پہلا پیغام ان عورتوں کے لیے تھا جو اس لڑائی میں زعفرانی طاقتوں کی آلہ کار بن کر ان کے ایجنڈے کی تنفیذ کا راستہ ہموار کر رہی تھیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر اپنی دانشوری کی ڈفلی بجانے والی ان عورتوں کو اپنی اوقات کا پتہ چل گیا ہوگا اور اس بات کا بھی احساس ہو گیا ہوگا کہ اپنی حیثیت سے زیادہ واویلا مچاکر وہ نہ اپنی برائے نام موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرسکتی ہیں اور نہ ہی جبرا اپنی سمجھ دوسروں پر تھوپ سکتی ہیں۔۔۔
دوسرا پیغام زعفرانی طاقتوں کے لیے تھا کہ وہ مسلم خواتین کی ہمدردی کا بہانہ بنا کر ملک میں یکساں سول کوڈ کی تنفیذ کا اپنا ایجنڈہ نافذ نہیں کرسکتیں۔ مسلم عورتیں ان کے کردار کو بخوبی پہچانتی ہیں اور مسلم خواتین کے لئے ان کی ہمدردی کو بھی اچھی طرح سے جانتی ہیں، خاص طور پر فسادات کے دوران مسلم خواتین کے تئیں ان کا وحشیانہ رویہ اتنا جگ ظاہر ہے کہ ان کی ہمدردی کے دعوی کو کوئی احمق ہی سنجیدگی کے ساتھ لے سکتا ہے۔
طلاق ثلاثہ ایک واقع ہوتا ہے یا تین، اس کا جواب مختلف اسلامی مسالک مختلف طریقے سے دیتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔ یہ مسلم قوم کا اندرونی مسئلہ ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ کو تین مانے یا ایک، یا کچھ مسالک ایک مانیں اور کچھ تین۔ مسلم پرسنل لاء کی حدود میں دونوں یا مختلف سمجھ داریاں تحفظ کا حق رکھتی ہیں۔ کسی بھی بیرونی فریق کو کسی بھی قسم کا کوئی حق ہی نہیں بنتا کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت کرے۔ اس معاملہ پر بحث ومباحثہ اور کسی نتیجہ پر پہونچنا صرف اور صرف مسلم قومی دائرہ کار میں ہونا چاہیے۔ ہاں، دھماکہ خیز صورتحال کو دیکھتے ہوئے مسلم علماء و دانشوران کو غور و خوض کرکے اس مسئلہ میں کوئی درمیانی راستہ ضرور نکالنا چاہیے۔ اگر سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ کوششیں کی گئیں تو اس معاملہ میں درمیانی راستہ نکلنے کے امکانات بیحد قوی ہیں۔ لیکن، یہاں ایک بار پھر دہرا دوں کہ غور و خوض ہو یا نہ ہو، درمیانی راستہ نکلے یا نہ نکلے، اس سے جسودا کے کاغذی شوہر کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔
رہی بات حلالہ کی، تو قرآن و سنت کی رو سے یہ حرام ہے۔ خود مسلم پرسنل لاء بورڈ تمام مسالک کے اتفاق کے ساتھ اس کے حرام ہونے کی قرارداد پاس کرچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ نظریاتی نہ ہو کر عملی ہے۔ ذمہ داران کو حلالہ کی حرمت پر عمل مزید نتیجہ خیز اور یقینی بنانا چاہیے۔ یہ مسلم سماج پر ایک کلنک ہے۔ اس کو جلد از جلد مٹانا بیحد ضروری ہے۔
رہی بات یکساں سول کوڈ کی، تو اس کی مخالفت میں نہ صرف تمام مسلم قوم بلکہ اکثر وبیشتر اقلیتیں یہانتک کہ اکثریتی طبقہ کی اچھی خاصی تعداد متفق ہیں۔ اس ملک میں بہت ساری قومیں رہتی ہیں۔ ہر قوم کو اپنے مذہب، تہذیب اور رسوم و رواج کے تحفظ اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کا بنیادی آئینی حق حاصل ہے۔ آریائی برہمن آئین کے ایک غیر عدالتی اختیار کے حامل شق کو لے اتنا نہ کودیں کہ پورا آئین ہی ملیا میٹ ہو جائے اور آئین کے بنیادی اصولوں پر مبنی مختلف قوموں کے درمیان قائم کردہ سیاسی معاہدہ (Political contract) ہی خطرہ میں پڑ جائے۔ سمجھ دار کے لیے اشارہ کافی ہے اور احمق کے لیے "ارتھ شاستر" بھی کافی نہیں۔۔۔
نوٹ :
مضمون نگار مہارشٹرا کالج (ممبئی) کے شعبہ عربی و اسلامیات میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔
***
ای-میل: shamsurrab[@]gmail.com
فیس بک : ShamsurRab Khan
مضمون نگار مہارشٹرا کالج (ممبئی) کے شعبہ عربی و اسلامیات میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔
***
ای-میل: shamsurrab[@]gmail.com
فیس بک : ShamsurRab Khan
شمس الرب خان |
Muslim women march and its aftermath. Article: ShamsurRab Khan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں