ایک دن لیبر روم میں - افسانہ از جیلانی بانو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-04

ایک دن لیبر روم میں - افسانہ از جیلانی بانو

aik-din-labour-room-mein-story-jeelani-bano
"NEXT" (اگلی مریضہ)
"کیا ہوا ہے تمہیں؟"
وہ مرد کی طرف دیکھتی ہے۔
میں سمجھ گئی ۔ اپنے دل کی بات کہنے کا اختیار وہ ہمیشہ کسی اور کو دیتی ہے ۔
عورت کا گوشت کاٹنے والا چاقو ، رگیں چیرنے والی قینچی اور بے ہوش کرنے والی دوائیں تھامے میں دن بھر لیبر روم میں کھڑی رہتی ہوں۔
ڈاکٹر ریڈی کا کام ہے کہ وہ مریض عورت کی ابتدائی رپورٹ تیار کریں، مگر ان روتی چلاتی عورتوں سے بور ہوکر وہ مجھے گھورتے رہتے ہیں، ان کی مکھیوں کی طرح بھنبھناتی نظروں کو جھٹک کرمیں پھر عورت کی طرف مڑ جاتی ہوں۔
"ڈاکٹر! اسے بچہ نہیں چاہئے، چار مہینے چڑھ گئے ہیں۔" اس کا ساتھی مرد کہتا ہے۔
اسے کیا چاہئے؟ وہ خود کچھ نہیں بتاتی ،
"شادی کو کتنے دن ہوئے ہیں؟" میں رجسٹر کھول کر عورت سے پوچھتی ہوں، جو اس سوا کا جواب مرد سے چاہتی ہے ۔
ان دونوں کی گھبراہٹ دیکھ کر میں اپنا رجسٹر بند کردیتی ہوں۔ ان سے کہتی ہوں:" بہت دیر ہوگء ہے، اب رہنے دو۔"
"ہاں! ٹھیک ہے، اب رہنے دو۔"
عورت خوش ہوکر مرد کی طرف دیکھتی ہے ۔
"نہیں نہیں، ڈاکٹر۔"مرد گھبراجاتا ہے ۔
" یہ بہت کمزور ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں۔۔۔۔ یہ چاہتی ہے کہ۔۔کہ۔۔۔"
ہاں، یہ بہت کمز ور ہے ۔ میں پھر عورت کی طرف دیکھتی ہوں، اور مجھے نکاح نامے کی وہ شرطیں یاد آجاتی ہیں جن پر زمین، کار اور عورت خریدتے وقت دستخط کئے جاتے ہیں۔اتنی رقم سکہ رائج الوقت، اتنے گواہوں کی موجودگی میں۔ میں اقرار کرتی ہوں بلا جبروکراہ اور پھر۔
خدا تمہیں شوہر کی اطاعت اور خدمت کرنے کی سعادت نصیب کرے ۔ تمہاری جو اولد ہوگی، اس کے ہونے، نہ ہونے کا اختیار تمہارے شوہر کو ہوگا ۔
"سسٹر, اسے آپریشن تھیٹر میں لے جاؤ۔"
ڈاکٹر ریڈی سسٹر سے کہتا ہے ۔
"آپ یہاں دستخط کردیجئے ۔"
ڈاکٹر ریڈی ایک مرد ہیا ور ایسے موقع پر وہ ایک مرد کی ذہنی اذیت کو سمجھ رہا ہے ۔
عورت کو زبردستی آپریشن تھیٹر کی طرف دھکیل دیاجاتا ہے ۔
میں آپریشن تھیٹر میں آئی تو وہ بے ہوش پڑی تھی۔خود سپردگی کے تمام انداز لئے ، عورت کا یہ روپ میں دن میں کئی بار دیکھتی ہوں۔ اپنے بدن سے دست بردار ہوجانے کی مجبوری۔ جیسے چاہو کھیلو، جھنجھوڑو، روند ڈالو ، چیر کر پھینک دو ۔ اب وہ آپریشن کے بعد ہوش میں آئے گی تب بھی سوتی ہوئی سی لگے گی۔ دنیا کو ایک بار پھر پہنچاننے کی کوشش کرے گی جو اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آتی ۔ ہر طرف اسے ایک پھیکا پن لگے گا، جیسے ست رنگے خوابوں کا کچا رنگ آنسوؤں کی دھار میں بہہ گیا ہو ۔ ہر چیز خالی لگے گی ۔ اپنی کوکھ سے لے کر ساری دنیا پر چھائے ہوئے آسمان تک ، اب وہ پل پل مرتی رہے گی۔ اسی ادھورے بچے کو خوابوں میں بڑا کر نے، اسے ایک با اختیار، حکم چلانے والا مرد بنانے کے دکھ سہتی رہے گی ۔
"اس کے ساتھ آنے والا مرد اس کا پتی نہیں ہے۔" آپریشن کرتے وقت سسٹر کہہ رہی ہے ۔ شاید وہ سسٹر کو اس مرد سے اپنا رشتہ نہیں سمجھا سکی جو انہیں ایک زمانے تک ایک دوسرے سے لپٹا ئے ، چمٹائے رہا، وہ رشتہ جسے عورت اپنا پیار ، اپنا بدن دے کر بھی کوئی نام نہیں دے سکتی ۔ اب ان کے درمیان ایک شرم ناک رشتہ ہے ، جسے توڑنے کے لئے اس عورت کو آپریشن تھیٹر میں بے ہوش کردیا گیا ہے ۔
میں سسٹر کی بات کاجواب نہیں دیتی۔ میں اپنے ہاتھ میں وہ نشتر تھامے کھڑی ہوں جو عورت کی رگ رگ کو کاٹ دیتا ہے، مجھے عورت کے اندر چھپی سائنس کی اس لیب کو ناکارہ کردینا ہے جس مین انسان کو ڈھالنے کا عمل مختلف ڈپارٹمنٹس سے گزر کر ایک انسان کی تکمیل کرتا ہے۔
میں نے عورت کے سارے پرت کھول ڈالے۔۔ جب دماغ تک پہنچی تو ڈس ایکشن ہال کے ڈاکٹر لیکچرر نے ہنس کر کہا"عورت کا دماغ کھول کر کیا کرو گی؟ وہاں اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔"
اور میرے ساتھی اسٹوڈنٹس ہنسنے لگے ۔
"اسے لیباریٹری بھیجو اب نارمل کیس ہے۔" میں خون میں لتھڑا ہوا ادھورا بچہ ٹرے میں ڈال دیتی ہوں ۔ آگے بڑھ کر ڈاکٹر ریڈی اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔ اب یہ بچہ سائنس کے تجربوں کا شکار ہوتا رہے گا۔ مذہب ، سیاست، سائنس اسے مکمل انسان بنانے میں جٹ جائیں گے ۔ ہارٹ اسپیشلسٹ ، سائیکا ٹرسٹ، گیانا کولوجسٹ اس ادھورے بچے کو گھیر لیں گے ۔ یہاں سے کاٹو، یہاں سے جوڑو، مرد کی تخلیقی قوت کو ختم کردو۔ عورت کی کوکھ میں پہلے ہی جھانک لو کہ وہ کہیں اپنی جیسی کسی عورت کو تو جنم نہیں دے گی !
اپنے خود آلود ہاتھ دھوکر میں سسٹر سے کہتی ہوں:"NEXT"
ایک پیلے چہرے والی نڈھال سی عورت بڑا سا پیٹ لئے اندر آتی ہے ۔ اس کے چہرے کا کرب دیکھ کر میں سمجھ جاتی ہوں کہ وہ تھوڑی دیر میں ساتویں یا آٹھویں بچے کو جنم دینے والی ہے ۔
"یہاں رجسٹر میں اپنا نام لکھئے۔"ڈاکٹر ریڈی رجسٹر اس کے شوہر کی طرف بڑھاتا ہے ۔ وہ ایک اونچا پورا صحت مند آدمی ہے ، بہت قیمتی سفاری سوٹ پہنے ۔ کسی اونچی کرسی پر بیٹھنے والا ۔
عورت کو تھامنے والی یقینا اس کی نند ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کی تیز طرار عورت وہ مسلسل بولے جارہی ہے ۔
"بسم اللہ کر کے اندر جاؤ بھابی۔ اللہ نے چاہا، اس بار لڑکاہی ہوگا ۔ تمہارے گھر میں اجالا ہوجائے گا۔" پھر وہ میری طرف دیکھ کر بڑے افسوس کے ساتھ کہتی ہے۔"بچاری کے پانچ لڑکیاں ہوچکی ہیں۔ گھر میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے مگر میرے بھائی کے نصیب کھوٹے ہیں ، ہم آپ کے پاس بڑی آس لے کر آئے ہیں ڈاکٹر۔"
یہ سن کر عورت چکرا کر گرنے لگتی ہے ۔
"جلدی اسٹریچر لاؤ۔" میں فوراً جھک کر ماں اور بچے کے دل کی دھڑکن سنتی ہوں۔
"ارے اس کی حالت تو ٹھیک نہیں۔" میں گھبرا جاتی ہوں۔
"نہیں، نہیں، ڈاکٹر۔۔۔۔ میرے بچے کو بچا لیجئے۔" مرد بھی گھبراجاتا ہے ۔
لیکن بچے کی ڈوبتی نبض بتا رہی ہے کہ وہ باپ کی قہر بھری نظروں کا سامنا کرنے سے پ ہلے ہی اپنی سانس روک چکی ہے ۔
مرنے سے پہلے بیٹا پیدا کرنے کی شدید خواہش عورت کو بے چین کئے ہوئے ہے ۔ وہ جانے کیا کہہ رہی ہے ۔ بہت سی عورتوں کے ہونٹ ہلتے ہیں، مگر آواز ان کی اپنی نہیں ہوتی۔
"NEXT!"
ریڈی کی نظروں والی مکھیوں کو میں دونوں ہاتھوں سے دور بھگاتی ہوں۔
تین لڑکیاں ایک ساتھ اندر آئیں ، تیرہ چودہ برس کی ۔ ایک ہی اسکول کی یونی فارم پہنے ۔ بال بکھرے ہوئے، چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہوئی ۔ خوف اور گھبراہٹ کے مارے وہ ایک دوسری میں چھپی جارہی تھیں۔
تین کم سن لڑکیوں کو دیکھ کر شہد کی مکھیوں نے اپنا رخ بدل دیا۔
"ڈاکٹر ریڈی! پلیز چند منٹ کے لئے باہر چلے جائیے۔"
اس عمر کی لڑکیوں کو عام طور پر کمر میں درد اور نامانوس اچنبھوں کا خوف بیمار ڈال دیتا ہے۔ وہ لڑکیاں ایک دوسری کودھکیل رہی ہیں، کوئی آگے نہیں بڑھتی، ان میں سب سے چھوٹی، خوبصورت سی لڑکی دیوار کی طرف مونہہ کر کے رونے لگتی ہے ۔
"اے چھوکری جلدی آؤ، ٹائم جارہا ہے ۔"سسٹر انہیں ڈانٹ رہی ہے ۔
ان کی گھبراہٹ دیکھ کر میں رونے والی لڑکی کے پاس پہنچی۔
"کچھ گڑ بڑ ہوگئی ہے کیا؟ کتنے دن ہوئے ہیں؟"
وہ گھبرا کر مجھے دیکھتی ہے اور دونوں ہاتھوں میں مونہہ چھپاکر رونے لگتی ہے ۔ پھر اس کی سہیلی مجھ سے کہتی ہے ۔"ڈاکٹر! ہنی نے کچھ نہیں کیا۔وہ جو ٹیچر شام کو اسکول میں اسپیشل کلاس لیتا ہے نا۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ۔۔۔"
"پھر تم نے اپنی ممی کو نہیں بتایا؟ ڈیڈی سے شکایت نہیں کی؟"
ہنی سر جھکائے کھڑی ہے ۔
"وہ ٹیچر کہتا ہے ، کسی سے کہا تو بدنام ہوجاؤ گی، پھر تم سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ ہم تینوں سب سے چھپ کر یہاں آئے ہیں۔"
دوسری لڑکی نے کہا"ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، ڈاکٹر۔"
"ادھر آؤ۔"
مگر وہ لڑکی آگے نہیں بڑھتی، اس کی سہیلی کہتی ہے:"ہنی ایسا بولتی ہے کہ اب میں مرجاؤں گی۔"
میں بڑے غور سے ہنی کو دیکھتی ہوں ۔ بارہ تیرہ برس کی ایک بچی جو ابھی مرد کی محبت اور ممتا کی لذت نہیں جانتی، لیکن موت کا راستہ ڈھونڈ چکی ہے ۔
"تم مرنا کیوں چاہتی ہو؟"آپریشن تھیٹر میں اسے بے ہوش کرنے سے پہلے میں نے پوچھا۔
"میں اس دنیا میں نہیں رہوں گی جہاں مرد ہیں۔" وہ خود بھرے لہجے میں کہتی ہے ۔
"پگلی!" میں نے بڑی محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔’دنیا میں سب مرد وحشی نہیں ہوتے ۔ تم جب بڑی ہوجاؤ گی ، تمہیں مرد کا پیار اور اعتبار بھی ملے گا۔"
"آخ تھو۔" اس نے ٹیبل پر قے کردی ۔
نفرت اور دہشت سے کانپتی ہوئی ہنی کو چیر کر میں نے اس ادھورے بچے کو ٹرے میں ڈالا جو ایک کنواری کے پیٹ سے نکالا گیا ہے۔ اب خدا کا قہر، سماج کی تھو تھو، قانون کی گرفت ، اسے چاروں طرف سے گھیر چکے ہیں۔
کیاہنی ایک آبرو باختہ لڑکی ہے؟
یہ سوال مذہب بھی کرے گا اور دنیا بھی۔
عدالت میں، اور عدالت کے باہر تمام وکیل، جج ، تماشائی اس لڑکی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار ہوجائیں گے جس نے صرف تیرہ برس کی عمر میں۔۔۔۔
کیا نام ہے ۔۔ کہاں رہتی ہے؟
ہنی کے خون میں ڈوبے ہوئے اپنے ہاتھ دھوکر میں چلاتی ہوں۔
"NEXT!"
اسٹریچر پر ایک خوب میں ڈوبی ہوئی عورت اندر لائی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ایک حواس باختہ مرد ہے، ایک بوڑھی ساس، ایک خوف سے کانپتا بوڑھا آدمی۔
"یہ زینے سے گر پڑی تھی، اس کے اوپر پتھر آگرا ۔۔ نہانے میں پاؤں پھسل گیا ۔"
"کیا پیٹ میں بچہ ابھی زندہ ہے؟ لڑکاہے یا لڑکی؟ مرد بار بار پوچھ رہا ہے ۔
"ڈاکٹر! اسے کسی طرح ہوش میں لاؤ۔ اس کا بیان نوٹ کرنا ہے۔"ایک خاتون انسپکٹر اپنی ڈائری تھامے اندر آتی ہے ۔"
عورت کے ساتھی انسپکٹر کو دیکھ کر باہر جانا چاہتے ہیں، مگر دروازہ بند ہے ، میں نے عورت کی چھاتی پر اسٹھیتسکوپ رکھا۔
"اسے پوسٹ مارٹم کے لئے لے جاؤ، لیبر روم میں لاش کیوں لائے ہو؟"
"ارے کون سی عورت مررہی ہے، کون زندہ ہے ۔۔۔ ہمیں کیا پہچان جی؟"اسٹریچر دھکیلنے والامیل نرس غصے میں کہتا ہے ۔"جب ٹھنڈی ہوجاتی ہے تو سالے ہماری طرف دھکیل دیتے ہیں۔"
وارڈ کے باہر زخمی عورت کا تماشا دیکھنے کے لئے ہجوم اکٹھا ہوگیا ہے ۔
"مر گئی ۔ وہ سب ایک دوسرے کی طرف اطمینان بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کا مرد جلدی سے ایک چادر لے کر اس کی طرف بڑھتا ہے ۔ ڈرامے کا آخری پردہ اسی کو گرانا ہے ۔ مگر عورت کی گھورتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔
پولیس انسپکٹر، ڈاکٹر ریڈی ، مرد کے رشتے دار جو بھی اس کے قریب جاتے ہیں، وہ انہیں گھورنے لگتی ہے ۔
"اب اس کا پوسٹ مارٹم بھی کیسے ہوگا ۔ بدن کا کوئی بھی حصہ ٹوٹنے سے نہیں بچا ہے ۔"سسٹر بیزار ہوکر کہتی ہے۔
"سر، بچ گیا ہے ۔ شاید ڈاکٹراسی کو کھول کر دیکھیں۔"
"نہیں جی" ڈاکٹر ریڈی مسکر اکر میری طرف دیکھتے ہیں۔" عورت کے دماغ کا پوسٹ مارٹ نہیں کرتے ہیں۔"
"NEXT!" "NEXT!"
مگر اب شہد کی مکھیاں میرے پورے بدن کو ڈس رہی ہیں۔
عورت کی رگیں کاٹنے والی قینچی، میرے ہاتھ سے چھوٹ گری ہے ، بے ہوش کردینے والا انجکشن میری رگوں میں گھل رہا ہے اور میں دونوں ہاتھوں سے شہد مکی مکھیوں کو دھکیلتے ہوئے چلا رہی ہوں۔
"NEXT!" "NEXT"

ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: نومبر 1992۔

Aik din Labour room mein. Short Story by: Jeelani Bano

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں