Daughter-in-law be treated as family member, not housemaid: Supreme Court
ملک میں بہوؤں کو زندہ جلادینے اور جسمانی اذیتیں دینے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آج کہاکہ بہو کو رکن خاندان تصور کیا جانا چاہئے نہ کہ گھر کی خادمہ اور اُسے کسی بھی وقت سسرال کے گھر سے نکال باہر نہیں پھینکا جاسکتا۔ عدالت عظمی نے کہاکہ سسرال میں بہو کا احترام کیا جانا چاہئے کیونکہ اس سے ایک مہذب سماج کا اظہار ہوتا ہے۔ جسٹس کے ایس رادھا کرشنن اور جسٹس دیپک مشرا پر مشتمل بنچ نے ایک شخص کی 7سال قید کی سزا برقرار رکھتے ہوئے یہ احساسات ظاہر کئے۔ اُس پر الزام ہے کہ اس کی اذیتوں سے تنگ آکر اُس کی بیوی نے خودکشی کرلی تھی۔ بنچ نے احساس ظاہر کیا کہ بہو کو خاندان کا ایک حصہ تصور کیا جانا چاہئے، اس کے ساتھ محبت اور گرمجوشی کا رویہ روا رکھا جائے، اُسے اجنبی نہ سمجھا جائے اور نہ ہی دیگر افراد خاندان کے مقابل اس سے امتیاز برتا جائے۔ اُس کے ساتھ نوکرانی کی طرح سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ اُسے ایسا کوئی تاثر نہ دیا جائے کہ اسے سسرالی گھر سے کسی بھی وقت نکال باہر پھینکا جاسکتا ہے۔ سسرال میں بہو کی عزت اور احترام، بیاہ کے تقدس اور عہد کا حصہ ہے اور یہ ایک مہذب سماج کی پہچان ہے۔ ججس نے یہ بھی کہا کہ بہتر سلوک وہ رویہ ہے جس کا ایک دلہن خواب دیکھتی ہے لیکن شوہر اور سسرالی رشتہ داروں کی جانب سے بیشتر گھروں میں دلہن کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اُس سے سماج کی بے حسی کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات باعث شرم اور تشویش ہے کہ کئی معاملات میں دلہنوں سے اُن کے جینے کا حق چھین لیا جارہا ہے۔ دلہنوں کو زندہ جلادیا جاتا ہے یا جوڑے گھوڑے کی رقم اور جہیز کے لالچ کی بناء پر جسمانی اور ذہنی دونوں قسم کی اذیتوں کے ذریعہ اُن کی زندگی تلخ بنادی جاتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں