریدی کو عمران پر برتری دکھا دی تو عمران کے مداحوں پر مشتمل طبقہ ناراض ہو گیا۔
بعد میں ابن صفی کو اس کی توضیح پیش کرنا پڑی۔ قارئین کے خطوط کے جواب میں ابن صفی نے لکھا کہ :
"جاسوسی دنیا کا جوبلی نمبر 'زمین کے بادل' پسند بھی کیا گیا اور ناپسند بھی۔ اس اختلاف کی وجہ کہانی نہیں بلکہ فریدی اور عمران ہیں۔ کہانی کی دلچسپی پر حرف نہیں آیا۔ پس ستم یہ ہو گیا کہ بےچارہ عمران ایک موقع پر گیس پروف نہیں بن سکا تھا۔ فریدی صاحب بازی مار لے گئے تھے ، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ فریدی سے دبلا پڑتا ہے۔ یہ تو کہانی کا ایک موڑ تھا جسے اتفاقات نے جنم دیا تھا۔

پھر عمران کے مداحوں کو مطمئن کرنے کے لیے وہ مزید لکھتے ہیں کہ :
"عمران کے چاہنے والوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ زیرولینڈ کا کیس سو فیصدی عمران کا ہے۔ اگر کبھی اسے پیش کرنے کی نوبت آئی تو دیکھئے گا۔
بحوالہ : پیش رس 'گیند کی تباہ کاریاں' - 30/مئی/1985

قارئین کو مطمئن کرنے کے لیے ابن صفی نے بس اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خود عمران کی زبانی بھی کہلوایا۔ وہ جانتے تھے کہ پڑھنے والوں کے ذہنوں پر ان کے کرداروں کے اثرات اس قدر حاوی ہیں کہ بسا اوقات وہ ابن صفی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ملاحظہ کریں کیپٹن فیاض سے گفتگو کرتے ہوئے اس سلسلے میں علی عمران کیا کہتے ہیں :

"یہ صرف ستاروں کے کھیل ہیں ورنہ بعض اوقات تو ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں کہ سوچ کر الجھن ہوتی ہے۔ مثلاً ایک بار ایک قسم کی گیس کے چکر میں پڑ کر بالکل ہی بےدست و پا ہو گیا تھا اور ایک دوسرا آدمی صرف 51 منٹ تک سانس روکے رکھنے کی بنا پر ماسٹر آف سچویشن بن گیا تھا۔ اب یہاں سانس روکنا تو کیا ضرورت پڑنے پر اپنا معدہ بھی آنتوں سمیت کھینچ کر کاندھے پر لا سکتا ہوں ، مگر اس وقت غفلت ہو گئی تھی! ذرا سی لغزش جس نے مجھے خود اپنی نظروں سے گرا دیا تھا۔"
بحوالہ : گیند کی تباہ کاریاں

ابن صفی نے تقریباً 250 ناول لکھے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ان کے مستقل کردار ہیں۔ مثلاً فریدی سیریز میں حمید کے ساتھ کہیں کہیں قاسم ، انور ، رشیدہ اور پراسرار شخصیت کے مالک اور بہت ساری زبانوں پر عبور رکھنے والے طارق ہوتے ہیں۔
اسی طرح عمران سیریز میں جولیانا فٹزواٹر ، فیاض ، صفدر ، خاور ، تنویر ، چوہان ، صدیقی ، بلیک زیرو ، جوزف ، سلیمان ، روشی ، رحمان صاحب اور سر سلطان وغیرہ ہیں۔
برے کرداروں میں سنگ ہی اور تھریسیا بہت مقبول ہیں۔ لیکن ان مستقل کرداروں کے علاوہ ہر ناول کے جو مقامی کردار ہوتے ہیں ، وہ بھی کچھ کم اہم نہیں۔ ان کا خاکہ بھی ابن صفی نے کچھ اس طرح سے کھینچا ہے کہ اگر کبھی کسی کردار کا کسی دوسرے ناول میں تذکرہ ہو تو قارئین اسے پہچان لیتے ہیں۔ ذہن پر بہت زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

یہ کسی بھی ناول نگار کی بڑی کامیابی ہے کہ اس کے کردار اس کی شناخت بن جائیں ۔۔۔ اور ابن صفی اس معاملے میں پوری طرح کامیاب ہیں!

The characters in novels of Ibn-e-Safi

9 تبصرے:

  1. ابن صفی کی کردار نگاری پر بہت سیر حاصل تبصرہ۔۔۔ قطب الدین شاہد صاحب اتنا اچھا مضمون تحریر کرنے پر مبارکباد اور شکریہ۔

    خیر اندیش

    احمد صفی
    لاہور، پاکستان

    جواب دیںحذف کریں
  2. ابن صفی کی کردار نگاری پر بہت سیر حاصل تبصرہ۔۔۔ قطب الدین شاہد صاحب اتنا اچھا مضمون تحریر کرنے پر مبارکباد اور شکریہ۔

    خیر اندیش

    احمد صفی
    لاہور، پاکستان

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. تبصرہ کے لیے بہت شکریہ احمد صفی بھائی۔
      قطب الدین شاہد کا یہ طویل مضمون آج 26/جولائی کے ممبئی اردو روزنامہ "انقلاب" میں شائع ہوا تھا۔ موضوع اور متن کی اہمیت کے پیش نظر اسے یونیکوڈ میں منتقل کر کے یہاں پیش کیا گیا ہے۔

      حذف کریں
  3. زمین کے بادل ۔ ناول پر ایک زمانے میں ہم دوستوں کے درمیان کئی مباحث ہوئے ہیں۔ مرحوم ابن صفی کی یہ توضیح پھر بھی ادھوری ہی لگتی ہے کہ ۔۔۔ " ستم یہ ہو گیا کہ بےچارہ عمران ایک موقع پر گیس پروف نہیں بن سکا تھا۔ فریدی صاحب بازی مار لے گئے تھے ، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ فریدی سے دبلا پڑتا ہے۔ یہ تو کہانی کا ایک موڑ تھا جسے اتفاقات نے جنم دیا تھا۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔
    حالانکہ اس ناول میں صرف اسی ایک جگہ نہیں ، دوسری جگہ بھی عمران کو فریدی سے کمتر بتایا گیا ہے۔ یعنی سنگ آرٹ کے مظاہرے کے دوران ۔۔۔۔
    عمران کی قابلیٹ سنگ آرٹ میں یہ بتائی گئی ہے کہ ایک آدمی گولی چلائے تو وہ تمام گولیوں سے بچ جاتا ہے ۔۔۔ جبکہ زمین کے بادل میں ۔۔۔ عمران کی نظروں کے سامنے فریدی پر بیک وقت دو لوگ گولیاں چلاتے ہیں ۔۔۔ مگر پھر بھی وہاں فریدی ہی سنگ آرٹ میں اپنی مہارت دکھاتا ہے۔ اور تب یہ دیکھ کر عمران کی سٹی گم ہو جاتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. تسلی تو بہر حال تسلی ہوتی ہے نا جناب ۔۔۔

      حذف کریں
  4. بیادِ سالروزِ تولد و مرگِ ابن صفی
    احمد علی برقی اعظمی

    آج بھی زندہ ہیں اپنے کام سے ابنِ صفی
    اُن کا فن ہے ترجمانِ سوز و ساز زندگی

    صِرف باون سال پر تھی زندگی اُن کی محیط
    اُن کی تحریریں ہیں شمعِ فکر و فن کی روشنی

    اُن کا جاسوسی ادب میں ہے نمایاں اک مقام
    پھر بھی اپنے عہد میں تھے وہ شکارِ بے رُخی

    اُن کے کرداروں سے ظاہر ہے وہ تھے بیدار مغز
    ہے نمایاں اُن کے فن پاروں سے عصری آگہی

    ناولوں ہی تک نہ تھیں محدود اُن کی کاوشیں
    مرجعِ اہلِ نظر ہے اُن کا ذوقِ شاعری

    ایک ہی دن اُن کا ہے یومِ تولد اور وفات
    چھین لی چھبیس جولائی نے ہونٹوں سی ہنسی

    نام تھا اسرار احمدمحرمِ اسرار تھے
    ہوتی ہے محسوس برقی آج بھی اُن کی کمی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. واہ واہ برقی اعظمی صاحب
      آپ فی البدیہہ لکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے
      بہت بہت شکریہ

      حذف کریں
  5. ہے یہ قطب الدین شاہد کا حقیقی تبصرہ
    ’’ زندۂ جاوید کرداروں کو اپنے کردیا‘‘

    درحقیقت شہرۂ آفاق تھے ابنِ صفی
    ایسا جاسوسی ادب میں دوسرا کوئی نہ تھا
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں