دروازے پر کھٹکا اور ٹیلیگرام کی آواز ختم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-15

دروازے پر کھٹکا اور ٹیلیگرام کی آواز ختم

چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت دروازے پر کھٹکا اور ٹیلیگرام کی آوازہندوستان میں 15/ جولائی سے تاریخ کا ایک حصہ بن جائے گی جبکہ ملک بھر میں ٹیلیگراف کی ٹک ٹک بند ہو جائے گی۔
کسی بھی گھر پر اگر نصف شب کو کھٹکا ہوتا اور پھر ٹیلیگرام کی آواز آتی تو اس گھر میں صف ماتم بچھ جایا کرتی تھی کیوں کہ ٹیلیگرام اکثر المناک خبریں ہی لاتے تھے۔
موبایل اور انٹر نیٹ نے اس 160 سالہ خدمت کو ختم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آخری ٹیلیگرام ہندوستان میں 15/جولائی 2013 بروز پیر کو بھیجا جائے گا۔ اس کا آغاز 1953 میں مدراس میں ہوا تھا جس کے ذریعہ مدراس ، اوٹی اور بنگلور کو مربوط کیا گیا تھا۔ بھارت سنچار نگم لمیٹڈ کی ترجمان وجیا نے بتایا کہ ہم 20 ٹیلیگرام مراکز سے ان خدمات کو ختم کر رہے اور یہاں کے ملازمیں کو بی ایس این ایل کے دوسرے محکموں مین منتقل کیا جائے گا۔ ملازمین کی یونین کے ضلع سیکرٹری سریدھر سبرا منیم نے اس اعلان پر حیرت ظاہر کیا ہے کہ انتظامیہ نے کس طرح یہ فیصلہ کیا جبکہ پارلیمنت انڈین ٹیلیگراف قانون منظور کرچکی ہے۔ سریدھر نے کہاکہ حکومت کا یہ دستوری فرض ہے کہ وہ ٹیلیگرام خدمت فراہم کرے۔ صرف پارلیمنٹ ہی اسے بند کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
ٹیلیگرام دینے کا معاوضہ لفظوں کی تعداد پر ہوتا ہے۔ اسی لیے کم کم الفاظ میں مفہوم ادا کرنے کی کوشش شروع ہوئی اور اس کے نتیجے مین ایک الگ ہی ٹیلیگام کی زبان وجود میں آگئی۔ جیسے:
انور سیریئز اسٹاپ اسٹارٹ امیجیٹلی اسٹاپ ۔۔ [Anwar serious stop start immediately stop]
یہاں اسٹاپ سے مراد فل اسٹاپ ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ آسکر وایلڈ اپنی کتاب کی بکری کے بارے میں ناشر سے معلوم کرنا چاہتا تھا تو اس نے ناشر کو ٹیلیگرام کیا اور اس میں صرف سوالیہ نشان ؟ ہی لگایا۔
ناشر نے جواب میں استعجابیہ نشان ! بھیج دیا تھا۔

کوئی دیڑھ صدی بعد زیادہ تیز رفتار اور کم خرچ ظریقے وجود میں آ گئے جن میں ای میل سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ ایس ایم ایس اور انٹر نیٹ چیا ٹنگ بھی ہے۔ اگرچہ ای میل مین یا ایس ایم ایس میں کم الفاظ ضروری نہیں مگر لوگ کم لفظوں کا استعمال ہی نہیں کرتے بلکہ لفظوں کے حروف بھی کم کر دیتے ہیں جیسے:وای او یو کی جگہ صرف حرف "یو" استعمال کرتے ہیں۔
ٹی ڈبل او کی جگہ ہندسہ ٹو استعمال کرتے ہیں اس ظرح چیاٹنگ کی بھی الگ زبان بن گئی ہے جیسا کہ ٹیلی گرام کی زبان رہی تھی۔

بعض لوگ ایس ایم ایس میں بھی چیاٹنگ کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل نے 12/ میی 1945 کو امریکی صدر ایس ترو مین کو ایک نیا استعارہ دیا تھا "آئرن کرٹین" یعنی آہنی پردہ ، چرچل نے اس ٹیلیگرام میں سویت مقبوضہ جات کے لیے یہ استعارہ استعمال کیا تھا۔

ٹیلیگرام اگرچہ کچھ مدت میں ایک کہنہ اور ماضی کی شئے بن جائے گی مگراس میں استعمال شدہ ایسی علامتیں، استعارے اور الفاظ ادب اور لغت میں باقی رہ جائیں گے۔ ٹیلیگراف کی زبردست ترقی کے لیے 1850 میں "ویسٹرن یونین ٹیلیگراف کمپنی" نامی ایک کمپنی قائم ہوئی تھی تاکہ ایک دن ہی میں ملک بھر میں ٹیلیگرام بھیج دیا جائے۔ اب وہ کمپنی رقومات کی منتقلی اور دیگر مالیتی منتقلیوں پر توجہ دے رہی ہے۔ کمپنی کے ترجمان وکٹر چایت نے بتایا کہ ہم یہ مشکل فیصلہ بڑے افسوس کے ساتھ کر رہے ہیں۔کیوں کہ ہم اپنی اس وراثت سے اچھی ظرح واقف ہیں۔ لیکن یہ مواصلاتی کمپنی اب پوری طرح ایک مالیاتی منتقلی کمپنی مین بدلنے جا رہی ہے۔

متعدد ٹیلیگراف کمپنیاں جو مغربی یونین میں 1851 میں قایم ہوئی تھیں اس کمپنی سے مربوط ہیں اس نے اپنی پہلی منتقلی کا آغاز 1891 میں کیا تھا۔ جب کہ ہندوستان میں پہلا ٹیلیگرام کلکتہ سے ڈایمنڈ ہاربر کو 5/ نومبر 1850 میں بھیجا گیا تھا۔ سیمویل مورس نے پہلا ٹیلیگرام و اشنگٹن سے بالٹی مور کو 29/ مئی 1844ء کو کیا تھا۔

ہندوستان میں فبروری 1855ء کو یہ خدمت عوام کے لیے شروع کردی گئی۔ 1994 میں ویسٹرن یونین فینانشیل سرویسس نے پہلی فنانشیل منیجمنٹ کارپوریشن کو حاصل کرلیا جس نے پہلی اعداد و شمار کارپوریشن کو 7 بلین ڈالر میں گزشتہ ہفتہ خرید لیا۔ پہلی اطلاع یہ ملی ہے کہ وہ ویسٹرن یونین کو علیحدہ کمپنی میں بدل دے گی۔
ٹیلیگرام کے عروج کا زمانہ دوسری اور تیسری دہائی تھا جب کہ پہلی اور دوسری بڑی جنگیں ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں دوسرے ملکوں کو ٹیلیگرام بھیجنا یا طویل فاصلہ پر بھیجنا ٹرنک کال کے مقابلہ میں سستا تھا اسی لیے لوگ ٹیلیگرام کو ترجیح دیتے تھے۔ چونکہ چار حروف کے لفظ پر معاوضہ نہیں ہوتا تھا جبکہ خط فاصل ، وقفہ یا جگہ چھوڑنے پر معاوضہ ہوتا تھا اسی لیے لوگ جملہ ختم کرنے "ایس ٹی او پی" اسٹاپ استعمال کرتے تھے۔ جو اس سے واقف نہیں تھے وہ خط فاصل لگا دیا کرتے تھے۔
بہر حال انٹر نیٹ کے آ جانے کی وجہ سے اس کمپنی نے چھٹی اور ساتویں دہاٰئی سے ٹیلیگرام کو ختم کرنا شروع کر دیا لیکن ہندوستان پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا جہاں ابھی کمپییوٹر بھی نہیں پہنچا تھا ۔ موبایل فون اور انٹڑ نیٹ تو دور کی بات ہیں چنانچہ سائنس فکشن لکھنے والے اور جاسوسی ادب لکھنے والوں کے کردار اہم پیغامات دینے پبلک ٹیلیفون سنٹرس ہوٹلوں اور تجارتی اداروں کو تلاش کیا کرتے تھے۔
مگر اب کوئی ساٹھ سال بعد ہمارے پاس اس عمل کا آغاز ہو رہا ہے جبکہ ملک کے دیہی علاقوں میں بھی موبائل فون پھیل گئے ہیں ۔ چپراسیوں اٹنڈرس جھاڑو دینے والیوں کے پاس بھی موبائل فون ہیں۔
چرچل آسکر وائلڈ اور سیمویل مورس کے مذکورہ بالا ٹیلیگراموں کے علاوہ چند اور ایسے ٹیلیگرامس ہیں جو تاریخی حیثیت کے حامل بن گئے ہیں ۔ ایک ٹیلیگرام تو ایک معمولی سے دکاندار کا ہے جو اس نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو کیا تھا۔ دکان دار نے اسے اپنی بیوی کو گھر میں قتل کرتے دیکھ لیا تھا ۔ ڈاکٹر کربین نے 10/ جنوری کو اپنے گھر میں اپنی بیوی کو قتل کیا تھا اور کنیڈا فرار ہونے کیلیے فوری بندر گاہ بھاگ گیا تھا ۔ اس دکاندار نے اسکات لینڈ یارڈ کو فون کر کے پورا واقعہ سنا دیا اور اس ظرح جہاز کی روانگی سے قبل اسے پکڑ لیا گیا ۔ اسے 10/ نومبر 1910ء کو پھانسی ہوگئی۔ اسی طرح مشہور ادیب اور دانشور مارک ٹوین نے یہ سنا کہ پیرس میں اس کے انتقال کی خبر پھیل گئی ہے اور تعزیتی جلسے اور پیامات شایع ہو رہے ہیں تو اس نے لندن سے یہ ٹیلیگرام دیا کہ اس کے انتقال کی خبر انتہائی مبالغہ آمیز ہے۔

The End of an Era: India Shutters its Telegraph System

2 تبصرے:

  1. Yeah na sirf bahut ta'ajjub ki baat hai ke ham ne apni zindagi maien bahut se nayee nahee sahoolatien aur ijadat dikhien - balkay nayee ijadaat matrook hote bhi deikhen. jaise TELEX SERVICE. TAPE RECORDER. AUR SHAYED KUCH DIN BAAD T.V BHI -

    جواب دیںحذف کریں
  2. محترم عقیل عباس جعفری نے بھی اسی موضوع پر دلچسپ مضمون لکھا ہے
    ۔۔۔۔۔ اور فطرت کب بدلتی ہے

    جواب دیںحذف کریں