مولانا آزاد اردو یونیورسٹی انکاؤنٹر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-17

مولانا آزاد اردو یونیورسٹی انکاؤنٹر

معروف اور سینئر یو۔این۔آئی صحافی جناب عابد انور ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کی بےقاعدگیوں کا انکشاف کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
بحوالہ :
اردو یونیورسٹی میں اردو کا قتل، اردو کے بہی خواہ کب بیدار ہوں گے؟ - کالم : عابد انور

مولانا آزاد اردو اردو یونیوسٹی کا قیام پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت 1996 میں عمل میں آیا تھا۔آندھرا پردیش کی اس وقت چندرابابو نائیڈو حکومت نے زمین دینے کی پیشکش کے ساتھ حیدرآباد میں قائم کرنے مطالبہ کیا تھا۔ چندربابو نائیڈو اس وقت ڈھائی سو ایکڑ زمین دے کر ہیرو اور محب اردو بن گئے تھے۔ انہوں نے اردو یونیورسٹی کے لئے مسلمانوں کے وقف کردہ ان زمینوں میں سے دی تھی جس پر آج آئی ٹی ہب بنا ہواہے اوریہ پوری زمین وقف کی ہے۔ چندربابو نائیڈو حکومت نے اس طرح مسلمانوں کو خوب بے وقوف بنایا تھا۔ اس یونیورسٹی کا مقصد ملک میں اردو زبان میں تمام تکنکی اور پیشہ وارانہ تعلیم مہیا کرانا ہے جو آزادی سے قبل عثمانیہ یونیورسٹی کرتی تھی۔ اس کے سہارے اردو کی ترویج و اشاعت اور اردو داں طبقہ کو روزگار دلانا ہے۔ مولانا آزاد یونیورسٹی کے ویب سائٹ کے پہلے صفحہ پر اس یونیورسٹی کے مقصد کو یوں بیان کیا گیا ہے۔
An Act to establish and incorporate a University at the national level mainly to promote and develop Urdu language and to impart vocational and technical education in Urdu medium through conventional teaching and distance education system and to provide for matters connected therewith or incidental there to.
Be it enacted by Parliament in the Forty-seventh year of the Republic of India as follows.
جب رہبر ہی رہزن بن جائے اور محافظ ہی قاتل بن جائے تو اس کا پتہ لگانا اور علاج کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی صورت حال سے آج کل مولانا ابولکلام آزاد یونیورسٹی گزر رہی ہے۔ اس کے مقصد کو کسی غیر نے زک نہیں پہنچائی ہے بلکہ اسے اپنوں نے اس کی حق تلفی کی ہے۔

چند ماہ قبل مولانا آزاد یونیورسٹی کے زیرتحت چلائے جانے والے اردو اسکول ہیڈ ماسٹر کے عہدے کے انٹرویو کے سلسلے میں کولکاتا سے ایک سینئر سائنس ٹیچر جو اردو کے ایک معروف قلمکار بھی ہیں ، مولانا آزاد یونیورسٹی تشریف لائے تھے۔ انٹرویو سے واپسی کے بعد بذریعے ایمیل انہوں نے اپنے تاثرات "تعمیر نیوز بیورو" کو ارسال کیے۔ نومبر 2012ء میں تحریر کردہ یہ روداد ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

***
میرے ایک سابق کولیگ جو اب کلکتہ کے ایک گورنمنٹ کالج میں لکچرر ہیں نے مانو کی طرف سے شائع شدہ اشتہار کے جواب میں یونیورسٹی کے استاد کے عہدے کے لئے درخواست دی تھی۔انہیں اپنے ذرائع سے معلوم ہوا کہ ان کی ایک شناسا لیڈی پروفیسر دہلی سے بہ حیثیت انٹر ویور حیدرآباد جارہی ہیں۔ انہوں نے فوراً ان سے رجوع کیا لیکن محترمہ کی اطلاع نے اُن کی ساری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔"تم نے مجھ سے رجوع کرنے میں دیر کردی!"
میرے سابق کلیگ نے بڑے زہر خند لہجےمیں بتایا کہ انہوں نے باوثوق ذرائع سے معلوم کیا ہے کہ کن کن امیدواروں کا انتخاب کرنا ہے یہ سب آگے سے طے ہو چکا ہے۔ انٹرویو تو ایک eye-wash ہے۔پہلے تو میں نے سوچا کہ ایسی باتوں میں کچھ حقیقت بھی ہوتی ہے اور کچھ فسانہ بھی۔ لیکن جب ماڈل اسکول کےہیڈماسٹر کے عہدے کے لئے درخواست دئیے ہوئے ایک سال ہو گیا اور کوئی خبر نہیں ملی تو مجھے اپنے ایکس کلیگ کے ذرائع پر اعتبار کرنا پڑا۔
لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس معاملے میں نہ تو کسی عدالتی مداخلت کی کوئی خبر آئی اور نہ ہی انٹرویو کا کال لیٹر۔لہٰذا میں نے مایوس ہو کر مانو کے حکام کو کوستے ہوئے اس پورے معاملے پرلعنت بھیجی اور اپنی قسمت پر صبر کر کے بیٹھ گیا۔
لیکن ، پورے ڈیڑھ سال کے بعد جب اچانک انٹرویو کال لیٹر آیا تو مجھے لگا شاید یہ عہدہ میرے لئے ہی خالی پڑا تھا۔ اب شاید میں پورے ہندوستان کو دِکھا پاؤں گا کہ اسکول ٹیچنگ کا معیار جدید ٹیکنولوجی کی مدد سے کہاں سے کہاں لے جایا جاسکتاہے۔
لیکن مانو کے حکّام کی بددیانتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ انٹرویو جس دن برپا کیا گیا تھا وہ تلنگانہ تحریک کا ایک خاص دن تھا جس دن ٹراسپورٹ سہولیات کا متاثر ہونا یقینی تھا، اور اس بات سے شہر کا ہر آدمی اور مانو کےاسٹاف ممبرس بھی جن سے میری بات ہوئی فکر مند تھے اور حفظ ماتقدم کے طور پر یا تو صبح صبح آفس پہنچ گئے تھے یا پھر رات آفس میں ہی گزارنے کا انتظام کر کے آئے تھے! ظاہر ہے تلنگانہ تحریک کی تاریخ آگے سے طے تھی، اور یہ بات حکام کوبھی یقیناً آگے سے پتہ تھی!باالفرض تلنگانہ تحریک کی تاریخ انٹرویو کی تاریخ کے بعد طے ہوئی تو اس صورت میں بھی مانو حکام کے پاس کافی وقت تھا انٹرویو ملتوی کرنے اور نئی تاریخ دینے کا۔

اب انٹرویو کے دن کا تماشہ سنو۔
امیدواروں کو ایک ہال میں بچھی کرسیوں پر بیٹھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہیں ایک گوشے میں ایک صاحب جن کی عمر پچاس سے ساٹھ سال کے درمیان رہی ہو گی، ایک میز کے پیچھے بیٹھے ہرآنے والے اُمیدوار کو بے توجہی سے دیکھتے ہوئے اپنے پیر ہلا رہے تھے۔ امیدوار خودہی کرسیوں پر بیٹھ کر مزید ہدایات کا انتظار کر رہے تھے۔ موصوف سے کچھ استفسار کرنے پر وہ ،حیدرآباد ی تہذیب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ،سبھوں کو "تم" کہہ کر مخاطب کرتے گویا Freshers سے باتیں کر رہے ہوں! (حالانکہ اُمیدواروں میں سبھی یا تو کسی نہ کسی اسکول کے ہیڈماسٹر تھے یا کم از کم دس پندرہ سال کا تجربہ رکھنے والے ٹیچر تھے کیوں اہلیت میں کم از کم پانچ سال ریگولر سروس مشروط تھی)۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ صاحب اُمیدواروں کی اسناد کی تصدیق کرنے کے کام پر مامور تھے۔کچھ وقفے کے بعد اُنہوں نے اشارے سے کسی کسی امیدوار کو اپنی جانب بلانا شروع کیا اور ان کی سرٹیفکیٹس کی verification شروع کر دی۔چند اُمیدواروں سے نپٹنے کے بعد وہ خاموشی سے بیٹھ گئے۔ اُمیدواروں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کیوں کہ ابھی بھی کئی اُمیدوار ایسے تھے جن پر موصوف کی نظرِ کرم نہیں پڑی تھی۔ ان "بدنصیبوں" میں، میں بھی شامل تھا۔یاد دِلانے پر موصوف کے ردِّ عمل سے یوں لگا جیسے اچانک خواب سے بیدار ہوئے ہوں"آپ کی اسناد کی تصدیق ابھی باقی ہے؟ ہاں، لائیے"۔
میرے ڈپلوما، ڈگریز اور عہدہ دیکھنے کے بعد موصوف فوراً "تم" سے "آپ" پر آگئے۔
"آپ کی کوالی فکیشنس تو بہت بھاری بھرکم ہیں، پھر آپ نے اب تک ایم اے کیوں نہیں کیا؟"موصوف نے میرے سرٹیفکیٹس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔(سرسری نظر اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان سرٹیفکیٹس میں ایک سرٹیفکیٹ ایسا بھی تھا جو واضح طور پر ظاہر کر رہا تھا کہ میں IGNOU سے ایم سی اے کر رہا تھا!)
"جی، شروع شروع میں سول سروسز کا ارادہ تھا اس لئے اس طرف دھیان نہیں دیا۔ لیکن اب میں IGNOU سے ایم سی اے کر رہا ہوں جس کی سرٹیفکیٹ بھی آپ کے سامنے ہے۔"میں نے وضاحت کی۔
"ایم سی اےکیوں؟"اس سوال پر تو میری زبان ہی گنگ ہو گئی۔
ایک سائنس کے آنرز گریجویٹ سے جو کمپیوٹر پروگرامنگ میں ڈپلو رکھتا ہے پوچھا جا رہا ہے کہ ایم اے (آرٹس میں پوسٹ گریجویشن) کیوں نہیں کیا، لیکن میں نے اس احمقانہ سوال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اب اس "ایم سی اے کیوں؟" کا کیا جواب دیتا! بہر حال میں نے retort نہ کرتے ہوئے سیدھے سیدھے کہہ دیا کہ میں ایک سائنس گریجویٹ ہوں اور مجھے کمپیوٹرس سے بہت لگاؤ ہے اس لئے میں نے ایم سی اے ارادہ کیا۔
دو تین امیدواروں کے بعد مجھے بلایا گیا۔جب میں انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوا تو میری آنکھیں خیرہ رہ گئیں۔
بڑا سا کمرہ بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا اور کافی lightedتھا۔درمیان میں ایک لمبی سی میزتھی جس کے گرد خلاف توقع انٹرویورس کی ایک بہت بڑی فوج (تقریباًدس نفوس یا اس سے بھی کچھ زیادہ) براجمان تھی (شاید ہندوستان کے آرمی چیف یا DRDO چیف کی تقرری کے لئے اتنے بڑے انٹرویو بورڈ کی تشکیل کی جاتی ہو)۔میز کے ایک سِرے پر چیف انٹرویور بیٹھے تھے اور دونوں جوانب قطار میں چار چار یا پانچ پانچ دوسرے "ایکسپرٹس" اپنے سامنے کچھ کاغذات لئے اس طرح سرجُھکائے بیٹھے تھے گویا"جہاں پناہ" کے حکم کے بغیر سَر اُٹھانابھی سرتابی کے مترادف ہو!اُن سبھوں کے سامنے پانی سے بھرا ایک ایک گلاس اور ایک ایک طشتری میں مختلف رنگوں کی انواع اقسام کی کھانے پینے کی چیزیں کچھ اس انداز میں سجا کر رکھی گئی تھیں گویا سنجیو کپور یا نیتا مہتا کی کسی نئی Recipe Book کی ٹائیٹل کے لئے تصویریں لی جانی تھیں۔(میں نے آج تک کسی انٹرویوکی میز پر پانی کا گلاس اور چائے کی پیالی کے علاوہ اور کسی کھانے پینے کی چیزیں نہیں دیکھی تھیں۔اگر اتنے ہی "ندیدے "تھے تو انٹرویوکے درمیان بریک یا وقفہ کے دوران بھی یہ شغل جاری رکھ سکتے تھے۔ویسے بھی چیف انٹرویور کے "دبدبے" سے لگ رہا تھا کہ کسی انٹرویور کا ہاتھ لاشعوری طور پر بھی اگرکھانے کی چیزوں کی جانب بڑھتا تو چیف کا دوہتھڑ اس کی ہتھیلی پر پڑتا:"ابے اتنی ہڑبڑی کس بات کی؟انٹرویو ختم ہونے تک تو برداشت کر!")۔بہ الفاظ دیگر، کمرے کا منظر انٹرویو بورڈ کم ، ہالی ووڈ کی کسی فلم کا سیٹ زیادہ لگ رہا تھا۔

بہر حال ،میں اشاروں میں چیف کی اجازت لے کر میز کے دوسرے سِرے کی کرسی پر بیٹھ گیا۔
"ہاں، تو جاوید صاحب، یہ بتائیے آپ نے انگریزی میں آنرز کیا ہے پھر آپ نے ہیڈ ماسٹر کے عہدے کے ساتھ ساتھ سائنس کے ٹیچر کے عہدے کے لئے کیسے درخواست دے دی؟"انہوں نے میری طرف جواب طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"ہائیں؟ میں نے انگریزی میں آنرز کیا ہے؟یہ آپ نے کہاں سے سُن لیا؟"میں چیف انٹرویور کی لاعلمی پر دنگ رہ گیا۔
"یہ …یہاں لکھا ہو اہے۔"انہوں نے اپنے سامنے پڑے کاغذات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"جناب، ٹھیک سے دیکھئے، میں سائنس گریجویٹ ہوں اور میں نے زولوجی میں آنرز کیا ہے۔"
"اوہ!"چیف تھوڑے خفیف ہوئے "دیکھئے، ہوئی نا غلط فہمی"انہوں نے اپنی ٹولی کے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
سبھوں نے نظریں اُٹھائے بغیر سر ہلا کر ان کے خیال سے اتفاق کا اظہار کیا۔
میں اب تک یہی اندازہ کرتا آیا تھا کہ انٹرویورس اپنے سامنے بیٹھے امیدوار کے کوالی فیکیشنس کا تفصیلی اور بغور جائزہ لینے کے بعد ہی سوال شروع کرتے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ شروع سے ہی مشکوک تھا۔
"ہاں تو جاوید صاحب، آپ کافی دور سے، مغربی بنگال سے آئے ہیں۔میرے خیال سے پہلا سوال آپ کی طرف سے ہو۔"انہوں نے اپنی بائیں جانب بیٹھے پہلے ایکسپرٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"آپ نے رابندر ناتھ ٹیگور کو تو پڑھا ہی ہوگا۔"مذکورہ ایکسپرٹ نے میری جانب پہلو بدلتے ہوئے کہا، اور پھر میرے جواب کا انتظار کئے بغیرلہک کر ایک بنگلہ نظم پڑھنی شروع کر دی۔پھر نظم کے اختتام پر سوال کیا:
"اس نظم میں شاعر کس سے مخاطب ہے؟"
میں بھونچکا رہ گیا۔ یا الٰہی، یہ ماجرا کیا ہے۔ کہیں میں بھول سے کسی غلط انٹرویو روم میں تو داخل نہیں ہوگیا۔ یا پھر کہیں میری درخواست فارم کسی غلط شعبے میں تو نہیں چلی گئی۔اس سوال کا دور کا بھی تعلق نہ تو میری کوالی فیکیشنس سے تھا اور نہ ہی اس عہدے سےجس کے لئے انٹرویو لیا جارہا تھا۔ایک آرٹس گریجویٹ سے بھی جس کا بنگلہ زبان سے میٹرک، ہائر سکنڈری اور گریجویشن میں سے کسی لیویل میں بھی تعلق نہ ہو، اس سوال کے جواب کی توقع نہیں کی جاسکتی ، میں ٹھہرا سائنس گریجویٹ!اگر مانو کے تحت چلنے والے ماڈل اسکولوں میں سے کوئی ایک مغربی بنگال میں بھی واقع ہوتا تب بھی اس سوال کا کھینچ کھانچ کر کوئی تعلق مذکورہ عہدے سے نکالا جاسکتا تھا۔ لیکن جیسا کہ تم کو معلوم ہے فی الحال یہ اسکولس صرف تین مقامات نوہ (ہریانہ)، دربھنگہ اور حیدرآباد میں چل رہے ہیں۔ باالفرض ،اس سوال کا مقصد امیدوار کے ذوق کے بارے میں جاننا تھا تو اس سوال کی حیثیت ضمنی ہونی چاہئے تھی جسے انٹرویو کےاخیر میں پوچھا جانا چاہئے تھا، اور اگر پوچھ بھی لیا تو فوراً دوسرے اہم سوالات کی طرف بڑھ جانا چاہئے تھا۔لیکن مجھے تذبذب کے عالم میں دیکھ کر انہوں نے کہا:
"میں نظم پھر پڑھتا ہوں، آپ دھیان سے سُنیے۔" انہوں نے لہک لہک کر پھر سے نظم سنانی شروع کردی۔نظم کے اختتام پر بھی مجھے خاموش دیکھ کر وہ یوں گویا ہوئے:
"اچھا، بتائیے ٹیگورؔ کس قسم کے شاعر تھے، میرا مطلب ہے ان کی شاعری کا موضوع کیا تھا؟"
"نیچر، قدرت۔"میں نے جواب دیا۔
"تو بس وہ قدرت سے مخاطب ہیں۔"انہوں نے خود ہی جواب دیا۔

اب دوسرے "ایکسپرٹ" کی باری تھی۔انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا:
"انگریزی میں کون سا شاعر آپ کا پسندیدہ شاعر ہے؟"
میں نے Keats کا نام لینا چاہا لیکن پھر رُک گیا۔ دراصل ان کا گیم پلان مجھے سمجھ میں آنے لگا تھا۔امیدوار ایک سائنس گریجویٹ تھا، کمپیوٹر پروگرامنگ میں ڈپلوما ہولڈر تھا، پندرہ سال سے سائنس ٹیچر کے عہدے پر فائز تھا، درخواست فارم میں کافی نمایاں طور پر اس نے اردو میں سائنس کے موضوعات پر GIF Animator اور Power Point کی مدد سے منفرد animationتخلیق کرنے کا دعویٰ کیا تھا،علی گڑھ میں Use of Computers in Teaching کے موضوع پر ورک شاپ میں حصّہ لیا تھا اور جہاں اس نے ٹریننگ لینے کی بجائے ہندوستان کے مختلف حصّوں سے آئے ٹیچروں کو پریکٹیکل ٹریننگ دی تھی، اور اس سے بنگلہ ادب اور انگریزی ادب پر سوالات پر سوالات کئے جا رہے تھے، اور وہ بھی صرف اس لئے کہ میں نے انگریزی گرامر سے دلچسپی رکھنے اور قدرے مہارت رکھنے کی وجہ سے انگریزی میں اسپیشل بی اے کر لیا تھا۔اگر میں Keats کانام لیتا تو مجھے یقین تھا یہ لوگ کیٹسؔ کے شجرہ کے ساتھ اس کی شاعری کا تنقیدی تجزیہ اور دوسروں کے ساتھ تقابلی جائزہ کے ہتھیار سے لیس مجھے "گھیرنے"کی کوشش کرتے۔لہٰذا میں نےبدمزگی کو چھپاتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا:
"جناب، میں ایک سائنس گریجویٹ ہوں، پندہ سالوں سے سائنس کے ٹیچر کی حیثیت سے ایک سرکاری اسکول میں درس و تدریس کا کام انجام دے رہا ہوں، اور آپ لوگ ہیں کہ صرف بنگلہ اور انگریزی ادب پر ہی سوالات کئے جارہے ہیں۔"
"تو ٹھیک ہے، گیس تھیوری کے اہم نکات پر روشنی ڈالئے۔"ایک تیسرے انٹرویور نے گویا میری "بات رکھ لی"۔

میں سمجھ گیا کہ ان لوگوں نے پوری پلاننگ کر لی ہے اور ٹھان لیا ہے کہ بایولوجی، کمپیوٹرس اور ایجوکیشن، وہ تین موضوعات جن کا تعلق مجھ سے اور نئے عہدے سے تھا، پر کوئی سوال نہیں کریں گے! ذرا سوچو، پندرہ سالوں سے بایولوجی پڑھانےوالے ٹیچر سے اگر فزکس کے اس لیول کا سوال کیا جائے تو کیا اس سے جواب کی توقع کرنا جائز ہے؟مجھے یقین ہے کہ اگر میں فیزکس میں ایم ایس سی ہوتا تو وہ لوگ ڈاروِن کے نظریۂ ارتقا پر سوال کرتے۔ لہٰذا انٹرویو میں کامیابی کی طرف سے پوری طرح سے مایوس ہو کر میں نے سیدھا کہہ دیا:
"کیا مجھے باربار بتانا پڑے گا کہ میں زولوجی میں آنرس ہوں؟"
"تو ٹھیک ہے آپ نے Taxonomy of Education کے بارے میں تو پڑھا ہی ہوگا۔ اس کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟"اس بار چیف نےسوال کیا۔
"Taxonomy of Education؟"میں نےسوالیہ انداز میں پوچھا۔
"کیوں؟ آپ کے بی ایڈ کورس میں یہ chapterشامل نہیں؟"انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں۔ کم از کم مجھے تو نہیں پڑھایا گیا۔میں نے تو یہ ٹرم پہلی بار سُنا ہے۔" میں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا۔
"ہوں،"چیف نے ایک لمبی سانس لی"بنگال کے بی ایڈ کورس کو اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔"موصوف نے گویا خود کو" اَپ ٹو ڈیٹ" ثابت کر کے اپنی "علمیت" کا لوہا منوالیا۔ جس بندے کو میری ڈگری اور اسٹریم تک کا پتہ نہیں تھا ، اس سے سنہ عیسوی پر نظر ڈالنے کی توقع رکھنا ہی فضول تھا۔میں نے بی ایڈ بیس سال پہلے (1992 میں) کیا تھا، اور اُمید ہے اس زمانے میں اُن کی ریاست میں بھی یہ موضوع شامل نہ رہی ہوگی۔
"اچھا، Taxonomy کے بارے میں بتائیے۔یہ تو آپ ہی کے مضمون کا موضوع ہے۔"موصوف نے گویا سوال کو "بریک" کر کے میرے لئے "آسان" کر دیا۔
"ٹیکسونومی کے بارے میں کیا بتاؤں؟"میں نے وضاحت طلب کی۔
"ہائیں؟ آپ تو اُلٹے سوال کر رہے ہیں؟"چیف نے چونک کر پوچھا۔
"جی ہاں، اگر سوال وضاحت طلب ہو تو ضرور کروں گا۔" میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"اگر کلاس میں کوئی بچہ آپ سے کوئی سوال کرے تو آپ خود اُس سے سوال کریں گے؟"
"جی، بالکل کروں گا۔ ظاہر ہے جب سوال ہی واضح نہ ہو تو درست جواب دینا بھلا کیسے ممکن ہوگا؟"میں نے بھی آمنے سامنے کے مقابلے کے لئے خود کو تیار کرلیا تھا۔ انٹرویو گیا چولہا بھاڑ میں! "آپ کا سوال specific نہیں۔ آپ کوپوچھنا چاہئے ‘ٹیکسونومی کیاہے’ یا ‘ٹیکسونومی کی تعریف بیان کیجئے’ یا ‘ٹیکسونومی کسے کہتے ہیں، ٹیکسونومی کے اصول یا مقاصد کیا ہیں’ وغیرہ۔ ‘ٹیکسونومی کے بارے میں بتائیے ’ سے کیا مطلب ہوا؟ ٹیکسونومی کے بارے میں تو بہت کچھ بتایا جاسکتاہے۔"
"چلئے، اگر آپ سے کہا جائے کہ ٹیکسونومی کے موضوع پر دومنٹ کے لئے کچھ کہئے، تو آپ کیا کہیں گے؟"
"یہ سوال کچھ حد تک specificہوا۔ حالانکہ مزید specificہونے کی ضرورت تھی۔ " اور پھر میں نے انہیں بتایا کہ ٹیکسونومی سائنس کی وہ شاخ ہے جس کے تحت پودوں اورجانوروں کی naming، درجہ بندی اور ان کے اصولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اور پھر naming اور درجہ بندی کے چند بنیادی اصول بھی مختصراً بتا دئیے۔
"گُڈ!"چیف نے میرے خاموش ہوتے ہی کہا۔"اب آپ ہی بتائیے، آپ سے کس موضوع پر سوال کیا جائے۔"

جی میں تو آیا کہ کھڑے ہو کر کہہ دو ں کہ جب امیدوار کا انتخاب پہلے سے ہی ہو چکا ہے تو اس ڈرامے کے ذریعہ ہمارا وقت، پیسہ اور انرجی برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔آپ جیسے ضمیر فروش اور کرپٹ لوگوں کی وجہ سے ہی یہ قوم اور اس کی زبان کی نیّا ڈوب رہی ہے، خواہ مخواہ حکومت اور دوسری قوموں کو الزام کیوں دیں؟
موصوف کو میری لمبی چوڑی اور varied کوالی فکیشن دیکھ کر بھی سوال کا موضوع نہیں سوجھ رہا تھا!
میں نے کلکتہ یونیورسٹی سے زولوجی میں آنرز کرنے کے بعدبردوان یونیورسٹی سے بی ایڈ (فرسٹ کلاس) بھی کیا تھا۔Educational Psychology اور Remedial Education میرے پسندیدہ اور خاص موضوعات تھے۔بعد ازاں، کلکتہ یونیورسٹی سے ہی انگریزی میں اسپیشل بی اے کیا۔پھر انگریزی میں ہی ایم اے کرنے کا ارادہ ہوا ۔ لیکن اس مضمون میں آنرس نہ ہونےکی وجہ سے کالج میں تقرری کے امکانات بہت کم تھے۔ یہ جان کر زولوجی (Practical based subject) میں ہی ایم ایس سی کرنے کی ٹھانی۔ مگر اِن سروس ٹیچر ہونے کے ناطے حکومت مغربی بنگال کے شعبۂ تعلیم کےتحت ڈائرکٹر آف اسکول ایجوکیشن کی اجازت کے جھمیلوں سے تنگ آکر ایم سی اے کرنے کی ٹھان لی(یہ اِگنو کے فاصلاتی تعلیمی نظام کے تحت ہوتا جس کے لئے اجازت کی ضرورت نہ تھی)۔ اس دوران میں نے سی ایم سی سے ڈپلوما اِن سافٹ وئر ٹیکنولوجی بھی مکمل کر لیا۔پھر چار پانچ سال قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر فار پروموشن آف سائنس کے زیرِ اہتمام Computer Application in Teaching کے تحت ایک دس روزہ ورک شاپ میں حصّہ لیا جس کے لئے پورے ہندوستان سے تقریباًتیس ٹیچرس منتخب کئے گئے تھے۔ جب حکام کو پتہ چلا کہ ٹیچروں کو جن باتوں کا علم اور جن صلاحیتوں کی تربیت دی جانی ہے میں اس سے کہیں زیادہ جانتا ہوں تو اُن لوگوں نے مجھے فیکلٹی کے ساتھ کام کرنے کے لئے الگ کرلیا۔ لہٰذا میں تھیوری کلاسزمیں خاموش بیٹھا رہتااور پریکٹیکل کلاسز میں بطور فیکلٹی پاور پوائنٹ سلائیڈس بنانا، ایکسیل اسپریڈ شیٹ کی مدد سے پروگرامڈ ٹیبولیشن شیٹ اور رزلٹ بنانا سکھاتا۔اپنی جن صلاحیتوں کا میں نے درخواست فارم میں ذکر نہیں کیا تھا وہ کچھ یوں ہیں کہ میں خوش نویس بھی ہوں، اور چاک کو ایک خاص زوایے سے پکڑ کر بلیک بورڈ پر بھی خطّاطی کے کئی نمونے دِکھا سکتا ہوں، بلکہ میں تو آگے سے ہی اپنے کلاسز میں رنگین چاک استعمال کرتا ہوں اور اردونستعلیق فونٹ کے علاوہ عربک فونٹ میں بھی جلی میں عنوانات لکھتا ہوں۔ اتنا ہی نہیں، چند سیکنڈس میں ہندوستان، مغربی بنگال اور گلوب کا نقشہ بنا سکتا ہوں۔ان ہی بنیادوں پر مجھے جغرافیہ کے کلاسز بھی دئیے جاتے ہیں!Human Anatomy سے متعلق کوئی بھی کمپلکس تصویر منٹوں نہیں سیکنڈس میں اسکیچ کر سکتا ہوں۔
…اور چیف کو اتنے متفرق صلاحیتوں میں سے سوالات کے لئے موضوعات نہیں مل رہے تھے! شاید موصوف Taxonomy of Education سے آگے کچھ رَٹ کر ہی نہیں آئے تھے!وہ اور ان کی ٹولی کے لوگ کمپیوٹرس، اور ایجوکیشن میں اس کے scope،سے بھی بے بہرہ تھے۔ماڈل اسکول کو سچ مچ کا ایک ماڈل اسکول بنانے میں سائنس، کمپیوٹرس اور جدید ٹیکنولوجی سے کہیں زیادہ رابندرناتھ ٹیگورؔ کی شاعری سے استفادہ کرنے میں یقین رکھتے تھے!

"کیا آپ نے اس انٹرویو کے لئے کوئی تیاری نہیں کی تھی؟" مجھے خاموش دیکھ کر موصوف گویا ہوئے۔
اس سوال نے ایک بار پھر میرے صبر اور تحمل کا کڑا امتحان لیا۔
یار، یہ بھی کوئی بی اے یا ایم اے کا امتحان ہے جس کے لئےکوئی نصاب مخصوص ہے اور جس کی تیاری کے لئے سابقہ سالوں کے سوالناموں کی بنیا د پر suggestions تیارکر کے ممکنہ سوالات کے جواب تیار رکھے جائیں!اور پھر تیاری freshers کرتے ہیں، پندرہ سالہ تجربہ کار ٹیچرس نہیں۔ایجوکیشنل سائیکولوجی، ہسٹری آف ایجوکیشن، ایجوکیشن کمیشن، RTI، RTE، کپل سبل کی نئی اصلاحات، تعلیمی پالیسی، مڈ ڈے میل، جدید ٹیکنولوجی کا تعلیم اور تعلیمی اداروں میں استعمال،job scenario اور ہماری تعلیمی پالیسی میں تبدیلیوں کی ضرورت ،کمپیوٹرس اینڈ ایجوکیشن وغیرہ جیسے ہزاروں موضوعات تھے جس پر انٹرویورس سوال کرتے کرتے تھک جاتے مگر میں جواب دیتے دیتے نہیں تھکتا!
جس پوسٹ اور جس اسکول کے لئے انٹرویو لیا جارہا تھا اس کے لئےاہم موضوعات یوں ہونے چاہئیں تھے: ماڈل اسکول کو ایک مثالی ماڈل اسکول بنانے کے لئے آپ کمپیوٹرس اور جدید ٹیکنولوجی کا کیسے استعمال کریں گے؛آپ کے خیال میں ہمارے اردو اسکولوں کے موجودہ مسائل کیا کیا ہیں اور آپ کے خیال میں ان کا حل کیا ہونا چاہئے؛پورے ہندوستان میں سائنس اور ریاضی کا نصاب ایک یعنی کامن کرنے کی حکومت کی حالیہ تجویز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؛اردو اسکولوں کو کرسچن مشنری اسکولوں کے معیار کے برابر کرنے کیلئے آپ کو ن کون سے قدم اُٹھانا چاہیں گے، مولانا آزادؔکی مسلمانوں کی عصری تعلیم و تربیت سے متعلق کیا رائے تھی؛ انہوں نے بحیثیت اوّلین وزیر تعلیم کیا کیا اہم فیصلے لئے تھے، وغیرہ۔ (لیکن یہ نام نہاد "ایکسپرٹس" تو رابندر ناتھ ٹیگورؔ اور انگریزی ادب کی" شاعری سے مخمور" تھے!)

یہ کمبخت جسپال بھٹّی بھی بڑا بے وقت مَر گیا ورنہ ان سبھوں کی ایسی "فلوپ شو" دِکھاتا کہ بس مزہ آجاتا!
ایک دو مہینے قبل، بزم نثّار (جس کا میں فاؤنڈنگ ممبر اور جوائنٹ سکریٹری ہوں) کی ایک نشست میں امام اعظم بحیثیت مہمانِ خصوصی حاضر تھے۔یہ وہی امام اعظم ہیں جو MANUU کے ریجنل ڈائرکٹر(مشرقی اور شمال مشرقی ہند) ہیں ۔ مانو کا ریجنل آفس اور اسٹڈی سنٹر دی مسلم انسٹی ٹیوٹ ہے جس کی عمارت میرے اسکول سے ملحق ہے اور جہاں علیم خان فلکی صاحب کا پروگرام منعقد ہوا تھا۔ امام اعظم صاحب جب سامعین سے مخاطب ہونے کے لئے کھڑے ہوئے تو بزم نثار کے بارے میں چند رسمی جملے بھی نہیں کہے اور مانو کی خدمات اور کارناموں کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرنی شروع کردیں، اور پھر اس کے بعد اردو کی خدمات کے لئے اپنی ذاتی "قربانیوں" اور "انتھک کوششوں" کا راگ الاپنے لگے! جب مانو کے کارناموں کی تفصیل ضرورت سے زیادہ دراز ہونے لگی اور سامعین کے چہروں پربھی بیزاری کے آثار قدرے واضح نظر آنے لگے تو میری بھی قوت برداشت جواب دے گئی۔ میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ مجھے خدشہ ہے کہ مانو کا حشر بھی کہیں جامعہ علی گڑھ کی طرح نہ ہو جس کے ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کے امتحانات ( جو بالترتیب میٹریکولیشن، ہائر سکنڈری اور گریجویشن کے parallel ہوتے ہیں)محض ایک farce بن کر رہ گئے ہیں۔ (تمہارے علم کے لئے بتادوں کہ ان امتحانات میں کئی مرکزوں پر نگراں خود گائیڈ بک وغیرہ سے دیکھ کر لکھنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی خود بھی اپنی طرف سے کتاب مہیا کرتے ہیں اور صفحہ نمبر وغیرہ بتا دیتے ہیں! ایک جگہ تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ امیدوارنہ صرف helper لے کر آئے تھے بلکہ سوالنامے اور جواب کی کاپیاں گھر لے گئے اور امتحان کا وقت ختم ہونے سے پہلے جواب لکھ کر امتحان ہال میں آکر کاپیاں جمع دے گئے!) اتنا سُننا تھا کہ امام صاحب ہتھے سے اُکھڑ گئے ۔ کہنے لگے انہیں بھی جامعہ علی گڑھ کے بارے میں معلوم ہے اور مانو کی ذمہ داریاں پہلے پہل اسے ہی دی جانی تھیں لیکن اسی امیج کی وجہ سے ایسا نہیں کیا جا سکا، اور پھر مجھ پر نشانہ کستے ہوئے کہہ ڈالا کہ مجھ جیسے لوگ ہی مانو کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ورنہ مانو تو …

جب میں نے ماڈل اسکول کے ہیڈماسٹروں کی تقرری کا اشتہار اور انٹرویو کال لیٹر میں غیرمعمولی تاخیر کے معاملے کا ذکر کیا تو بھی موصوف کی "برہمی" میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی۔کہنے لگے یہ انتظامیہ کا داخلی معاملہ ہے انہیں اس کا کچھ علم نہیں۔لیکن جس طرح انہوں نے میرے الزامات کا ردعمل ظاہر کیا اور مجھے ٹارگٹ کر کے "گرم اور تلخ" لہجے میں "اُردو کے نام نہاد ہمدردوں اور دشمنوں" پر نشانہ سادھا، اس سے صاف لگا کہ میں نے دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔پہلے تو انہوں نے مجھے کوئی بے روزگار نوجوان سمجھا جس کی "عمر نکلی جارہی تھی" اور جو frustration میں "الزامات" لگا رہا تھا! لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ شعبۂ تعلیم کے ایک گورنمنٹ آفیسر سے مخاطب ہیں جو ہندوستان کے اوّلین گورنمنٹ اسکول کا ٹیچر بھی ہے تو لہجے میں ایک دم سے تبدیلی آئی اور انہوں نے مجھے اپنی قیام گاہ کا پتہ، موبائل نمبر دیتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ سے تفصیل سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں!شاید میری مزید لب کشائی کے نتیجے میں ہونے والے embarrassment سے بچنا چاہتے تھے۔مانو کے کولکاتا مسلم انسٹی ٹیوٹ اسٹڈی سنٹر میں ہونے والی بدعنوانیوں کے تعلق سے چند مہینوں قبل کولکاتا کے چند مقبولِ عام اُردو اخبارات میں سنسنی خیزمراسلے چھپے تھے(افسوس کہ میں ان کے تراشے محفوظ نہیں رکھ سکا)۔ لکھنے والے نے اپنے اصلی نام کے ساتھ اسٹڈی سنٹر کے کے انچارج پر الزام لگایا تھا کہ وہ موٹی رقم لے کر کس طرح طلبا و طالبات کو نہ صرف "suggested questions and answers" مہیا کرتے ہیں بلکہ امتحان ہا ل میں اور کاپیوں کی جانچ کے دوران بھی اُن پر اپنا "سایۂ کرم" بنائے رکھتے ہیں۔ اس نے انچارج کا اصل نام اور ان اسٹوڈنٹس کا بھی اصلی نام دیا تھا جن پر موصوف کی خصوصی کرم فرمائی ہوئی تھی اور چیلنج کیا تھا کہ وہ الزام کو جھٹلا کر دِکھائیں! میں تاقیامت اس بات پر یقین نہیں کروں گا کہ امام اعظم صاحب ان واقعات سے متعلق اندھیرے میں ہوں گے۔میں نے آج تک نہ اُن کے موبائل پر کبھی کوئی کال کیا اور نہ ہی اُن سے ملنے کبھی ان کی قیام گاہ پر گیا، بلکہ اس "مڈبھیڑ" کے بعد ان سے کہیں بھی کبھی نہیں ملا۔ہو سکتا ہے میرے انٹرویو کے "حشر" میں ان کا بھی ہاتھ (یا ‘زبان’) رہا ہو کیوں کہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹےبٹے ہیں جو "کھاؤ اور کھانے دو" کے اصول پر کاربند ہیں۔مانو کے اسٹڈی سنٹروں میں ان ہی ٹیچروں کو پڑھانے (اور کمانے کا) موقع دیا جاتا ہے جو مذکورہ انچارج کے حلیفوں میں سے ہیں۔ دیگر حضرات جو ان کے حریفوں یا دشمنوں میں سے نہ بھی ہوں مگر قابلیت اور صلاحیت میں ان سے آگے ہوں،کو ان اسٹڈی سنٹروں سے دور رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ کولکاتا کے ایک مضافاتی اسٹڈی سنٹر میں ایک ایسا نوجوان اردو کے "لکچرر" کی حیثیت سے کلاسز لے رہا ہے جو اسکول میں میرا کلاس میٹ ہوا کرتا تھا اور گریجویشن میں جس سے آنرز "چھین" لیا گیا کیوں وہ فرسٹ ایر کے انٹرنل امتحان میں بھی کوالی فائی نہیں کرسکا تھا ! پاس کورس ہونے کی وجہ سے وہ ریگولر طور سے کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے سے معذور تھا لہٰذا اس نے "پرائیوٹ سے" بہار وغیرہ سے پی جی کر لیا لیکن اس کی ‘تذکیر و تانیث’ کی تمیز اب بھی وہی ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی!اندازہ کرو ان اسٹڈی سنٹروں سے پڑھ کر پاس ہونے والوں کا معیار کیا ہوتا ہوگا!کلکتے میں مقیم میرے ایک قریبی شناسا جو زیرِ حکومتِ مغربی بنگال کمرشیل ٹیکس آفیسر ہیں اور نہایت مصروف آدمی ہیں، نے اچانک مجھے بتایا کہ انہوں نے پچھلے مہینے انگریزی میں ایم اے کر لیا!میں نے حیرت سے پوچھا، وہ کیسے؟ ہنستے ہوئے ایک آنکھ دبا کر کہنے لگے، ارے یار، مانو سے کیا، وہ لوگ سارا مٹیریل دے دیتے ہیں، بس لکھنا رہتا ہے۔مانو سے اردو میں ایم اے کرنے والوں کی تعداد بہت جلد کلکتے میں پائے جانے والے شاعروں کی تعداد سے بھی تجاوز کر جائے گی!

تو دوست، یہ رہی مانو میں میرے انٹرویو کی تفصیلی روداد، اور میرے تاثرات! بس اب اور "بور" نہیں کروں گا۔

***

Maulana Azad Urdu University Encounter

10 تبصرے:

  1. بجا فرمایا ، مجھے کبھی کبھی لگتا ہے صرف یہ کھانے کمانے کے لیے کھولی گئی ایک فرم ہے، اسٹڈی سینٹر (اور باہر قریبی زیروکس والے) سے لے کر ٹاپ لیول تک سارے کے سارے پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اسی چکر میں طلبہ کاوقت اور سرمایہ دونوں خراب کررہے ہیں۔
    ایڈمیشن
    جس کی تاریخ ایکدم شارٹ ہوتی ہے اور پھر کلاس شروع نہیں ہوتی (چلو نہ ہوئے ) مگر کتابیں تک ایسے وقت میں ملتی ہیں جب اسائنمنٹ جمع کرنے کی آخری تاریخ اپنی آخری سانسیں گن رہی ہوتی ہے۔
    کرشمہ یہ ہے کہ جہاں آپ نے اسائنمنٹ جمع کیا ایکزام کی تیاری اور اس کے متعلق مختلف مدوں میں رقم طلبی شروع (امتحان فیس نہیں کیونکہ وہ پہلے لے لی جاتی ہے)
    امتحان
    جب سے شروع ہوتے ہیں پھرکوئی دن اور چھٹی یا ایمرجنسی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، جس طرح مصنف نے تلنگانا والے دن انٹرویو کی بات کی ٹھیک اسی طرح اس بار ممبئی میں جس روز بال ٹھاکرے کے موت کی خبر گرم تھی شہر میں ٹرانسپورٹ ، عوام ہر ایک بہت کم چل رہے تھے مگر امتحانات اپنے وقت پر ہوئے، بیچارے جو دور دراز سے امتحانی مرکز پر آتے ہیں ان کا کیا بنا ہوگا اللہ اعلم
    خیرآخری پیپر کے روز ہی آپ کو اگلے سال کے لیے انرولمنٹ کرنے کو کہا جائے گا جیسے کہ نہ کریں تو یہ رزلٹ روک لیں گے۔
    خود کو بڑا اپڈیٹ سمجھنے والے ابھی تک ان کی فیس طلب کرنے کا طریقہ وہی پرانا ہے ، کاش اسے برقی ترسیل زر جیسے جدید طرز پر کر دیتے تو طلبہ (جن کی اکثریت جاب کرنے والوں کی ہے) کا وقت کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی بچتا اور باس سے چھٹی کی درخواست نہ لگانی پڑتی
    ان سب باتوں کے ساتھ میں مصنف سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سرجی ! کالج میں اسٹڈی سینٹروں میں یہ طلبہ کے ساتھ "ایکسٹرا" جیسا برتاؤ کرتے ہیں یعنی جو ہر جگہ ناکام ہوا وہ مانو آیا،سمجھتے ہیں
    مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ ان لوگوں نے ایک ویل کوائلی فائی سے بھی "ایکسٹرا" والا رویہ اپنایا

    جواب دیںحذف کریں

  2. طویل مضمون پڑھنے کے بعد جی چاہا کہ کچھ لکھا جائے۔
    معاملہ یہ ہے کہ جن صاحب کا انٹرویو لیا گیا وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے ساستھ ساتھ بے انتہائی احساس برتری کا بھی شکار ہیں، ایسا ان کی تحریر سے واضح ہوتا ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ احساس برتری در اصل احساس کمتری کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتی ہے!
    کوشش کریں کہ اس بیماری سے جلد از جلد نکل جائیں کیونکہ طالب علموں میں بھی استاد کے افکار و خیالات جھلکتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہوکہ ان کے زیر اثر بچے بھی اس ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جائیں !! ۔

    خیر اندیش

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Upari Tabsira janab "MA Iqbal" ke tabsere se 95% muttafiq hun

      Shuaib

      حذف کریں
    2. محترم m a iqbal صاحب ، جس شخص نے یہ روداد تحریر کی ہے ، اس سے میرے قریبی دوستانہ اور خاندانی تعلقات قریباً تین دہائیوں سے قائم ہیں۔ لہذا اس کی شخصیت مزاج اور رویے پر منصفانہ تبصرہ غیروں کی بہ نسبت راقم بہتر کر سکتا ہے اور وہ یہی کہ "احساس برتری" کا جو تجزیہ آپ نے کیا ہے ، اس سے میرے دوست کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔
      باقی ہر فرد کو اپنے اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی حاصل ہے!

      حذف کریں
    3. Shuaib ، ذرا یہ تو بتانا کہ ۔۔۔ وہ "چند جملے" جن سے انٹرویو دینے والے کی "مفروضہ احساس برتری" جھلکتی ہے ، اگر ایڈٹ کر کے شائع کیے جاتے تو پھر اس تمام واقعے پر تمہارا کیا تبصرہ ہوتا؟

      حذف کریں
  3. بے انتہائی" کی جگہ "بے انتہا" پڑھیں"

    جواب دیںحذف کریں
  4. میں نے بھی اردو ٹیچر کیلئے انٹرویو دیا تھا۔ کم و بیش مجھ سے بھی اسی قسم کے سوالات کیے گئے۔ میں ایم اے اددو کے ساتھ ساتھ ایم اے پبلک ایڈمنسٹریشن کیا تھا۔ اردو کے انٹرویو میں نظم و نسق کے سوالات سے انٹرویو کا آغاز ہوا۔ اور عجیب قسم کے سوالات کیے گئے۔ یہ مانو ہے یہاں سب چلتا ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. مانو میں اردو کے ساتھ بہت بد کھلوا رڈ کیا جارہا ہے مانو میں ایسے کی امیدوار ہیں جنہیں اردو ہی نہیں اتی حالیہ آرڈی عرصہ میں پروفسیر کانچہ ایلیا ،پروفیسر پی یل وششور راؤ اس کی مسال ہے.اس سے قبل پروفسیر فضل الرحمان ،پروفیسر کے ار اقبال احمد جیسے افراد کا تقرر کیا گیا .جن کو اردو پڑھنا تو دور لکھنا بھی نہیں اتا .ایسے ہی خواتین پروفیسرس کی مثال ہے جن میں پروفیسر شاہدہ 'پروفیسر سلمیٰ فاروقی پروفیسر فریدہ کے نام ہے جن کے پاسس اردو کی کوئی لیاقت نہیں ہے .اور سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کےوہاں پر اردو یونیورسٹی میں تقرر کے لیے اردو میڈیم سے تعلم یافتہ ہونا کوئی شرط نہیں .کیا کوئی تیلگو یونیورسٹی میں بغیر تیلگو کے ملازمت کے بارے میں سونچ سکتا ہے کیا ہندی یونیورسٹی میں بغیر ہندی پڑھے کوئی ٹیچر بن سکتا ہے لیکن اردو یونیورسٹی کو لوگوں نے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور کسی کی بھی سفارش لاکر ٹیچر بن بیٹھے ہیں وقت آگیا ہے کے اردو یونیورسٹی کے ٹیچرس کی اردو قابلیت کا امتحان ہو دہلی یونیورسٹی ،علیگڑھ اور عثما نیہ کے اردو ٹیچرس کا ایک اعلی سطحی پینل بنے اور اردو یونیورسٹی کے سبھی ٹیچرس کا امتحان ہو جو اردو نہیں جانتا اسکو ٹیچنگ کی ذمےداری سے الگ کردیا جائے.ورنہ یہ غیر اردو ٹیچرس کل کے دن اردو یونیورسٹی میں سے اردو کے علاوہ ہندی اور انگلش میں بھی لکھنے کی اجازت کا مطالبہ کرینگے .

    جواب دیںحذف کریں
  6. محترم جناب
    میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ آپکو بتاءوں کہ انٹرویو لینے والا اور انٹرویو دینے والا کون ہے اور کیسا ہے۔لیکن یہ سچ ہے کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن کی عکاسی کرتا ہے اور بس اسی طرف میرا اشارہ تھا۔رہی بات ایڈٹ کرکے شائع کرنے کی ، تو اس اشاعت سے چند باتوں پر ضرور روشنی پڑے گی جس سے توقع ہے کہ بہتری آئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ تنقید میں الفاظ ہمیشہ اچھے اور سوبر ہونے چاہیں نہیں تو تحریر و تقریر اپنی حیثیت کھو دیتی ہیں اور اگر وہ شخص بھی سامنے ہو جو ایسا کر رہا ہے تو اس کی شخصیت بھی پہلے مرحلے میں ضرور مجروح ہوتی ہے بھلے ہی بعد میں مخصوص باتوں اور انداز کی وضاحت کردی جائے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. انٹرویو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک انٹرویو کسی کو سیلکٹ کرنے کے لیے ہوتا ہے اور دوسراانتٹرویو ریجکٹ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ مذکورہ انٹرویو دوسرے قسم کاہے۔ویسے مانو میں ہمیشہ امیدواروں کو ریجکٹ کرنے کے لیے انٹرویو کاانعقاد عمل آتا ہے۔

    س ف م

    جواب دیںحذف کریں