تان سین کا اصلی نام ترلو چن داس تھا۔ ذات کے یہ گوڑ برہمن تھے ۔ ان کے والد مکرند پانڈے کے نام سے پہچانے جاتے تھے ۔ یہ گوالیار کے رہنے والے تھے ۔ موضع بھینٹ تان سین کی جائے ولادت ہے ۔ جہاں ان کے والد کا سکونتی مکان تھا۔ یہ موضع گوالیار خاص سے بجانب مشرق تقریباً سات میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہاں تان سین کے نام کی ایک چھوٹی سی اک دری مڑھی بنی ہوئی ہے جس کے اوپر گنبد ہے اور سامنے برآمدے میں ایک گھنٹی آویزاں ہے ۔ راہ گیر اس کو بجا کر وہاں سے گزرنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ تان سین اس مڑھی میں بیٹھ کر گایا کرتے تھے۔
مکر ند پانڈے کے کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ اولاد کے آرزو مند رہتے تھے۔ یوں بھی اولاد کا چاہنا انسانی زندگی کا ایک خاص جزو ہے۔ گھرکا چراغ اس کو کہا گیا ہے ۔ان امور کے تحت مکرند پانڈے اوراس کی بیوی کا اولاد کے لئے بے قرار رہنا کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اپنی آرزو کے پورا کرنے کی تگ و دو میں رسم و رواج کے مطابق سب ہی کچھ انہوں نے کیا۔ پیر فقیر، سادھو سنت، دیوی دیوتا، کہاں کہاں کی بے چاروں نے خاک نہ چھانی۔لیکن کہیں کوئی صورت مقصد براری کی پیدا نہ ہوئی۔ عمر کی کافی منزلیں طے کرچکے تھے ۔ آخر مایوس ہوکر بیٹھ رہے۔
حضرت محمد غوث گوالیاری اس وقت تعویذ گنڈے اورعملیات میں لا ثانی تھے۔ ان کے ایک بھائی حضرت شیخ احمد بھینٹ کے قریب موضع بلارے میں رہا کرتے تھے۔ یہ موضع اس وقت سر سبز اور موصوف کی جاگیر میں تھا۔ اب بھی ان کو اولاد کے بعض افراد یہاں رہتے ہیں اور تعلیم سے محروم کاشتکاری کرتے ہیں۔
حضرت محمد غوث ؒ کبھی کبھی اپنے بھائی سے ملنے کے لئے بلارے جایا کرتے تھے۔ عوام میں اس وقت ان کی بڑی شہرت تھی ۔ پہنچے ہوئے درویش کی حیثیت سے بلا امتیاز مذہب و ملت ہر شخص ان کا پرستار تھا ۔معمولی انسان سے لے کر بادشاہ وقت تک ان کے اوصاف کے مسلم تھے ۔ تاریخیں بڑے شدومد کے ساتھ اس کا ذکر کرتی ہیں۔ مکرند پانڈے کے علم میں یہ بات آچکی تھی ۔وہ اپنی آرزو لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا ۔ چنانچہ حضرت محمد غوث جب بلارے پہنچے تو مکرندان کی خدمت میں حاضر ہوا۔"دامن چرتر" نامی ہندی کی ایک قلمی کتاب کے حوالے سے"سنگیت کلا بھون گوالیار"کے ماسک پتر"سنگیت کلا" نے اس نظارے کو حسب ذیل الفاظ میں قلم بند کیا ہے:
"آندھی زوروں سے چل رہی تھی۔ رم جھم پانی برس رہا تھا۔ ایک شخص جلدی جلدی چلا جارہا تھا ۔ وہ چلتا ہی گیا۔ آخر کار وہ ایک سادھوؤں کی ٹولی کے پاس پہنچا۔ آنے والا ایکدم پیر صاحب کے پاؤں پر گر پڑا ۔ پیر صاحب نے اس سے پوچھا کیا چاہتے ہو؟ آنے والے نے کہا، میں نے کئی دیوی، دیوتاؤں کی منتیں مانگیں پر میری مراد پوری نہیں ہوئی۔ میں بے اولاد ہوں ۔ پیر صاحب کو اس پر ترس آگیا اور کہا جا تیرے گھر بیٹا ہوگا اور ایسا بیٹا ہوگا جس کا نام اس دنیا میں امر ہوجائے گا۔ پیر صاحب گوالیار کے مشہور پیر حضرت محمد غوث تھے اور آنے والا شخص مکرند پانڈے تھا۔ پیر صاحب کی دعا سے مکرند پانڈے کے گھر ایک سال بعد چاند سا بیٹا پیدا ہوا ۔ بھینٹ گاؤں میں بڑی دھوم دھام ہوئی۔"
تان سین کی تاریخ ولادت کے بارے میں بڑا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کا سبب جہاں تک ہم سمجھے ہیں یہ ہے کہ تان سین اکبر کے دربار میں حاضر ہونے کے بعد تاریخی حیثیت کے مالک بنے ۔ اس سے پہلے ان کی حیثیت معمولی تھی اور گانے کا فن عام ۔نیز اس زمانے میں اس قسم کی چیزوں کی طرف دھیان دینے کا رواج بھی کم تھا۔ ان کی کوئی اہمیت ذہنوں میں نہیں تھی ۔ صرف اندازے اور قیاس آرائیوں پر ایسی باتوں کا لکھ دینا ان کے نزدیک کافی تھا ۔اب ترقی یافتہ دور میں اس طرف خاص توجہ سے کام لیا گیا ۔ باوثوق پہلے کی کوئی چیز سامنے تھی ہی نہیں ۔ پس واقعات سے امداد لے کر اپنی نظر میں مناسب تاریخ متعین کرلی۔
سینہ بہ سینہ اقوال اور بزرگوں کے مخطوطات کی بناء پر تان سین کی ولادت کا سال 931ھ مانا جاتا ہے ۔ یہ سن عیسوی میں 1524ء اور بکرمی میں 1582ء کے مطابق ہوتا ہے ۔ چونکہ تان سین کی پیدائش حضرت محمد غوثؒ کے واسطے سے ہوئی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح جہانگیر کی ولادت حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے واسطے سے ظہور میں آئی۔ پس حضرت محمد غوثؒ کے دیگر واقعات و متعلقات کی طرح تان سین کے سن ولادت کو بھی ان کے پیروکاروں نے زبانی و قلمی طریق پر رکھنے کی کوشش کی ۔ نیز یوں بھی یہ واقعہ حضرت کی کشف و کرامات کے سلسلے کا ایک اہم واقعہ تھا ۔
الغرض تان سین کی پیدائش سے مکرند اور ان کے خاندان والوں کے سامنے مادی طور پر وہ باتیں آگئیں جن کو ابھی تک وہ صرف لوگوں سے سنا کرتے تھے ۔ریت رسموں سے فارغ ہوکر جوش عقیدت کے ساتھ نومولود بچے کو آپ کے پاس لے کر دوڑے اور یہ کہہ کر کہ ہم تو مایوس ہوچکے تھے ۔ یہ بچہ آپ ہی نے ہم کو دیا ہے ۔ آپ کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ آپ نے ہمیں برادری میں سرخرو ہونے کے قابل بنادیا۔ ہم اس کا عوض آپ کو کیا دے سکتے ہیں۔ یہی بچہ آپ کی نذر کرتے ہیں، آپ اس کو اپنا سمجھ کر پالیں پوسیں اور پڑھائیں لکھائیں۔ آپ کی خدمت کر کے سعادت مندی حاصل کرتے رہنا اس کا فرض ہوگا ۔ چنانچہ حضرت محمد غوث پر مکرندی کی باتوں کا بڑا اثر ہوا۔ ان کی عقیدت مندی دیکھ کر آپ پگھل گئے اور وعدہ کرلیا کہ اس بچے کی تعلیم و پرورش کا انتظام ہم خود کریں گے ۔ ہمارے یہاں ولادت سے چار سال چار مہینے چار دن چار گھڑی بعدبچے کی تعلیم شروع کی جاتی ہے۔ لہٰذا اس وقت تک تم اس کو بطور امانت اپنے پاس رکھو ۔ والدین اس بات پر رضا مند ہوگئے ۔ اس دوران میں وہ اکثر تان سین کو ساتھ لے کر حضرت محمد غوث کی خدمت میں حاضر ہوتے ، دعائیں لیتے اور چلے جاتے ۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب اس کی پو شیدہ قوتوں کو بروئے کار لانے کی بنیاد ڈالی جائے ۔
935ھ(1528ء) میں حضرت نے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ جلسہ عام میں مکتب کی رسم ادا کی ۔ بسم اللہ اور اقراء اس کو پڑھائی ۔ نیز اپنا مرید کرکے تعلیم شروع کرادی اور "ٹوڑی" پیارسے اس کا نام تجویز کیا۔
بعض ناواقف ارباب قلم نے لکھ دیا ہے کہ محمد غوث نے تان سین کو گانا سکھایا تھا ۔ یہ محض غلط ہے ۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے درویش تھے۔ سماع سے ان کو دل چسپی ضرور تھی۔ گانے کے نکات سے واقفیت بھی رکھتے تھے کہ یہ فن اس وقت علم اور ہنر سمجھاجاتا تھا ۔ لیکن تان سین کو تعلیم دینے کا وقت ان کے پاس نہیں ہوسکتا تھا ۔ پیر فقیراپنا وقت یاد الٰہی میں صرف کرتے ہیں ان کو اتنا موقع نہیں ملتا کہ وہ کسی کو گانا سکھائیں۔ ان کی تو صرف دعائیں کام کرتی ہیں۔ چنانچہ یہی تان سین کے کام آئیں۔
زمانہ تعلیم میں وہ حضرت کے پاس رہا کرتے تھے ۔ کبھی کبھی اپنے گھر والوں اور رشتے داروں سے ملنے جلنے کے پیش نظر بھینٹ بھی آجایا کرتے تھے ۔ تفریحاً حضرت محمد غوثؒ کے باغ میں آنا جانا رہتا تھا۔ جو آپ کے محلوں سے قریب ہی غوث پورے میں واقع تھا۔ یہاں تان سین جنگلی جانوروں کی بولی نقل کرنے کا کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ کبھی کبھی موج میں آکر گاتے بھی تھے ۔ آہستہ آہستہ خوش گلوئی اور جذب کی شہرت ہونے لگی۔ لیکن اصول موسیقی سے وہ ابھی تک نابلد تھے ۔پس حضرت نے 1532ء میں راجاجان کے قائم کیے ہوئے گان ودیالہ گوالیار میں داخل کرادیا۔ تان سین چار پانچ سال میں اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہوگئے ۔
محمد غوث صاحب کی خدمت میں شب و روز حاضر رہنے سے درویش کی بوباس بھی اب تان سین میں اچھی طرح پیدا ہوگئی تھی۔ آپ کے خیالات رہن سہن اور انداز صوفیانہ ہوچکا تھا ۔ اب آپ درویشوں کی خوبیوں سے پورے طور پر مزین نظر آنے لگے ۔ ادھر تصو ف کی تعلیم بھی کی جاچکی تھی ۔ چنانچہ پیر صاحب نے ان کو اپنا خلیفہ بنادیا ۔ یہ واقعہ تقریباً1538ء کا ہے۔
تان سین اب جہاں اول درجے کے نائک تھے وہاں درویش کامل ہونے کی سند بھی ان کومل ئی اور عزت و احترام میں بھی اضافہ ہوگیا ۔ لوگ جوق و در جوق ان کے پاس آتے اور کسب فیض کی درخواستیں پیش کرتے۔ عوام کو جہاں ان کے گانے سے دلچسپی تھی وہاں اب وہ عقیدت مندی کے پھول بھی ان کے قدموں پر برسانے لگے اور ہر وقت ایک بڑا مجمع ان کے پاس رہنے لگا۔
1540ء میں شیر شاہ سوری نے ہنگامہ اٹھایا۔ محمد غوث صاحب کا خاندان مغلیہ سے متعلق تھا۔ میان دو کوہ و میان دو آب کی ایک کروڑ ٹنکا کی جاگیربھی اسی خاندان کا عطیہ تھی۔ شیر شاہ حضرت کو اپنا دشمن سمجھ کر طرح طرح اذیتیں پہچانے کی تدبیریں کیا کرتا تھا۔چنانچہ شیر شاہ سوری کو بد دعا دینے کے مقابلے میں آپ نے گوالیات سے گجرات چلے جانے کو مناسب سمجھا اور 1542ء میں سفر گجرات اختیار کیا جہاں آپ کے معتقدین کی بھی اچھی تعداد تھی اور حکمران بھی وہاں دوسرا تھا۔ جس کو سلطان محمود گجراتی کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ۔
تان سین اس سفرمیں ا پنے پیر کے ہمراہ تھے ۔؛ سلطان گجرات آپ کی تعریف اس سے قبل سن چکا تھا ۔ وہاں پہنچنے پر بحصول اجازت حضرت محمد غوث صاحب تان سین کو اپنے دربار میں شریک ہونے اور گانے کی دعوت دی ۔ پیر صاحب نے بخوشی اجازت دے دی۔
سلطان جہاں خود علم و فن کا دلداہ تھا وہاں اپنے یہاں با کمال لوگ بھی رکھا کرتا تھا ۔ چنانچہ اس وقت ایک کنچنی(طوائف) گانے میں مہارت تامہ رکھنے والی اس کے دربار کی رونق تھی ۔ تان سین کو پہلے ہی اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ یہ کنچنی ملہار راگ کی بڑی گویا ہے اور گاتے گاتے جب یہ اپنی نتھ کنویں میں ڈال دیتی ہے تو کنویں کا پانی ابل آیا کرتا ہے۔ چنانچہ تان سین جب حاضر دربار ہوئے تو انہوں نے یہی راگ گایا جس کے اثر سے طوفانی بارش شروع ہوگئی ۔ یہ عالم دیکھ کر حاکم وقت بہت گھبرایا۔ مہمان سے براہ راست تعرض کرنے کو خلاف آداب میزبانی سمجھ کر فوراً پیر صاحب کی خدمت میں ہرکارہ بھیجا۔ آپ نے اپنے صاحب زادے عبداللہ شاہ کو بھیجا کہ وہ تان سین کو اس خطرناک عمل سے باز رکھیں صاحب زادہ صاحب آئے تو تان سین خود فراموشی کے عالم میں محو خروش تھے ۔ آپ نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور ان کا جوش و خروش سرد پڑ گیا۔ نیز پانی کا طوفان فرو ہوگیا۔ سلطان نے اس پر کثیر انعام و اکرام تان سین کو پیش کیا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا ۔ سلطان نے ملازمت دربار کی پیش کش کی لیکن تان سین اس سے بھی انکاری ہوگئے اور اپنے وطن گوالیار چلے آئے۔
اسی قسم کی کچھ اور حکایات تان سین کے فن کے متعلق زبان زد عام ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ اس زمانے میں کوئی گائک بیجو باورا تھا جو راگ کی دھن میں ہمیشہ مست رہتا اور جنونی ہو چکا تھا۔ گوالیار کے کسی جنگل میں تان سین تنہا گارہاتھاکہ ادھر سے بیجو بھی آنکلا ۔ دونوں فن کاروں کی ٹکر ہونے لگی۔ بیجو نے اساوری راگنی کو الاپنا شروع کیا۔ اس راگنی کی تاثیر یہ بتائی جاتی ہے کہ اسے سن کر ہرن جمع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہرن راگنی سن کر ان کے پاس آگئے تو بیجو نے اپنے گلے سے سونے کا ہار اتارکر ایک ہرن کے گلے میں ڈال دیا۔ گانا بند ہوجانے پر سب ہرن بھاگ گئے۔ بیجو نے تان سین کو چیلنج کیا کہ تمہیں جب استاد مانوں گا کہ میرا سنہری ہار ہرن سے واپس منگا دو ۔ یہ سن کر تان سین غوروفکر میں غوطہ زن ہوا اور وہیں بیٹھے ایک نیا راگ اختراع کرکے الاپنا شروع کردیا۔ یہ راگ میان کی ٹوڑی کے نام سے مشہور ہے اور اب بھی گایاجاتا ہے ۔ چنانچہ اس راگ کی تاثیر بھی وہی ثابت ہوئی جو آساوری کی تھی۔ ہرنوں کنا وہی گروہ پھر نمودار ہوا اور ہار والے ہرن کے گلے سے ہار اتارکر تان سین نے بیجو کے حوالے کردیا۔ تب بیجو نے تان سین کے روبرو زانوئے ادب تہ کیا اور اسے اپنا استاد گردانا۔
بیو باورے کا مقابلہ تان سین کی عالمگیر شہرتوں کا نمایان سنگ بنیاد بنا اور ملک میں اس سے آپ کا بڑا چرچا پھیلا۔ لیکن گردش افلاک کسی کو بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ تان سین بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ 1545ء میں آپ دولت خاں جسے شیر شاہ سوری کا بیٹا کہا جاتا ہے کہ عشق میں گرفتار ہوئے جس نے ان کے دماغی توازن کو خراب کردیا۔
لکھنے والوں نے تان سین کی دیوانگی کو اسی عشق پر محمول کیا ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ اثرات گانے میں محویت بڑھ جانے کی وجہ سے بھی مرتب ہوسکتے ہیں نیز درویشی کی ایک منزل میں بھی انسان کو اسی راہ سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اصطلاح تصوف میں اس کا نام جذب ہے اور جس پر اسکا غلبہ ہوتا ہے اس کو مجذوب کہتے ہیں۔ بہر حال واقعہ کچھ بھی ہو لیکن لوگ ظاہر پر حکم لگاتے ہیں اکثر یہی خیال کیا گیا کہ تان سین عشق کی وجہ سے دیوانے ہوگئے ۔
تان سین کی شاعرانہ صلاحیتوں کو قوت پہنچانے والا یہی زمانہ ہے اور یہیں سے لکھنے لکھانے کا میدان ہموار ہوتا ہے۔ جذباتی شاعری جہاں اس دور کی نمایاں یادگار ہے،وہاں اس نے راگ مالا وغیرہ قسم کی مفید تصانیف کے لئے بھی راہ نکال دی۔
دولت خاں کے مرنے کے بعد تان سین ریاست ریوں کے راجا رام چند کے پاس چلے گئے ۔ اس نے تان سین کی اتنی قدرومنزلت کی کہ بیان سے باہر ہے ۔ چنانچہ ایک دن ایک کروڑ روپے اسے عطا کئے ۔ جب اس فن میں اس کی مہارت کا شہرہ اکبر کے دربار تک پہنچا تو اس نے راجا سے تان سین کومانگ لیا۔ اس کی نادر نغمہ کاری نے بادشاہ کو بہت مسرور کیا اور دربارمیں بڑی عزت و اعتبار سے رہنے لگا۔
تان سین کے تصرفات کے منجملہ یہ ہے کہ اس نے کانہڑے میں ملہار اور کلیان کو ملا کر اس کا نام درباری کانہڑا رکھا اور اکبر کے سامنے پیش کیا۔ آساوری اور گندھا ر کوملا کر لفظ جوگیا بڑھایا اور ملہار میں کانہڑے کو داخل کرکے میاں کی ملہار نام رکھااور میاں کی ٹوڑی اور میاں کی سارنگ جو مشہورہیں یہ بھی اسی کے تصرفات میں داخل ہیں۔
دربار اکبری میں آنے کے بعد تادم مرگ دربار میں رہے۔ یہیں ان کا انتقال جمادی الآخر997ھ(1589ء) میں ہوا۔
مرتے وقت آپ نے دو وصیتیں کی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ میری قبر پیر محمد غوثؒ کے قدموں میں ہونی چاہئے ۔ لہذا بہ تکمیل وصیت ان کو وہیں دفن کیا گیا۔ چونکہ ابتداً ڈنکے کی چوٹ وہ اپنے پیر کے ماحول میں ضم ہوچکے تھے اس لئے دفن کے وقت کوئی ایسا سوال بھی نہیں اٹھاجیسا کہ سری کبیر اور گرونانک کے متعلق تاریخ نے بتایا ہے ۔
محکمہ آثار قدیمہ ریاست گوالیار کی جانب سے آپ کے مزار پر ایک تختی ایک ستون پر انگریزی اور ہندی میں اور ایک پر اردو میں چھپی ہوئی مہر لگی ہوئی لٹکی رہتی تھی ۔ اردو تختی کی نقل حسب ذیل ہے :
"تان سین کو گویے علم موسیقی کا بادشاہ گردانتے ہیں۔ آپ نے علم موسیقی کی تعلیم گوالیار کے مدرسہ موسیقی سے حاصل کی ۔ یہ مدرسہ راجا مان سنگھ تنور نے قائم کیا تھا۔ کچھ عرصے تک آپ ریاست ریواں کے راجا رام چندرکے دربار میں رہے جن سے بادشاہ اکبر نے آپ کو مانگ لیا ۔ دربار اکبر کے نورتنوںمیں آپ بہت ممتاز تھے ۔ کہتے ہیں کہ آپ سے اچھا گویا ہندوستان میں آج تک نہیں ہوا۔
تان سین ہندو تھے ۔ جیسا کے نام سے ظاہر ہے لیکن "آئین اکبری" میں شیخ ابو الفضل نے آپ کو میاں تان سین لکھا ہے ۔ اس مسلمان لقب کے علاوہ یہ واقعہ کہ آپ کو اہل اسلام کے قبرستان میں آرام گاہ ابدی ملی ہے ثابت کرتا ہے کہ آپ نے مذہب اسلام اختیار کرلیا تھا ۔ آپ کی ٹھیک تاریخ وفات معلوم نہیں۔ یہ سادہ مقبرہ ایک صاحب کمال ماہر فن کی بہت معمولی یادگار ہے ۔
ہرپیشہ گور گویا جو گوالیار آتا ہے اسے مقبرے کی زیارت کو حاضر ہوتا ہے۔ مقبرے کے قریب ایک املی کا درخت ہے جس کی پتیاں گویے اور رنڈیاں اس عقیدت سے کھاتی ہیں کہ ان کی آواز میں سریلا پن آجائے گا اور بطور تبرک باہر بھی لے جاتے ہیں۔
(مطبوعہ عالی جاہ دربار پریس گوالیار)
- یہ بھی پڑھیے: امیر خسرو اور ہندوستانی موسیقی
ماخوذ از کتاب: "کیا صورتیں ہوں گی" (فنِ موسیقی پر معلومات افزا اور نایاب مضامین کا مجموعہ)
تالیف: پروفیسر شہباز علی
مضمون : برصغیر کی موسیقی کی ترقی و ترویج میں مسلمانوں کا کردار (مضمون نگار: ایم۔اے۔شیخ)
Tansen and Indian Music. Essay by: M.A.Shaikh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں