عورتوں کے حق رائے دہندگی کے لیے، دنیا میں پہلی عورت جو شہید ہوئی اس کا تعلق کسی مغربی ملک سے نہ تھا بلکہ وہ ایران کے شہر قزوین کی رہنے والی ایک جواں سال شاعرہ طاہرہ تھی جسے قرۃ العین بھی کہا جاتا ہے۔
ایران کی سرزمین پر بہائی دین کا آغاز انیسویں صدی میں اس وقت ہوا تھا جب عورتوں کی تعداد کم تھی اور وہ زیادہ تر محکومی کی حالت میں تھیں۔ بہائی دین کے ایک سربراہ عبدالبہآ نے قرۃ العین طاہرہ کی تعریف میں لکھا ہے کہ:
ہمارے عصر کی عورتوں میں ایک مسلم مجتہد کی بیٹی قرۃ العین ہے جس نے ایران میں قدیم ایام سے جاری پردہ کی رسم کا رد کیا، عورت کا مرد سے ہمکلام ہونے کو معیوب نہ جانا اور بڑے بڑے علما و فضلا سے مناظرے و مباحثے کیے اور سب پر غالب بھی آئیں۔ حکومتِ ایران نے آپ کو جہاں قید کیا وہیں سڑکوں پر طاہرہ پر پتھر پھینکے گئے اور ان پر لعنت و پھٹکار کی گئی۔ انہیں جگہ بہ جگہ شہر بدر کیا گیا، موت کی دھمکیاں دی گئیں۔ مگر انہوں نے اپنی صنف کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے میں کبھی ہمت نہ ہاری اور نہایت بہادری و تحمل کے ساتھ ظلم و ستم کو برداشت کیا۔ حکومتِ وقت کے جس وزیر کے مکان میں وہ قید تھیں، اسے کہا:
"آپ مجھے جان سے مار سکتے ہیں مگر آپ عورتوں کی آزادی کو روک نہیں سکتے"۔
ان کی درد بھری زندگی کا اختتام اس وقت ہوا جب حکومت کے کارندے انہیں ایک باغ میں لے گئے اور وہاں گلا گھونٹ کر انہیں شہید کر دیا گیا۔
قرۃ العین طاہرہ کی دلیر و لافانی شخصیت اس لیے بھی یاد رکھی جائے گی کہ انہوں نے اپنی صنف کے لیے اپنی جان فدا کی ہے۔ آج تمام دین، دھرم، قوم، جنس کے افراد بلا تفریق طاہرہ کی شاعری کے مداح ہیں۔ جن کا کہنا تھا کہ مرد اور عورت طائرِ انسانیت کے دو بازو ہیں اور یہ طائر اس وقت تک اپنی بلند ترین پرواز نہیں کر سکتا جب تک اس کے دونوں بازو برابر مضبوط اور متوازن نہ ہوں۔ طاہرہ کے دینِ بہائی کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ عورت کو مرد کے برابر سمجھا جائے اور اسے برابر کے حقوق و مراعات، برابر کی تعلیم اور برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ قرۃ العین طاہرہ نے انہی بلند ترین معیاری اصولوں کی خاطر اپنی جان قربان کی ہے۔
طاہرہ قرۃ العین انیسویں صدی کے وسط کی ایسی مثالی شاعرہ، بہائی مذہب کی مبلغہ اور عالمہ تھیں جن کے حسن، عشقیہ شاعری، مذہب کے مختلف موضوعات پر عملی مہارت اور عورتوں کی آزادی کے حوالے سے عملی جدوجہد نے اس زمانے کا ہیرو بنا دیا دیا تھا۔ چنانچہ وہ ایران کی خاتون اول کہلائیں، جن کی شاعری اور فکر نے بڑے بڑے لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ ان کی شخصیت اور زندگی کے حالات پر صرف ایک انگریزی کتاب میسر ہے، جسے ان کی موت کے پون صدی بعد ان کی ایک مداح خاتون مارتھا روٹ نے برسوں کی تحقیق کے بعد لکھا تھا۔ انہوں نے بہائی مذہب اور قرة العین طاہرہ سے متعلق مطالعہ کیا تو 1908ء میں عیسائیت ترک کر کے بہائی ہو گئیں۔ بہائی مذہب اختیار کر کے وہ 1915ء میں دنیا کے سفر پر نکل پڑیں تاکہ پوری دنیا میں امن کا پیغام پھیلائیں اور لوگوں کو بابا بہاءاللہ اور قرة العین طاہرہ کی تعلیمات سے آگاہ کریں۔
انہوں نے امریکہ، یورپ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا کے کئی سفر کر کے لوگوں کو لیکچرز دیئے۔ پاکستان کے شہر کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی مارتھا روٹ کئی ماہ تک گھومتی اور بہائی مذہب کی تبلیغ کرتی رہی تھیں۔ 1930ء میں ایران گئیں اور وہاں طاہرہ کی زندگی سے متعلق تحقیقات کیں، ان کے پس ماندگان سے ملیں اور وہ مقامات دیکھے، جہاں طاہرہ رہی تھیں، جہاں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر بہائی مذہب کی تبلیغ کے لیے جہاں جہاں ٹھہرتی رہی تھیں، ان تحقیقات کو مارتھا روٹ نے کتابی صورت میں شائع کرایا۔
زیر نظر کتاب اسی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ اردو ترجمہ عباس علی بٹ نے کیا ہے۔
(تعارف بشکریہ: ریختہ ویب سائٹ)
یہ مختصر و دلچسپ سوانح، تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
***
نام کتاب: طاہرہ قرۃ العین (مختصر سوانح)
مصنفہ: مارتھا روٹ۔ اردو ترجمہ: عباس علی بٹ۔ ناشر: بہائی پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی۔ سنہ اشاعت: 1982ء
تعداد صفحات: 135
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Tahereh Qurratul Ayn by Martha Root.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | تمہید | 5 |
1 | حضرت باب اور آپ کے برگزیدہ حواریوں کے لیے حضرت بہآاللہ کا خراج تحسین | 18 |
2 | پہلا باب: حضرت طاہرہ کا بچپن | 22 |
3 | دوسرا باب: قزوین و طہران کے واقعات | 56 |
4 | تیسرا باب: جناب طاہرہ کی شہادت اور اس کے بعد | 87 |
5 | خاتمہ | 121 |
6 | ضمیمہ: جناب طاہرہ کے اشعار | 123 |
7 | اشعار گوہر بار (حضرت طاہرہ) | 127 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں