یہ نہ تو گری راج سنگھ کا پہلا متنازعہ بیان ہے اور نہ بی جے پی کا۔ ان لوگوں کی تو عادت سی ہو گئی ہے اور کیوں نہ ہو انھیں معلوم ہے کہ وہ کچھ بھی اناپ شناپ بک لیں، کوئی ان کی باز پُرس کرنے والا نہیں۔ان میں سے کسی کا کہنا ہے کہ "جو مودی کا ہم نوا نہ ہو وہ، پاکستان چلا جائے" تو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ "دہلی میں رام زادوں کا راج ہوگا، نہ کہ حرام زادوں کا"کسی کے مطابق "راہل گاندھی پارلیمنٹ چھوڑ کر بغیر شادی کے ہی وِدیش میں ہنی مون منانے میں لگے ہوئے ہیں" اور کسی کے مطابق "نرسوں کو بھوک ہڑتال سے اس لیے باز رہنا چاہیے کہ اس سے ان کا رنگ کالا پڑ جائے گا" وغیرہ وغیرہ۔کیا کیا ذکر کریں، یہ سب آپ اخبارات و نیوز چینلوں پر دیکھتے ہی رہتے ہوں گے، اس وقت اسی سلسلے کی ایک سیاہ کڑی گری راج سنگھ کے بیان پر کچھ خامہ فرسائی کرنا مقصود ہے تاکہ قارئین کو بتایا بلکہ جتایا جا سکے کہ جب خدا اور رسول کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو بغیر کسی باز پرس کے چھوڑ دیا جائے گا، جب اسلام کے شعائر پر حملہ کرنے والوں سے تعرض نہیں کیا جائے گا، پھر آپ اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیے کہ ان سب کے باوجود آپ خوشی خوشی زندگی گذار سکیں گے، ملک میں امن و امان کی ہوائیں چلتی رہیں گی۔یہ تو شروعات ہے، اگر ان سب کے بعد بھی محاسبہ نہ کیا گیا تو حالات اس سے بھی بد تر ہو سکتے ہیں۔ کسی کی ماں، بہو، بیٹی پر اس طرح کی اوچھی پھبتیاں کسنا ۔۔۔افسوس ۔۔۔ہمارے پاس الفاظ نہیں۔ یہ واقعی کہنے والے کی ذہنیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس بات کا پتا دیتا ہے کہ ان جملوں کو استعمال کرنے والا کیسی سوچ کا مالک ہے۔اسی لیے ہم اپنے مضمون کا عنوان باندھا ہے ــ" ظرف میں جو ہوگا، وہی چھلکے گا؟"
مرکزی وزیر اور بہار کےبی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے اپنے متنازعہ بیان میں کہا کہ "گورا رنگ ہونے کی وجہ سے ہی سونیا گاندھی کانگریس کی صدر بنی ہیں۔ اگر راجیو گاندھی نے کسی نائجیرین کالی عورت سے شادی کی ہوتی، تو کیا کانگریسی اسے اپنی صدارت کے لیے قبول کرتے؟" ان کا یہ بیان جہاں ایک طرف رنگ و نسل پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے وہیں اور بھی بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔اس بیان کو لے کر ملک بھر میں سیاست تیز ہو گئی ہے۔جہاں کانگریس کے ساتھ دیگر مخالف جماعتوں نے گری راج سنگھ پر حملے تیز کردییے ہیں اور وزیر اعظم سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے،وہیں بی جے پی کے لیےاپنے لیڈر کے اس بیان کا دفاع کر پانا مشکل ہو گیا ہے۔ کانگریس تو شاید یہ سوچ رہی ہے کہ بہت دنوں کے بعد اس مدے کو لے کر اپنی پارٹی کے کارکنان کو "وارم اپ" کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے اور بی جے پی پر دباؤ بھی بنایا جا سکتا ہے، ویسے سونیا گاندھی پر اس بے ہودہ تبصرےسے کانگریسی سخت ناراض ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعظم کو معافی مانگنی چاہیے۔
کانگریس کے ترجمان منیش تیواری کا کہنا ہے کہ یہ بیان بی جے پی کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔سی پی ایم لیڈر ورندا کرات نے بھی اس بیان کی جم کر مذمت کی اور کہا کہ گری راج سنگھ نے گھناؤنا بیان دیا ہےنیز انھوں نے کہا کہ یہ اشتعال انگیز بیان ہےجوکسی بھی پروفیشنل خاتون کے لیے قابل اعتراض بھی۔پردیپ سنگھ سرجی والا کا ماننا ہے کہ مودی کے وزرا اور بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کے درمیان بے شرمی کی حدیں توڑنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دگ وجے سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ایسے ہی تبصرے کرنے کے لیے کابینہ میں آئےہیں،اس پر کارروائی ہونی چاہیے اور ایسے لوگوں کووزارت سے ہٹایا جانا چاہیے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ گری راج کے لیے اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے،وہ انتخابات کے موقع پر بھی الٹے سیدھے بیانات دیتے رہے ہیں۔ سدانند سنگھ نے اسے گری راج اور بی جے پی کی اوچھی ذہنیت قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ گری راج کے اس بیان سے بی جے پی کا کردار سامنے آ گیا ہے۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی گری راج سنگھ کے مذکورہ بیان پر تنقید کی ہے۔ جے ڈی یو کے صدر شرد یادو نےکہاکہ ہم گری راج سنگھ کے بیان سے اتفاق نہیں رکھتے،ہم لوگ نسلی تعصب اور نسل پرستی کے خلاف ہیں۔لالو پرساد یادو نے اپنے مخصوص انداز میںکہا ایسے لوگوں کے خلاف سخت قانون بنانا چاہیے اور انھیں انھیںوزارت سے برطرف کر دینا چاہیے، بلکہ انھوں نے تو "مہیلا آرگنائزیشن" سے درخواست کی کہ ایسے لوگوں کو چوڑیاں پہنائیں۔
ملک بھر میں اس بیان پر ہوئی سخت تنقید اور رد عمل کے بعد گری راج سنگھ نے بھی "اگر" "مگر" کے ساتھ کہا کہ اگرمیرے بیان سے سونیااورراہل کوتکلیف پہنچی ہو تومیں معافی مانگتاہوں۔واضح رہے کہ تا دم تحریر خود سونیا گاندھی کی جانب سے اس پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے، جب کہ ان کے حامی ممبئی، دہلی، بنگلور اور پٹنا سمیت پورے میں ملک میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر اتر آئے اور گری راج سنگھ کے پتلے بھی نذرِ آتش کیے، جس میں بعض مقامات پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چار ج وغیرہ کرنے کی بھی اطلاع ملی ہے۔
گری راج سنگھ کا یہ بیان واقعی اخلاقی اور قانونی ہر اعتبار سے ناشائستہ ہے، جس پر ردِ عمل ظاہر ہونا چاہیے لیکن ہمارے خیال میںایسے موقعوں پر ا س طرح سڑکوں پر اتر آنے اور احتجاج کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، اگر اس طرح کے معاملات کو مستقبل میں پورے طور پر ختم کرنا ہے تو ملک گیر پیمانے پر ٹھوس اقدام کیجیے، ہاں اگر محض سیاسی پارٹیوں کو گرمانے کا کام لینا چاہتے ہیں، تو پھر جو کر رہے ہیں وہ شاید کافی ہے۔
***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری |
The controversial statement of BJP leader Giriraj Singh. Article: Nadim Ahmed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں