ماہنامہ سب رس : ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-03

ماہنامہ سب رس : ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

sabras-hyderabad

ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہونے والے عہد ساز رسالہ ماہنامہ "سب رس" کو اردو کے ممتاز محقق، بلند پایہ نقاد، ماہر لسانیات و صوتیات اور شاعر ڈاکٹر سیّد محی الدین قادری زور نے جنوری 1938ء میں حیدرآباد دکن سے جاری کیا۔
ماہنامہ "سب رس" ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد دکن کا ترجمان ہے۔ جس کا پہلا شمارہ مکتبہ "ابراہیمیہ مشین پریس" میں طبع ہو کر دفترِ ادارہ رفعت منزل خیریت آباد سے منظر عام پر آیا۔ ڈاکٹر زور، معتمد عمومی "ادارہ ادبیات اردو" جو اس زمانے میں جامعہ عثمانیہ میں اردو کے پروفیسر کے عہدہ پر فائز تھے، "سب رس" کے نگران مقرر ہوئے اور دکن کے باکمال ذہین و فطین شاعر و ادیب صاحبزادہ میر محمد علی خان میکش کو "سب رس" کی ادارت کے فرائض سونپے گئے۔


خواجہ حمید الدین شاہد مہتمم ادارہ نے میکش کو اپنے بھر پور تعاون سے نوازا۔ خواجہ حمید الدین شاہد، ڈاکٹر زور اور سب رس سے اس قدر متاثر تھے کہ جب انھوں نے پڑوسی ملک پاکستان میں ہجرت کی تو وہاں (کراچی) سے بھی "سب رس" کے عنوان سے ایک رسالہ 96-1977 جاری کیا۔ البتہ "سب رس" کے پہلے شمارے کے لئے مایہ ناز حسن کار عبدالرحمان چغتائی نے ایک خوبصورت سرورق تیار کیا تھا، جس نے رسالہ "سب ر س" کے ظاہری حسن کو دوبالا کر دیا۔ "سب رس" کی دلکشی اور جاذبیت میں اضافہ کرنے کے لئے بہت ساری قدیم، نایاب اور قلمی تصویریں بھی شائع کی گئیں۔ اس رسالہ کو ایک طرف معلومات آفریں بنایا گیا تو دوسری طرف اس میں سلاست اور افادیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔ اس لئے یہ حیدرآباد میں ہی نہیں بلکہ حیدرآباد سے باہر بھی مشہور ہوا۔


رسالہ "سب رس"کی ابتدائی حیثیت کے بارے میں ڈاکٹر محی الدین قادری زور لکھتے ہیں:
"سب رس" ادارہ ادبیات اردو کا ترجمان ہے جو ہر مہینے اردو زبان و ادب کے لئے شائع ہوا کرے گا۔ اس ادارہ نے اب تک سنجیدہ علمی و ادبی کتابیں شائع کر کے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ علم دوست اصحاب سے مخفی نہیں ہے۔ لیکن اس خدمت سے خاص خاص اہل ذوق ہی مستفید ہو سکتے ہیں۔ اسلئے ابتداء ہی سے دھیان لگائے ہوئے تھا کہ ایک ایسا رسالہ بھی نکالا جائے جس کی رسائی سب تک ہو اور جس میں سب کی دلچسپی کا خیال رکھا جائے"۔
(ڈاکٹر محی الدین قادری زور۔ اداریہ۔ رسالہ سب رس، جنوری 1938ء۔ ص:5 )


ماہنامہ "سب رس" ایک سال تک پابندی سے شائع ہوتا رہا مگر جب اس کی مانگ بڑھی تو اس کے لئے ایک مجلس انتظامی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چناچہ 1939ء کے آغاز میں ڈاکٹر زور نے دوسرے شعبوں کی طرح "سب رس" کی بھی ایک مجلس ادارت قائم کر دی۔ جس کے اراکین میں صاحبزادہ محمد علی خان میکش، سکینہ بیگم، خواجہ حمید الدین شاہد اور معین الدین انصاری تھے۔ خواتین کے مضامین اور نظموں کا انتخاب سکینہ بیگم کے سپرد کیا گیا۔ پہلے تو "سب رس" کے آخری صفحات پر ہی "بچوں کا سب رس" ضمیمہ کی حیثیت سے شائع کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کی مقبولیت اور بچوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ بچوں کے لئے علیحدہ رسالہ جاری کیا جائے۔ چناچہ "بچوں کا سب رس" علیحدہ نکالا جانے لگا۔ جس کی ترتیب معین الدین انصاری انجام دینے لگے۔


بچوں کے سب رس کے علاوہ 1940ء میں ایک اور رسالہ "سب رس معلومات" کے نام سے جاری کیا گیا۔ جس میں مشاہیر کی زندگیاں، عام فہم سائنس کے مضامین، تعلیمی اور سیاسی خبریں، مسابقتی امتحانات سے متعلق معلومات، کھیل کی خبریں وغیرہ شامل کی گئیں۔ جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ جو لوگ حیدرآباد یا برطانوی ہند کے مسابقتی امتحانات میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کے لئے اردو زبان میں قیمتی معلومات اور حالاتِ حاضرہ سے متعلق تمام باتیں فراہم کی جائیں۔ اس کی ترتیب کا کام عبدالحفیظ صدیقی بی۔ ایس۔ سی سر انجام دینے لگے۔ تقریباً دو سال بعد مالی دشواریوں کے باعث "سب رس معلومات" کو بند کر دیا گیا اور آگے چل کر وسائل کی قلت کے سبب بچوں کی معلومات کا حصہ بھی "سب رس" ہی میں ضم کر دیا گیا۔


اس کے متعلق پروفیسر سیّدہ جعفر نے لکھا ہے:
"سب رس" ادارے کا ترجمان تھا اور جنوری 1938ء میں اس کا پہلا شمارہ طبع ہو کر منظرِعام پر آیا تھا۔ بچوں کے لئے "بچوں کا سب رس" اور "سب رس معلومات" شائع کئے تھے جو بعد میں بند کر دیے گئے اور "سب رس" ہی میں چند صفحات بچوں کے لئے مختص کر دیے گئے تھے۔ رسالہ کہ اس حصّے میں محترمہ لطیف النساء بیگم، بشیر النساء، نعیم النساء اور دوسری خواتین کی نگارشات شائع ہو کر مقبول ہوئیں۔
(پروفیسر سیّدہ جعفر۔ ہندوستانی ادب کے معمار ڈاکٹر زور۔ ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی، مطبوعہ 1984ء۔ ص:39)


ماہنامہ "سب رس" کی ادارتی ذمہ داریوں کو ڈاکٹر زور کی حیات اور نگرانی تک صاحبزادہ میکش، خواجہ حمید الدین شاہد، سلیمان اریب، وقار خلیل اور پروفیسر محمد اکبرالدین صدیقی نے مشاورتی بورڈ کے تعاون سے بہتر طور انجام دیا۔ ڈاکٹر زور کی وفات کے بعد رسالہ "سب رس" کو ان کی یادگار ہونے کا شرف حاصل ہوا اور صدر ادارہ پروفیسر سید علی اکبر نے ا س کی ادارت قبول فرمائی۔ اس کے بعد محمد اکبر الدین صدیقی، میر حسن اور غلام جیلانی نے "سب رس" کی ادارت کے فرائض انجام دئیے۔


جامعہ عثمانیہ کے ان ارباب ثلاثہ نے "سب رس" اور "ادارہ ادبیات اردو" کی سرگرمیوں کو عصریت اور مقبولیت سے ہم کنار کیا۔ برصغیر کے نامور نقاد پروفیسر مغنی تبسم اکتوبر 1978ء میں "سب رس" سے وابستہ ہوئے۔ ڈاکٹر زور کے بعد "سب رس" کو امتیازی خصوصیت عطا کرنے میں پروفیسر مغنی تبسم کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔ انھوں نے "سب رس" کے معیار پر اس قدر توجہ کی کہ "سب رس" کا شمار اردو کے صفِ اول کے رسائل میں ہونے لگا۔ انھوں نے دشوار اور نامساعد حالات میں بھی ادارے اور "سب رس" کی سرگرمیوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ جاری رکھا۔
پروفیسر مغنی تبسم نے "سب رس" کی ادارت سے 2010ء میں کنارہ کشی اختیار کر لی۔ 2010ء کے آغاز سے ستمبر 2020ء تک رسالہ "سب رس" کی ادارت کے فرائض معروف فکشن نگار پروفیسر بیگ احساس نے بخوبی انجام دیں۔ اور ان دنوں رسالہ "سب رس" پروفیسر ایس۔ اے۔ شکور کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔


ماہنامہ "سب رس" کا شمار ہند و پاک کے موقر رسائل میں ہوتا ہے۔ یہ خالص علمی و ادبی نوعیت کا رسالہ ہے جس میں مضامین کے انتخاب میں بڑی وسیع النظری سے کام لیا جاتا ہے۔ "سب رس" کے تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ابتدا سے حال تک "سب رس" نے مطلع ادب کو روشن رکھا اور اس کی ادبی خدمات کا دائرہ ہر نئے شمارے کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا آ رہا ہے۔
ڈاکٹر زور نے واضع طور پر کہا تھا کہ افسانوں، نظموں، تحقیقی، علمی، ادبی اور تنقیدی مضامین اور اردو کی مطبوعات پر غیر جانب دار تنقیدوں کے علاوہ آرٹ پر بھی مضمون چھپتے رہیں گے۔ اس معیار کو رسالہ"سب رس" نے ہر دور میں اولیت دی۔


"سب رس" اپنے مضامین کے اعتبار سے انتہائی معیاری ہے۔ اردو کے بڑے قلم کار، ناقدین، ادیب اور محققین نے اپنے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے ذریعے نہ صرف اس رسالہ کو زینت بخشی بلکہ اس کہ مقام کو بلند اور معیاری بنایا۔ عصر حاضر میں رسالہ ایک نئے گٹِ اپ کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ جس میں اداریہ، مضامین، خراج عقیدت، آپ بیتی، خودنوشت، طنز و مزاح، ترجمہ، افسانے، شاعری، مطالعہ، خطوط اور تبصرہ وغیرہ کے عنوانات کے تحت مواد کو شامل کیا جاتا ہے۔
"سب رس" میں شامل سبھی موضوعات معلوماتی، پر مغز اور فکر انگیز ہوتے ہیں جو اپنے قارئین کو ملکی اور عالمی سطع پر اردو دنیا سے متعلق موجودہ رجحانات سے باخبر رکھتے ہیں۔ غرض "سب رس" مضامین کی رنگا رنگی اور تنوع کے باعث رسائل کی دنیا میں نمایاں مقام کا حامل بن گیا ہے۔ حضرت امجد حیدرآبادی نے اسے تحفہ لاجواب قرار دے کرایک رباعی کہی تھی۔
یہ تحفہ ہے لاجواب از بس لے لو
مرغوبِ دلِ ہر کس و ناکس لے لو
سب کا لینا تو امر ناممکن ہے
سب میں بہتر یہ ہے کہ سب رس لے لو


اردو میں ادبی رسائل کی تاریخ اس اعتبار سے بہت المناک رہی ہے کہ بہت سے اچھے رسائل کم سنی میں دم توڑ گئے۔ ڈاکٹر زور نے جب ادبی صحافت کا آغاز کیا تو صرف ماہنامہ "اردو" اور "نگار" کو چھوڑ کر بقیہ سب تخلیقی ادب کو اپنا سہارا بنائے ہوئے تھے اور تنقید کبھی کبھی، مگر تحقیق کا تصور ان رسائل کے پاس نہ تھا۔ البتہ"اردو" اور "نگار" میں تحقیقی اور تنقیدی مضامین شائع ہوتے تھے اور ان کا معیار بھی بلند تھا۔
لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ "نگار" اور"اردو" کا محوراور مرکز نیاز فتح پوری اور مولوی عبدالحق کی ذات تھی مگر "سب رس" کے ساتھ کوئی ایسی بات نہ تھی حالانکہ اس کے بانی ڈاکٹر زور تھے مگر انھوں نے بھی اپنی ذات کو کبھی رسالہ پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اردو رسائل کی تاریخ میں "سب رس" وہ واحد رسالہ ہے جس نے نہ صرف اپنے معیار کو بلند رکھا بلکہ پچھلے بیاسی برس سے زبان اور علم و ادب کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ زمانے کے تھپیڑوں کو برداشت کرتے ہوئے بلاناغہ اس رسالہ کا شائع ہونا یقیناً اردو داں اور ادبی طبقے میں مقبولیت کی غماز ہے۔ رسالہ کسی مخصوص تحریک کا علمبردار نہیں رہا لیکن ہر دور کے بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ ضرور دیتا رہا ہے۔ اعتدال پسندی کو اس نے اپنا شعار بنایا اور ادبی معیارات کو اولیت دی۔


طیب انصاری اپنی کتاب "حیدرآباد میں اردو صحافت" میں "سب رس" کی علمی و ادبی خدمات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"علمی و ادبی نقطہ نظر سے 'سب رس' کی اشاعت بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ تحقیق کے میدان میں 'سب رس' خضر کا فرض انجام دیتا ہے۔ یہ 'باب الداخلہ' ہے جہاں سے ہر ادیب اور محقق کو ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ 'سب رس' ہمیشہ سے موقتی تحریکوں سے محفوظ رہا ہے لیکن ہر نئے رجحان کو اس میں جگہ ملی ہے۔ اس رسالہ کی اگر خصوصیت ہے بھی تو یہی کہ اس کے صفحات دکنی ادب کی بازیافت کے لئے ہمیشہ کُھلے رہے ہیں۔ "
(طیب انصاری۔ حیدرآباد میں اردو صحافت۔ اعجاز پرنٹنگ پریس حیدرآباد، مطبوعہ جون 1980ء۔ ص:189)


ماہنامہ "سب رس" نے دکن کے اہلِ قلم اصحاب، شاعروں، افسانہ نویسوں، جامعہ عثمانیہ کے فرزندوں اور خواتین قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کو اپنے دورِ اول سے آج تک اولیت دی ہے۔ اردو کے کئی ادیبوں اور شاعروں کی ابتدائی تخلیقات "سب رس" میں شائع ہوئیں۔ جنھوں نے آگے چل کر ادبی دنیا میں اہمیت اور شہرت حاصل کی۔ ان اصحاب کے دوش بدوش ہند و پاک کے صفِ اول کے لکھنے والوں کا تعاون بھی "سب رس"کو ہر عہد اور ہر دور میں رہا ہے۔ جن میں محی الدین قادری زور، عبدالقادر سروری، علی عباس حسینی، پروفیسر مسعود حسین رضوی، قاضی عبدالغفار، امجد حیدرآبادی، نصیر الدین ہاشمی، سلیمان اریب، اکبر الدین صدیقی، میراں جی، محبوب حسین جگر، عابد علی خان، پروفیسر گوپی چند نارنگ، مغنی تبسم، مجتبیٰ حسین اور بیگ احساس وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔


اس رسالہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے دکنی ادب کے نوادرات اور جواہر ریزوں کو ادبی دنیا سے متعارف کرایا اور بعد کی تحقیق کے لئے راہیں ہموار کیں اور ساتھ ہی دکن کی کئی اہم ادبی شخصیتوں کی تعمیر بھی کی جن میں خواجہ حمید الدین شاہد، لطیف النساء بیگم، اکبر الدین صدیقی، بشیر النساء بیگم اور مدیر اول میکش وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔


اس سلسلے میں خواجہ حمید الدین شاہد لکھتے ہیں:
"سب رس نے ایک طرف علم و ادب کی خدمت کی تو دوسری طرف ملک کے نوجوانوں میں ادبی ذوق اور جوش عمل کی رو دوڑا دی۔ نوجوانوں کی علمی و ادبی صلاحیتوں کی صحیح رہنمائی کر کے ان کی قلمی کاوشوں کو سب رس میں شائع کر کے ان کو اردو دنیا سے روشناس کرایا۔ بعض اصحاب تو ایسے ہیں جن کی ادبی زندگی کی ابتدا 'سب رس' ہی میں مضامین کی اشاعت سے شروع ہوئی۔ اور آج وہ اردو دنیا میں شاعر اور ادیب کی حیثیت سے کافی روشناس ہیں۔ "
(خواجہ حمید الدین شاہد۔ سرگزشت ادارہ ادبیات اردو۔ اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد، مطبوعہ1940ء۔ ص:184)


ادارہ ادبیات اردو نے "سب رس" کے عام شماروں کے علاوہ مختلف موقعوں پر خاص نمبر بھی شائع کئے ہیں جو دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
ان خصوصی اِشاعتوں میں عصر حاضر تک (83) خصوصی نمبرات اور (50) کے قریب خصوصی گوشے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ خاص نمبر مختلف موضوعات اور ان کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان میں علمی، ادبی اور سیاسی شخصیتوں پر بھی خاص نمبر ملتے ہیں اور ساتھ ہی ادبی تحریکوں اور ادبی اداروں پر بھی خاص نمبر نکالے گئے ہیں۔ چند کے نام یہاں درج کئے جاتے ہیں:
محرم نمبر مارچ 1938ء۔ اقبال نمبر جون 1938ء۔ دکن نمبر جنوری 1939ء۔ اردو نمبر جنوری 1940ء۔ جنگ نمبر فروری 1942ء۔ ترقی پسند ادب نمبر جولائی 1944ء۔ قلی قطب شاہ نمبر اپریل، مئی و جون 1958ء۔ ٹیگور نمبر جون 1961ء۔ ڈاکٹر زور نمبر اکتوبر، نومبر و دسمبر 1963ء۔ نصیر الدین ہاشمی نمبر جنوری 1965ء۔ غالب نمبر حصہ اول ستمبر و اکتوبر 1969ء۔ حصہ دوم دسمبر 1969ء۔ احتشام نمبر مارچ 1973ء۔ اقبال نمبر نومبر1977ء۔ حمید الدین شاہد نمبر دسمبر 2001۔ غالب نمبر فروری 2006ء۔


یہ خاص نمبر اتنے مقبول ہوئے کہ "سب رس" کے ہم عصر رسائل و جرائد نے اپنے صفحات میں تعریفی و توصیفی الفاظ میں ان پر تبصرے کئے،جن کو بعد میں ادارے کی رپوٹوں میں شامل کیا گیا۔
ان خصوصی نمبرات کی مقولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب جون 1938 ء میں ادارہ نے "سب رس" کا اقبال نمبر شائع کر کے اردو کے عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کیا تو یہ خاص نمبر پورے ہندوستان میں اتنا مقبول ہوا کہ لاہور کی"بزم اقبال" نے اس خدمت کے اعتراف میں مدیر سب رس کو اپنی بزم کا اعزازی رکن منتخب کیا۔


اسی طرح جب جنوری 1939ء میں ادارہ نے دکنی تاریخ اور دکنی ادب کی بقا اور تحفظ کے لئے رسالہ "سب رس" کا دکن نمبر شائع کیا۔ اس خصوصی شمارے میں دکن کے ماضی، حال اور مستقبل کے متعلق مفید، دلچسپ اور مستند معلومات یکجا کر دی گئی۔ تاریخی مستند مضامین اور مقالوں کے علاوہ زمانہ قدیم سے بیسویں صدی کے چوتھائی حصے تک کے سلاطین اور امراء کی نادر تصویریں بھی شائع کی گئی۔ اس شمارے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے خواجہ حمید الدین شاہد نے "سرگزشت ادارہ ادبیات اردو" میں لکھا ہے کہ:
"اس شمارے کو ایک حیثیت سے دکن کی مختصر مگر جامع تاریخ کہا جا سکتا ہے۔ "


ماہنامہ "سب رس" نے ہر دور میں اردو زبان و ادب کو نئی فکر، نیا رجحان، نیا مواداور جدت و ندورت پر مبنی مشمولات سے نوازا۔ اردو زبان و ادب کے فروغ اور اس کی ترویج و اشاعت میں رسالہ "سب رس" کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات میسر ہونے کے باوجود ایک ریسرچ اسکالر کو "سب رس" کے ادبی ذخیرے سے استفادہ کرنے کہ لئے کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
"ادارہ ادبیات اردو" کے کتب خانے میں رسالہ "سب رس" کے تمام پرچے دستیاب نہیں ہیں جو ہیں وہ بھی اور دیگر بے شمار نایاب اور بیش قیمتی کتابیں کرم خوردگی اور گرد وغبار کی نظر ہو رہی ہیں۔


علاوہ ازیں ماہنامہ "سب رس" اپنی صدی تقاریب کے با لکل قریب ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس انقلاب آفریں دور میں بھی خود کی ویب سائٹ سے محروم ہے۔ "سب رس" کے سینکڑوں شماروں اور اس میں شائع ہونے والے ہزاروں مقالات و نگارشات سے استفادہ کرنا بھی ایک حد تک ناممکن امر لگتا ہے۔
اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ رسالے کی آن لائن ویب سائٹ تیار کی جائے اور اس پر رسالہ "سب رس" کے تمام شمارے اپلوڈ کئے جائیں تاکہ ادب دوست اصحاب اور ریسرچ اسکالرز دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر ان سے استفادہ کر سکیں۔


رسالہ "سب رس" کی بقا اور ترقی کے لئے یہ ضروری بھی ہے کہ وہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور عصری ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے مربوط ہو۔ اس سارے عمل سے اردو زبان و ادب اور بالخصوس تحقیق کے شعبے کو فروغ ملے گا اور عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت جو سہولتیں دوسری ترقی یافتہ زبانوں اور علوم میں ایک محقق یا قاری کو حاصل ہیں وہ اردو کے محققین اور قارئین کو بھی حاصل ہو سکیں گی۔

***
قمر مغل۔ ریسرچ اسکالر (پی ایچ ڈی)، یونیورسٹی آف حیدرآباد، حیدرآباد۔
ای-میل: qammerahmed3[@]gmail.com
قمر مغل

A critical review on Monthly Sabras Hyderabad. by: Qammer Mughal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں