رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اظہار میں بھی ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھنا ضروری ہے، ہمارے بعض شعراء نعتیہ اشعار کچھ اس طرح کہتے اور پڑھتے ہیں جیسے اپنی محبوبہ کے گیسو و عارض کی تعریف کررہے ہوں اور اس کے سراپا کا نقشہ کھنچ رہے ہوں ، ظاہر ہے کہ یہ اظہار محبت کا ناشائستہ طریقہ ہے ، اخبارات میں ایک طرف ایسا اشتہار ہوتا ہے ، جس کا تعلق ملبوسات کی دکان سے ہے اور جس میں نیم عریاں شکل میں آنچل لہراتی ہوئی ایک عورت کھڑی ہوئی ہے اور ٹھیک اس کی پشت پر یا اوپر نیچے رسول اللہ ﷺ کا پاک ذکر ہے ، سوچئے، کیا یہ بے ادبی نہیں ہے ؟ کاغذ کی ایسی جھنڈیاں تیار کی جائیں ، جن پر کلمہ طیبہ ہو اور جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام ہو اور یہی جھنڈیان چند دنوں کے بعد زمین میں زدموں سے پامال کی جائیں، کیا یہ بے احترامی نہیں ہے؟ اظہار محبت کے نام پر کتنی ہی ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں ، جو رسول اللہ ﷺ کے مقام و مرتبہ کے خلاف ہیں ۔ بہت سی باتیں جو اختیار کی جاتی ہیں وہ ایسی ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانے کے عمل سے منع فرمایا، آپ ﷺ نے درخت کو کاٹنے سے منع فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان سایہ سے محروم ہوتا ہے اور ماحولیاتی توازن متاثر ہوتا ہے آپ ﷺ نے گھر کی نالی راستے پر نکالنے سے روکا ، تاکہ تعفن پیدا نہ ہو ، آپ ﷺ نے راستہ میں کچرا اور تکلیف دہ چیزیں ڈالنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی ایمان میں داخل ہے ۔ “وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق۔( صحیح مسلم، باب شعب الایمان ، حدیث نمبر:162)تکلیف دہ چیزوں میں راستہ کی رکاوٹ بھی ہے ، راستہ میں ایسی چیزیں رکھ دینا کہ ٹریفک کا بہاؤ متاثرہوجائے ، اس طرح کھڑا ہوجانا کہ چلنے والوں کے لئے رکاوٹ پیدا ہو جائے اس اذیٰ( تکلیف دہ چیز) میں داخل ہے ، جس کے ہٹانے کا آپ ﷺ نے حکم فرمایا ہے ۔
ایسی ریکارڈنگ لگانا کہ محلہ کے لوگوں کے لئے سونا دشوار ہوجائے یا بیماروں کو تکلیف ہونے لگے ، ایذا ہی کی ایک شکل ہے، حضرت مقداد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت کسی جگہ جاتے تو ایسی آواز میں سلام فرماتے کہ جو لوگ بیدار ہوں وہ سن لیں اور جو لوگ سوئے ہوئے ہوں، ان کی نیند میں خلل واقع نہ ہو ۔ فیجیء من اللیل فیسلم تسلیما لا یوقظ نائما ویسمع یقظان۔( مسلم، حدیث نمبر:2055)
یہاں تک کہ آپ ﷺ نے قرآن مجید بھی بہت اونچی آواز میں پڑھنے کو پسند نہیں فرمایا: حضرت ابو سعید خدری ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے، آپ ﷺ نے صحابہ کو زور زور سے قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا کہ تم سب اپنے پروردگار سے سرگوشی کررہے ہو: لہذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور قرآن پڑھنے میں ایک دوسرے سے آواز بلند نہ کرو۔ غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات چھپی ہوئی نہیں ہیں ، بلکہ وہ روشن آفتاب کی طرح ہم سب کے سامنے ہیں ، ہم ان کو پڑھ کر آپ ﷺ کی پسند و ناپسند کو جان سکتے ہیں ، اور اس کی ترازو میں اظہار محبت کے ان طریقوں کا تجزیہ کرسکتے ہیں ، جن کو آج ہم نے اختیار کررکھا ہے ۔ ہم اس ماہ میں ضروراپنی خوشی کا اظہار کریں ، لیکن طریقہ ایسا ہو کہ وہ شریعت کی میزان میں بھی درست ہو اور اس سے دینی نفع بھی ہو۔ اظہار مسرت کا ایک بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم لوگ اس یادگار مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک اس کو پہنچانے کا اہتمام کریں ، اللہ کا شکر ہے کہ ہر زبان میں سیرت کا لٹریچر موجود ہے، یہ کتابیں مختصر بھی ہیں، متوسط ضخامت کی بھی ہیں اور ضخیم بھی ہم خود ان کا مطالعہ کریں اور اپنے مطالعہ کو نئی نسل تک پہنچائیں ، خواتین اور بچوں کو سنائیں ۔اظہار محبت کا دوسرا مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم برادران وطن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور آپ ﷺ کی انسانیت نواز تعلیمات کو پہنچائیں ، اس وقت مغرب کی جانب سے ایک منظم کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں ، آپ ﷺ کی توہین کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں ، جب اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو ہم لوگ احتجاج کرتے ہیں اور ہم اس احتجاج میں حق بجانب بھی ہیں، لیکن یہ اس مسئلہ کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے ، اس کا اصل حل یہ ہے کہ غیر مسلم بھائیوں تک رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ پہنچائی جائے ، خاص کر آپ ﷺ کی بلند اخلاقی کے واقعات اور انسانیت نواز تعلیمات کو عام کیاجائے ، مقامی زبانوں میں سیرت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ مقدار میں شائع کیاجائے اور ایک ایک غیر مسلم بھائی تک اس کو پہنچانے کی کوشش کی جائے ، اگر ہر صاحب استطاعت مسلمان یہ طے کرلے کہ وہ انگریزی ، ہندی اور یا ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں موجو د سیرت کی کتاب کے ایک سوتا ایک ہزار نسخے اپنے بردران وطن تک پہنچائے گا، ہاسپٹل جاکر مریضوں میں ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹیشن پر جاکر مسافروں میں ، اسکولوں اور کالجوں میں جاکر اساتذہ اور طالبات میں تقسیم کرے گا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حقیقی اظہار ہوگا ، اس طرح غلط فہمیوں کے بادل چھٹیں گے ، لوگ آپ ﷺ کی ہستی کو پہنچانیں گے اور آپ ﷺ کی محبت و عظمت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی ۔ اظہار محبت کا تیسرا طریقہ۔۔۔۔۔۔۔۔جس کو خود آپ ﷺ نے ترغیب دی ہے ۔ درود شریف کی کثرت ہے ۔گھروں میں ایسا ماحول بنائیے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں ، ہر مسلمان خاندان طے کریں کہ کم سے کم اس ماہ میں ہم سب مل کر ایک لاکھ دفعہ درود شریف پڑھیں گے اور آئندہ بھی سہولت کے لحاظ سے اس کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو آپ کی احسان شناسی کا مناسب اظہار ہوگا: کیوں کہ امت کا درود شریف رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیاجاتا ہے اور درود کی یہ کثرت انشاء اللہ آخرت میں بھی حضور ﷺ کی شفاعت میں حصہ دار بنائے گی ۔ اگرہم سیرت کا پیغام مسلمانوں تک پہنچا کر، غیر مسلموں کو آپ ﷺ کی ذات سے واقف کراکر اور درود شریف کی کثرت کے ذریعہ آپ سے محبت و تعلق کا اظہار کریں تو یہ اظہار محبت کی کتنی بہتر ، مفید اور ثمر آور صورت ہوگی۔ کاش! ہم ٹھنڈے دل سے اور دینی تعلیمات کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ پر غور کریں ۔
The correct way to express the love of the Prophet s.a.w
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریں