یو این آئی
حریت کانفرنس کے صدر نشین میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ کشمیر کوئی امن و امان یا صرف کوئی اقتصادی یا سرحدی تنازعہ نہیں ہے بلکہ ایک انسانی اور سیاسی مسئلہ ہے جس کو صرف سیاسی بنیادوں پر ہی حل کیاجاسکتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت ہندوستان کی موجودہ قیادت کا طرز عمل اس ضمن میں نہ صرف حد درجہ جارحانہ ہے بلکہ مسئلہ کشمیر سے جڑی تمام سیاسی اور تاریخی حقیقتوں سے انحراف کے مترادف ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ موجودہ مودی حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے طاقت کے غرور کا شکار ہے اور اس مسئلہ کو سیاسی ڈائیلاگ کے بجائے طاقت اور تشدد کے بل بوتے پر دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے7نومبر کو سری نگر کے شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران پڑوسی ملک پاکستان اور مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی ذکر کرنے سے گریز کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کہ انہیں کشمیر کے معاملے میں کسی مشورے اور تجزیے کی ضرورت نہیں ہے۔ میر واعظ عمر فاروق جو گزشتہ دس دنوں سے مسلسل اپنی رہائش گاہ میں نظر بند ہیں ، نے آج اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس ے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے کشمیر خصوصا موسم گرما کے دارالحکومت سری نگر کے بیشتر علاقوں میں آئے روز عوامی نقل و حمل پر پابندی اور غیر اعلانیہ کرفیو کے مسلسل نفاذ کو تانا شاہی اور انتقام گیرانہ سیاست کاری کا بد ترین مظاہرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مدافعتی حکمت عملی پر غوروخوض کے لئے آنے والی 18نومبر کو میر واعظ منزل پر جموں و کشمیر کی جملہ مزاحمتی جماعتوں کے سربراہوں ، ائمہ مساجد ، علمائ، تجارتی انجمنو ں کے نمائندوں، وکلاء صاحبان، اسٹوڈنٹس، ایسوسی ایشن، ٹرانسپورٹرس اور معززین شہر کا ایک غیر معمولی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ حکومتی سطح پر ان عوام دشمنانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی وضع کی جاسکے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے بل پر یہاں کے عوام کو دبانے اور ان کے جملہ حقوق سلب کرکے کشمیر کو عملا ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاںکے عوام کو فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور مزاحمتی قائدین کی پر امن سیاسی مذہبی سرگرمیوں پر پابندی تو الگ عام لوگوں کی نقل و حرکت کو بھی ناممکن بنادیا گیا ہے خصوصا شہر خاص میں سات تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں کے عوام کو آئے روز معمولی واقعات کی آڑ میں گھروں میں محصو ر کردیاجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فورسز کے بے پناہ جمائع کے بل پر عوام کی روز مرہ کی سرگرمیوں کو مسدود کردیاجاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام کو نہ صرف روزانہ کی ضروریات ، اشیایہ ضروریہ کے حصول میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ ان پابندیوں کی وجہ سے شہر کی تجارتی سر گرمیوں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں جو یہاں کے عوام کی معاشی بد حالی پر منتج ہورہی ہے اور یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیاجارہا ہے تاکہ عوام کو اقتصادی طور پر مفلوک الحال اور دست نگر بناکر ان کو اپنی جائز جدو جہد سے دستبردار کرنے پر مجبور کیاجاسکے ۔ میر واعظ عمر فاروق نے الزام عائد کیا کہ ریاستی حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے خود یہاں کے عوام کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے ۔ مطلق العنانیت کا دور دورہ ہے ایک طرف کشمیریت اور جمہوریت کا راگ الاپا جارہا ہے ۔ اقتصادی پیکجوں کے خوش کن نعروں سے عوام کو بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف یہاں کے عوام کو بندوق کی نوک پر پشت بہ دیوار کرنے کے لئے فورسز کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ کالے قوانین کے بل پر عوام کو زیر کرنے کا عمل جاری ہے حتی کہ یہاں اپنوں کے جنازے اٹھانے اور ان پر رونے اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ تعزیت کرنے پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ۔ ریاستی دہشت گردی عروج پر ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ریاستی حکمراں یہاں محض ہندو توا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ہی مسند اقتدار پر بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان ظلم و زیادتی کے خلاف جب لوگ آواز بلند کرتے ہیں تو ان کے خلاف مہلک پیپر گیس اور ایسے جان لیوا کیمیکلز کا استعمال کیاجاتا ہے جس کو ماہرین صحت انسانی زندگیوں کے لئے حد درجہ نقصاندہ قرار دے رہے ہیں ۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ مزاحمتی قیادت کے بیشتر قائدین کی سیاسی اور مذہبی سر گرمیوں پر پابندی ریاستی حکمرانوں کی پالیسی بن گئی ہے ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کے زیر سایہ ایک منظم مافیا کو وجود میں لایا گیا ہے جو معصوم نوجوانوں کو پہلے تو کسی نہ کسی بہانے گرفتار کرکے جیلوں میں بند کرتے ہیں بعد میں ان کے عزیز و اقارب سے ان نوجوانوں کی رہائی کے بدلے کثیر رقومات کا مطالبہ کرتے ہیں جسے ثابت ہوتا ہے کہ عملا زمین پر یہاں حکومت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گوہر نذیر ڈار کا سانحہ کوئی ایک سانحہ نہیں ہے بلکہ ایسے خونیں واقعات یہاں تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات وقوع پذٰیر ہورہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوج اور فورسز کا جماؤ عسکریت کو زیر کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہاں کے عوام کو طاقت کے بل پر دبانے کے لئے ہے۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں