بھارت میں آزادی چاہئے - بھارت سے آزادی نہیں - کنہیا کمار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-04

بھارت میں آزادی چاہئے - بھارت سے آزادی نہیں - کنہیا کمار

نئی دہلی
پی ٹی آئی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلبا یونین کے لیڈر کنہیا کمار نے اپنی گرفتاری کے تین ہفتوں بعد جیل سے رہائی پر کیمپس لوٹتے ہوئے آج رات کہا ہے کہ وہ ہندوستان سے آزادی نہیں بلککہ ہندوستان میں آزادی چاہتے ہیں ۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی تنقید کی۔29سالہ کنہار کمار نے کہا کہ ویر اعظم کے ساتھ ان کے کئی اختلافات ہیں لیکن وہ ان کے ٹویٹ ستیہ میو جئتے سے اتفاق کرتے ہیں ۔ انہوں نے ریمارک کیا کہ ہم بھارت سے آزادی نہیں چاہتے بلکہ بھارت میں آزادی چاہتے ہیں ۔ نتیش کمار نے کہا کہ وہ کسی کے ساتھ بھی بغض نہیں رکھتے اور آر ایس ایس کی طلبا شاخ اے بی وی پی سے کوئی انتقام نہیں لیں گے ۔ اس موقع پر پرجوش طالب علموں نے جئے بھیم، لال سلام اور آزادی کے نعرے لگائے ۔ قبل ازیں جواہرلال نہرو طلبا یونین کے لیڈر کنہیا کمار کو آج ان کے حامیوں کے جشن کے درمیان تہاڑ جیل سے رہا کیا گیا جنہیں دہلی ہائیکورٹ نے تحقیقات میں تعاون اور ضرورت پڑنے پرپولیس کے سامنے پیش ہونے کی شرط پر چھ ماہ کی عبوری ضمانت دی تھی۔ کنہیا کمار کو تین ہفتہ پہلے غداری کے الزامات پر گرفتار کیا گای تھا جس پر زبردست عوامی برہمی پیدا ہوگئی تھی ۔ اڈیشنل انسپکٹر جنرل محابس اور تہاڑ جیل کے ترجمان مکیش پرساد نے بتایا کہ کنہیار کو شرائط کی تکمیل کے بعد شام تقریبا6:30بجے جیل سے رہا کردیا گیا ۔ کنہیا کو پارلیمنٹ پر حملے کے قصور وار افضل گرو کی پھانسی کے خلاف احتجاج کے لئے جے این یو کیمپس میں ایک پروگرام کے انعقاد کے سلسلے میں12فروری کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس پروگرام کے دوران مبینہ طور پر قوم دشن نعرے لگائے گئے تھے ۔ طلبا لیڈر جب جیل سے باہر آئے ان کے حامیوں نے زبردست جشن منایا۔ جے این یو کیمپس میں بھی جشن منایا گیا ۔ اس سے پہلے دن میں دہلی کی ایک عدالت نے ضمانت کی رقم کی ادائیگی کے بعد کنہیا کی رہائی کا حکم جاری کیا ۔ جے این یو کے بعض ٹیچرس بھی جیل کی گیٹ کے باہر موجود تھے جب انہیں رہا کیا گیا ۔ پٹیالہ ہاؤز کورٹ کے احاطہ میں حملوں کے پس منظر میں دہلی پولیس نے کنہیاکمار کی رہائی کے موقع پر زبردست حفاظتی انتظامات کئے ۔ جیل سے رہائی کے بعد کنہیا کمار ایک ایس یووی گاڑی میں سوار ہوئے جس کا انتظام ان کے وکیل نے کیا تھا ۔ جیل سے رہائی کے چند گھنٹوں بعد کنہیا جواہر لال نہرو یونیورسٹی پہنچے جہاں زبردست جشن منایا گیا ۔ طلبا اور ٹیچرس کنہیا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گنگا دھابہ کے مقام پر جمع ہوئے تھے جہاں سے انہوں نے اڈمنسٹریشن بلاک تک فتح جلوس نکالا جہاں متنازعہ احتجاجی پروگرام منعقد ہوا تھا۔ کنہیا کے ہاسٹل برہمپترا کے باہر بھی لوگ قطار میں ٹھہرے ہوئے تھے اور ڈھول اور ڈفلی بجار ہے تھے۔
نئی دہلی سے ایجنسی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب جے این یو طلبہ کے صدر کنہیا کمار نے یونیورسٹی کیمپس میں ایک جوشیلی تقریر کرتے ہوئے مودی کی زیر قیادت حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک گاؤں سے آیا ہوں ، جہاں لوگ جادوئی کھیل دکھاتے ہیں۔ لوگ جادوئی رنگ فروخت کرتے ہیں جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ تمام خواہشات پورے کرتے ہیں۔ ایسے ہی افراد ہمارے ملک میں ہیں، جو کہتے ہیں کہ کالا دھن ملک واپس آئے گا ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ہوگا( سب کی تقری) ۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے بی جے پی حکومت کا انتخابی وعدے کو مذاق کانشانہ بنایا۔ ہم ہندوستانی بہت جلد سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔ تاہم یہ تماشہ اتنا بڑا تھا اور یہ جملے(انتخابی وعدے) ناقابل فراموش ہییں ۔ ان کے بیان پر طلبہ نے زبردست تالیاں اور نعروں سے ان کی ستائش کی ۔ انہوں نے دوبارہ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے یہ کہا کہ آزادی بھوک سے ، رشوت ستانی سے، امتیازی سلوک سے اور پسماندگی سے ، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا چاہیں گے کیوں کہ یہ معاملہ اب عدالت میں زیر دوران ہے ۔ انہوں نے بی جے پی کی حلیف طلبہ تنظیم اے بی وی پی کو ایک سیاسی مخالف قرار دیانا کہ ایک دشمن۔ ہم ہندوستان سے آزادی نہیں چاہتے بلکہ ان سے آزادی چاہتے ہیں جو ہندوستان کو لوٹ رہے ہیں ۔ ان کے خطاب کو دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے اپنے ٹوئٹر پیام کے ذریعہ ستائش کی ۔ قبل ازیں کمار اور جے این یو کے ایک اور طالب علم عمر خالد جنہیں غداری کے الزام میں ملوث تھے کو دہلی حکومت انکوائری نے الزامات سے بری قرار دیا ۔ دہلی حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا کہ9فروری کو کنہیا کمار و دیگر طلبہ کے خلاف لگائے گئے غداری کے الزامات اور مخالف ہند نعروں کا کوئی بھی ثبوت نہیںملا، ناہی اس ضمن میں کوئی شاہد نے اس بات کی گواہی دی ہے ۔

We don't want freedom from India, my brothers, we want freedom in India: Kanhaiya Kumar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں