شاعر خلیج جلیل نظامی کے اعزاز میں جدہ میں ایک یادگار مشاعرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-26

شاعر خلیج جلیل نظامی کے اعزاز میں جدہ میں ایک یادگار مشاعرہ

(جدہ میں "ایک شام جلیل نظامی کے نام" پہلی بار 2008 میں اردو گلبن کے زیر اہتمام منعقد ہوئی اور اب دوسری بار اس کا انعقاد 24 اپریل 2013 کی شام بزم شگوفہ کی جانب سے ہوا اس موقع پر پیش کردہ ایک تعارفی مضمون ملاحظہ فرمائیے۔)

ماہ ِنو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی

یہ مشہور ِزمانہ شعر آج کے مہمان شاعر جلیل نظامی کا ہے ، جس کی سعودی عرب میں یہ تیسری حاضری ہے ،عرصہ پینتیس برس سے دوحہ قطر میں چمن ِاردو کی آبیاری میں یوں دیوانہ وار لگا ہوا ہے جیسے یہ اس کے اپنے مکان کاپا یئں باغ ہو۔دوحہ قطر میں غالب و میر کی جانشینی کا حق ادا کرتے کرتے اس نے دنیا بھر کی سیر بھی کی، بے شمار مشاعرے پڑھے جس میں سب سے اہم مشاعرہ میرے نزدیک لال قلعہ کا مشاعرہ ہے چونکہ لال قلعہ میں مشاعرہ پڑھنا اپنے بدن پر بم باندھ کر خودکُش حملہ کرنے سے کم حوصلے کی بات نہیں اورغالب کی دلّی میں جی سی ایم کا مشاعرہ بھی پڑھا جسے کہتے ہیں بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔اس طرح جلیل نظامی نے اپنے عہد کے قدآور شعرا کی نمائیندگی کرتے ہوے کہا ،

ہمارے حاسدوں میں غالب و میر و ظفر ہوتے
اگر ہم اتفاقاََ چند صدیاں پیشتر ہوتے

کوئی چیز اتفاقاََ ہوتی نہیں ہے اس لئے اس شعر کو اپنے عہد کے شعرا کی قدوقامت کے اظہار کا ایک علامتی ذریعہ سمجھا جائے۔

خاندانی تناظر میں اگر اس البیلے شاعر کا موازنہ کرنا چاہیں تو پتہ چلے گا کہ جلیل نظامی کسی نسبی شاعر کا نام نہیں ہے ، بلکہ زمین کی چھاتی میں معیشت کے تخم بوکر معاشرہ کو دال روٹی کے اسباب مہیا کرنے والے زارع آباو اجداد نے جہاں اس کلاسیکی شاعر کو جنگاوں تعلقہ کے ضلع ورنگل میں جنم دیا وہیں درس و تدریس کے عظیم المرتبت عہدوں پر فائز ننھیال کی جانب سے اس کی ذہن سازی بھی ہوئی۔ جامعہ نظامیہ جیسی جنوبی ہند کی عظیم درسگاہ کے نظام ِِِ ِدرسی نے محمد جلیل کو جلیل نؔظامی بنایا تو شفیق اساتذہ نے فکری اور دینی تربیت میں پختگی کے سامان مہیا کئے۔مدرسے سے علم ِ دین کی سند لینے کے بعد جلیل نظامی نے کالج کا رخ کیا اور دنیاوی علوم سے بھی اپنے معیار کو منواکرعثمانیہ یونیورسٹی سےڈگری حاصل کی ۔اپنی روایات اور زمین سے محبت رکھنے کے باوجو دیہ متوالا 1978 میں وطن سے دور خلیجی ملک بحرین اور پھرقطر کی جانب معاشی ہجرت کر گیا ۔قطر میں ہونے والے تمام چھوٹے بڑے مشاعروں میں ہمیشہ اپنا دست ِ تعاون دراز رکھتے ہوئے 1987 میں انڈو قطر اردو مرکز کے بینر پرجناب سلیمان دہلوی کی قیادت میں پہلا عالمی مشاعرہ پڑھا اور شعرا ئے قطر کے درمیان حیدرآباد کی بھرپور وکامیاب نمائندگی کی۔

اس کے بعد دبئی میں جشن آزاد میں شرکت، انجمن ِ شعرائے اردو ہند کا قیام،قطر میں پہلے عالمی مزاحیہ مشاعرے کا انعقاد جس میں صف اول کے طنزو مزاح نگار شعرا نے شرکت کی،جشن سلیم جعفری اور جشن محشر بدایونی میں اپنی فکری رفعتوں کا لوہامنوالینا،،قطر میں مرحوم مصیب الرحمن کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے مجلس فروغ اردو ادب کی بنیاد،اور پھر آخر میں انڈیا اردو سوسائیٹی کی داغ بیل اور تاحال صدارت کے منصب پر فائز ہونا ،جس کے زیر اہتمام 20 جون 2013 کو قطر میں جشنِ وسیم بریلوی کا بیڑا اُٹھا یا گیا ہے ، یہ وہ اہم سنگ ِ میل ہیں جہاں سے جلیل نظامی کی منزل کہکشاں کی صورت جھلمل جھلمل کرتی آسمان ِادب پر اس کا نام لکھوا چکی ہے۔ کسب معاش میں بھی جلیل نظامی نے اردو کا دامن نہیں چھوڑا اسلئے قطر کی وزارت ِ ثقافت کے اردو شعبہ کا ذمہ داربھی ہے۔

وطن سے سفر کے ذریعے تعلق رکھنے والا جب بھی اپنے وطن حیدرآبادجاتا ہے تو اس کا اپنا شعر اسے پھر پردیس لوٹا دیتا ہے کہ

کون کہلائے گا پھر قیس کا سجادہ نشیں
جب جلیل آپ بھی کرنے لگے صحرا سے گریز

بار بار خلیج کی طرف لوٹ جانے والے شاعر کو 1997 میں انجمن محبان اردو دکن کی تقریب میں ڈاکٹر عقیل ہاشمی کے ہاتھوں سٹی کالج طلبائے قدیم نے شاعر ِخلیج کے خطاب سے نوازا۔برصغیر کے مستند و مشہور اساتذہ حضرت والی آسی اور جناب مجروح سلطان پوری سے شرف ِ تلمذ رکھنے والا جلیل نظامی اپنے اطراف ہونے والے واقعات کو جب نظم کرنا چاہتا ہے تو کرکٹ کے میدان کو بھی نہیں چھوڑتا چنانچہ 2011 کے عالمی کرکٹ کے موقع پر کہی گئی کرکٹ کی رواں کامنٹری مثنوی کی شکل میں ایسے ترتیب دی جیسے گیسوئے یار کی مشاطی کر رہا ہو۔بے شمار اصناف سخن پر دسترس رکھنے والا جب شیخ زاید کی برسی پر مرثیہ ،نور العین ،لکھتا ہے تو دبیر و انیس کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ ایسے قادر الکلام سخنور کا پہلا مجموعہ " مور کے بازو کُھلے" اسی سال منطر ِعام پر آنے کی توقع کی جارہی ہے۔

حضرات ! میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جلیل نظامی شعرپڑہتے ہیں تو عموماََ تمہید کا سہارا نہیں لیتے بلکہ اپنے سامعین کوباذوق اور ذی علم جان کر سیدھے سیدھے شعر سناتے ہیں، انکا عقیدہ ہے کے

تہہ میں ہم بحر کی رکھتے ہیں چمکتےموتی
یہ نمائش لب ِدریا نہیں ہونے دیتے

اس لئے کہ اچھا شعر سامع کے دل میں غواصی کرتاہوا داد نکال لاتا ہےاسےمانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، بھرپور تغزل کے ساتھ غم جاناں اور غم دوراں سے معمور کلاسیکی شاعری جلیل نظامی کا خاصہ ہے، جہاں تحت اللفظ میں شاعری پیش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے وہیں روایتی مشاعروں کےخوبصورت ترنم میں بھی انکا کلام لطف دیتا ہے۔آخر میں انکے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

شہر میں صورت ِ دیوار ِ تماشا ہوں جلیلؔ
اشتہاروں کی طرح لوگ ہیں چسپاں مجھ سے

***

قطر کے جلیل نظامی کو اس موقع پر "شاعر خلیج" کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔ بزم شگوفہ ، خاک طیبہ ٹرسٹ ، اردو گلبن، ٹوین سٹیز یوتھ ویلفئر اسوسی ایشن اور ساز اور آواز کی جانب سے اس یادگار شام، ایک منفرد مشاعرے کا انعقاد بھی عمل میں آیا۔ چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

جمیل نظامی (نعت)
اس سے بڑھ کر اور کیا دوں عظمتِ فن کا ثبوت
ان کے در تک آگیا میں شاعری کے راستے

صوفی سلطان شطاری
دردِ دل دردِ جگر ہوتو غزل ہوتی ہے
کچھ محبت کااثر ہو تو غزل ہوتی ہے
تابِ دل تابِ نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
تیرا دیدار اگر ہو تو غزل ہوتی ہے

محمد مختار علی
کیا کچھ نہیں بچوں کیلئے تم نے خریدا
تھوڑی سی اب اردو کی محبت بھی خریدو
رکھتے ہو اگر آنکھ تو حیرت بھی خریدو
دل ہے تو ذرا درد کی دولت بھی خریدو

فیصل طفیل
کچھ بھی ہوتا نہیں نیا مجھ میں
ایک موسم ہے زرد سا مجھ میں
عکس چننے میں عمر گزری ہے
ایسا ٹوٹا ہے آئینہ مجھ میں

علیم خان فلکی
ایک لمحہ کہ ترے نام کبھی لکھا تھا
تیری زلفوں کو حسیں شام کبھی لکھا تھا
یاد کی ٹیسیں لئے آتا ہے اکثر واپس
خط ترے نام جو بے نام کبھی لکھا تھا
آج مانے یا نہ مانے کوئی کل مانے گا
میں نے حالات کا انجام کبھی لکھا تھا

زاہد علی زاہد
یہ کیسی عالمی شہرت کے مالک بن گئے ہم لوگ
کہیں بھی ایک دھماکہ ہو ہمارا نام آتا ہے

نعیم بازید پوری
آنسووں کی پھوار تم سے ملی
زخم کے لالہ زار تم سے ملے
کاش بے اختیار تم سے ملوں
کاش یہ اختیار تم سے ملے

وطن کی یاد میں مغموم رہنا خود فریبی ہے
چلے جاتے ہیں گھر واپس جنہیں گھر یاد آتے ہیں

مہتاب قدر
پھر کوئی مہتابِ جاں نغمہ سرا ہے
اک ذرا سن لے غزل آہستہ چل اہستہ چل
گل و بلبل ہوں یا جگنو دیئے اچھے نہیں لگتے
تری موجودگی میں دوسرے اچھے نہیں لگتے

جلیل نظامی
دل کی بستی میں ہوس باعثِ فتنہ ہے جلیل
اس یہودی کو مدینے سے نکالا جائے

شام بوجھل ہی سہی شام ہے ڈھل جائیگی
دن بھی نکلے گا طیعیت بھی سنبھل جائیگی
اتنی روشن ہے مرے دل میں امید کی لو
مایوسی آئی مرے پاس تو جل جائیگی
ماہِ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائیگی

***
مضمون : مہتاب قدر ، جدہ۔
مہتاب قدر

Jeddah mushaira in honor of jaleel nizami

2 تبصرے:

  1. Mashallah well brief coverage all credits goes to Great Poets it was wonderful Musharayah once again expatriates enjoy with good thoughts.

    جواب دیںحذف کریں
  2. Mukarram Niyaz sahib salam e masnoon
    Tarrufi mazmoon ki isha'at ke lye mamnoon hoN, mushaire ki report is mazmoon ke sath chaspaN ki gai hai magar ye vo report nahi jo ham ne qalamband ki thi. balke ye report hi nahi ash'aar ka intekhab hai aur un se qabl jo tamheed bandhi gai hai us mai kaha gaya ke is mauqe par unheiN shayer e khaleej ke khitab se nawaza gaya ,sahi nahi hai, ye khitab unheiN Hyderabad ke kisi mushare mai dia gaya tha. reports mai is tarah ki tarmeem munasib nahi. shukria Mahtab Qadr Jeddah mahtabqadr@gmail.com

    جواب دیںحذف کریں