جنسی جرائم کے سلسلے میں تعزیرات ہند کچھ عجیب و غریب اصولوں کی حا مل ہے ۔ اس کی دفعہ497کے تحٹ کوئی شادی شدہ عورت اگر اپنی مرضی سے غیر مرد کے ساتھ زنا کرے تو اس کا مجرم وہ مرد قرار پائے گا زنا کی مرتکب عورت الزام جرم سے مستثنیٰ ہوگی۔ جب1860میں یہ قانون بنا تھا تب ملک کے مردوں کی اکثریت کو ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت تھی اور کہا گیا تھاکہ کیوں کہ مرد اپنی غیر معمولی جنسی پیاس مزید شادیاں کرکے بجھا سکتے ہیں مگر عورتیں ایسا نہیں کرسکتیں اس لئے انہیں غیر مرد سے تعلق بنانے پر سزا دینا بے انصافی ہوگی ۔ یاد رہے کہ زنا سے متعلق دفعات تو تعزیرات ہند کے انسانی جسم کے خلاف جرائم کے باب میں ہیں مگر یہ دفعہ شادی سے متعلق جرائم کے باب میں ہے اور اسی کے تحت تعدد ازدواج کی دفعات بھی ہیں جن میں کہا گیا اگر کوئی ایسا شادی شدہ شخص جس کے عائلی قانون کے تحت ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی باطل ہو ایسا کرے تو وہ لائق تعزیر جرم کا مرتکب ہوگا۔ آج مردوں کی غالب اکثریت کو تعدد ازدواج کی اجازت نہیں ہے مگر تعزیرات ہند کی دفعہ497اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہے اور سپریم کورٹ اسے آئینی طور پر درست بھی ٹھہرا چکا ہے ۔ آج اکیسویں صدی میں بھی جاری و ساری جنسی مساوات کا یہ عجیب پیمانہ ہے جس پر نہ قانون بنانے والوں کی نظر پڑتی ہے نہ عدلیہ کو اعتراض ہے ۔ تعزیرات ہند میں2013ء کی مذکورہ بالا ترمیمات کے تحت زنا سے متعلق چار نئی دفعات کا اضافہ کیا گیا تھا جن میں سے بعد کی تین تو غیر عورت کے ساتھ مخصوص صورتوں میں جنسی زبردستی سے متعلق ہے لیکن پہلی میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ عورت عدالتی حکم سے یا رسم و رواج کے تحت اپنے شوہر سے الگ رہ رہی ہے اور اس کا شوہر اس دوران اس کی مرضی کے خلاف اس سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو یہ عمل زنا بالجبر کی تعریف میں آئے گا اور لائق تعزیر ہوگا۔ ملک کے ازدواجی قوانین کے تحت عدالتیں متعینہ بنیادوں پر کسی شادی کو منسوخ کرسکتی ہیں لیکن اگر مصالحت کی کافی گنجائش نظر آئے تو اس کے بجائے ان میں عارضی علیحدگی کا حکم لگا سکتی ہیں اور نئی اضافی دفعہ میں اسی کا ذکر ہے ۔ اس دفعہ میں مذکو ر رسم و رواج کے تحت مسلم پرسنل لا کے وہ مسائل بھی آئیں گے جو مخصوص حالات میں بیوی کو شوہر سے علیحدہ رہنے یا اس کے ساتھ جنسی تعلق سے انکار کرنے کی اجازت دیتے ہیں( مثلا مہر معجل ادا نہیں کئے جانے یا نالابلغی کی عمر میں ولی کے ذریعے کئے نکاح کو لڑکی کی طرف سے مسترد کئے جانے کی صورتوں میں)۔ ملک میں نابالغ لڑکے لڑکیوں کی شادی کی ممانعت کے قانون بنتے ہی رہے ہیں مگر اس رواج کو ختم کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں کیونکہ سماج نے انہیں قبول نہیں کیا۔ جب1929میں شاردا ایکٹ کے عنوان سے اس امر کا پہلا قانون بنا تھا تو اس وقت کے ممتاز مزاحیہ شاعر شوق بہرائچی مرحوم نے اس پر سماج کے رد عمل کی یوں ترجمانی کی تھی’’ شادی بت کمسن سے کروں گا میں تو ، جوتی سے مری شاردا بل پاس ہوا ہو ‘‘ اس قانون میں وقتا فوقتا ترمیمات ہوتی رہیں اور بالآخر اس کی مطلق ناکامی کو دیکھتے ہوئے2006میں اس کی جگہ ایک نیا سخت قانون بنایا گیا تاہم نکاح بالغان کا رواج ملک میں اب بھی باقی ہے ۔ پرانے اور نئے دونوں قوانین کے تحت نا بالغوں کی شادی کروانا جرم ہے لیکن دونوں ہی ایسی شادی کو باطل نہیں قرار دیتے ہیں ، البتہ نئے ایکٹ کے تحت نابالغی میں شادی کے بندھن میں جکڑ دئیے جانے والے لڑکے لڑکیاں چاہیں تو متعینہ مدت کے اندر عدالت سے اپنی شادی منسوخ کرواسکتے ہیں ۔ قانون میں کم عمری کی شادی کی گنجائش باقی رکھنا اور شادی کے بعد فریقین پر جسمانی طور سے الگ رہنے کا حکم لگانا ہماری رائے میں نہایت احمقانہ بات ہیاو ر اردو کی مشہور مثل دھوبی پر بس نہیں چلا گدھے کے کان اینٹھ دئیے کے مترادف ہے ۔ دہلی ہائی کورٹ سے اس حکم کی فرمائش کرنے والی بی بی خوشبو سیفی اگر اپنی کوشش میں کامیاب ہوبھی گئیں اور سپریم کورٹ نے بھی ان کے مطمح نظر کو شرف قبولیت بخش بھی دیا تو اس نئے عدالتی حکم کا نفاذ عملا اتنا ہی ناممکن ہوگا جتنا عدالت عظمیٰ کی طرف سے حال ہی میں طلاق ثلاثہ پر لگائے گئے حکم امتناعی کا ہے۔ عدلیہ کا ایسے ہوائی قلعے بنانا ہمیں تو بے مقصد ہی نظر آتا ہے ۔
مضمون نگار قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئر مین اور لا کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن ہیں ۔
Marital Rape and the Indian legal scenario. Column: Prof Tahir Mahmood
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں